وقت، ترجیحات، نظم و ضبط اور ہم


میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کا کام انتہائی مصروفیت والا ہوتا ہے پھر بھی ان کے پاس ہر سرگرمی کے لئے وقت نکل آتا ہے۔ دونوں اقسام کے لوگوں کو دیکھیں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر ماجرا کیا ہے کہ ایک کے پاس وقت ہے اور دوسرے کے پاس وقت ہی نہیں۔ کچھ زندگی بہت تھوڑا کر پاتے ہیں اور کچھ بہت کچھ کر جاتے ہیں، حالانکہ دن میں سب کے لئے وہی چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔

اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اصل کمال وقت کو مینیج کرنے میں ہے۔ جو جتنا اچھا منتظم ہو گا، وقت کا درست استعمال کرے گا، اس کے چوبیس گھنٹے اس کی تمام تر سرگرمیوں کے لئے کافی ہوں گے۔ اس کے برعکس جو وقت کی قدر نہیں کرے گا، اسے چوبیس گھنٹے بھی تھوڑے لگیں گے اور وہ تھوڑا بہت ہی کر پائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم وقت کو درست طریقے سے مینیج کرنا سیکھیں۔

کچھ سال پہلے میں نے کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی خاتون سی ای او کا ایک انٹرویو پڑھا تھا جس میں اس نے ایک واقعہ بتایا تھا کہ ایک صحافی کسی جریدے کے لئے اس کا انٹرویو کرنے کا خواہشمند تھا۔ ان دنوں وہ چھٹی پہ تھیں اور اس نے صحافی سے معذرت کی کہ وہ مصروف ہیں اور انٹرویو نہیں دے پائیں گی۔ صحافی نے پلٹ کر کہا کہ آپ تو چھٹی پر ہیں تو مصروف کیسے ہوئیں۔ جس پر انہوں نے صحافی کو واضح کیا تھا کہ اس وقت انٹرویو دینا ان کی ترجیحات میں نہیں، چھٹی کے دوران آرام اور تفریح ان کی ترجیح ہے۔

یوں وہ صحافی خاموش ہو گیا تھا۔ اکثر اوقات لوگ بس چلتے چلے جاتے ہیں، بے سمت اور اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً وہ اپنے اور دوسروں کے وقت کا ضیاع کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی ترجیحات پر توجہ دیں، ان کا تعین کر لیں اور ان کے مطابق اپنے وقت کو بانٹیں تو ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ یوں ہمارے پاس اپنی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق تمام تر سرگرمیاں کرنے کے لئے وقت میسر ہو گا۔ ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد ایک اہم پہلو نظم و ضبط کا ہوتا ہے، نظم و ضبط کار ہائے فضول سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہماری معاونت کرتا ہے۔

سائنسی بنیادوں پر یہ واضح ہوا ہے کہ بے ربط لوگ جو اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرتے، زندگی میں کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے کام نا مکمل رہ جاتے ہیں اور وہ وقت کی کمی کا راگ الاپتے نظر آتے رہتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ کیا جائے گا تو یہ آشکار ہوتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ اپنی ناکامیوں کے الزام کا بوجھ دوسرے افراد و حالات پر لادتے نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی بس کٹی جاتی ہے، بے ہنگم و بے مقصد۔

ان لوگوں کے الٹ، جو لوگ نظم ضبط کو اپنی زندگی کا شعار بناتے ہیں، ان کے قدم ایک روشن منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کی سرگرمیاں بامقصد ہوتی ہیں اور وہ مثبت سوچ و عمل کی زندہ جاوید مثال کے طور پر ابھر کے سامنے آتے ہیں۔ یہی لوگ اپنی قسمت سنوارتے ہیں اور وقت و حالات ان کی منشا کے مطابق ان کو احسن نتائج دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر ترقی کے مراحل طے کرنے ہیں تو کارآمد افعال کو ترجیح دینی ہوگی۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ کس چیز کو کتنا وقت دینا ہے اور کس جگہ رکھنا ہے۔ یوں وہ ایک سمجھے بوجھے منصوبہ کے مطابق اپنی کارآمد سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا وجود اپنی ذات سے آگے اپنے اردگرد رہنے والوں کے لئے بھی سود مند ہوتا ہے اور یوں ان کا کردار ایک مسیحا کے روپ میں نکھر کر سامنے آتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments