افغانستان میں خواتین پر پابندیاں: ’میں عورتوں کے تحفظ کے لیے پولیس میں تھی مگر اب اپنا تحفظ نہیں کر سکتی‘


افغان خواتین
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران افغانستان کی خواتین کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران کبھی طالبان نے ملک میں مخلوط تعلیمی نظام پر پابندی عائد کی تو کبھی کام کرنے والی خواتین کو نوکری کرنے سے منع کیا۔

کبھی بازاروں اور پارکوں میں خواتین کے اکیلے جانے پر پابندی لگائی گئی تو کبھی ان کے لباس پر انھیں تشدد اور تنقید کا نشانہ بنایا۔

طالبان کے اقتدار کے دوران افغانستان کی خواتین کو تعلیم، کام کرنے، باہر جانے حتیٰ کہ ان کی شناخت کے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔

آج افغان خواتین کا ان کی زندگی، ان کے حقوق، یہاں تک کہ ان کی شناخت تک پر ان کا اپنا کنٹرول نہیں ہے۔

اس عرصے کے دوران ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جب تن تہنا لڑکی مسلح طالبان کے سامنے احتجاج کر رہی ہے اور ایسا بھی ہوا جب مردوں کا لباس زیب تن کر کے ہرات یونیورسٹی کی طالبہ نے کہا ’یہاں افغانستان میں لڑکی ہونا جرم ہے۔۔۔ میں مردوں کا لباس پہننے پر مجبور ہوئی ہوں کیونکہ کوئی مرد عورتوں کے حقوق کے لیے کھڑا  نہیں ہونا چاہتا۔‘

چند ہفتے پہلے تک تو طالبان لڑکیوں کے بیگ اور سکارف کے رنگ کی بنا پر انھیں تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے مگر اب یہ صورتحال ہے کہ خواتین پردے میں بھی یونیورسٹی کا گیٹ عبور نہیں کر سکتیں۔ ان پر تعلیم اور نوکریوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔

گذشتہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں کبھی طالبان برقعوں میں ملبوس خواتین کو بطور سزا ہنٹر مارتے ہوئے نظر آئے تو کبھی احتجاج کرتی ہوئی خواتین پر تشدد کرتے ہوئے۔ پھر بھی افعاسنتان کی بہادر خواتین اکیلے اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔

ہم نے ایسی ہی چند خواتین سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال سے متعلق بات کی ہے۔

افغان خواتین

’مجھے میرے مستقبل کا کچھ نہیں پتا‘

22 سالہ رزمیندہ نے ٹیلی فون پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اپنے غیر یقینی مستقبل کے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔

رزمیندہ ایک سکول میں پڑھاتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ اب گھر میں ہی رہنے پر مجبور ہیں، نہ خود مزید تعلیم حاصل کر پا رہی ہیں اور نہ ہی سکول میں پڑھا سکتی ہیں۔

انھوں نے دوران گفتگو سوال کیا کہ ’کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں۔ میرے پاس پاسپورٹ ہے، لیکن یہاں کابل میں اب کوئی سفارتخانہ نہیں، باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ میں سرحد پار کروں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین میں اپنا نام رجسٹرڈ کرواؤں۔‘

رزمیندہ جو کہ ایک پرائیویٹ کوچنگ سینٹر میں استاد تھیں اب اپنی نوکری کھو چکی ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنے بھائیوں کی ویڈیوز بھی بھجوائیں جن میں وہ ننھے بچے مدد کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔

افغان خواتین

’میں عورتوں کے تحفظ کے لیے پولیس میں تھی مگر اب اپنا تحفظ نہیں کر سکتی‘

طالبان کے دور حکومت سے قبل ایک سابقہ پولیس اہلکار جو کبھی خواتین کے تحفظ کے لیے بطور وویمن پولیس کے خدمات انجام دیتی تھی، ان کا خاندان جو کبھی کابل میں رہتا تھا اب شہر کے نواح میں ایک کے بعد دوسرا گھر بدلنے پر مجبور ہے۔

پولیس اہلکار جن کا نام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں جا سکتا نے ہمیں انٹرویو میں بتایا ’میں عورتوں کے تحفظ کے لیے بطور پولیس ویمن کام کرتی تھی لیکن اب میں خود اپنا دفاع نہیں کر سکتی، اپنے رشتہ داروں تک کے گھر نہیں جا سکتی۔ جب میں باہر جاتی ہوں تو حجاب اور برقعہ لیتی ہوں۔ ڈیڑھ سال کے دوران مجھے بہت سے گھر بدلنا پڑے۔ میرے گھر کا سامان ایک ایک کر کے بِک گیا۔‘

خاتون پولیس اہلکار کو زندگی چھن جانے کا خدشہ ہے کیونکہ طالبان نے جیلوں سے ایسے مجرموں کو رہا کر دیا ہے جنھیں پکڑوانے میں انھوں نے مدد کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’طالبان نے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے وہ جب ہم تک پہنچ جائیں گے تو ہمیں مار ڈالیں گے۔ ہمارے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ایک ہی راستہ ہے کہ میں اپنی شناخت چھپا کر رہوں۔ میں بہت سے کمیونٹی لیڈرز کے پاس گئی تاکہ مجھے انسانی بنیادوں پر امداد ملے لیکن انھوں نے میری مدد نہیں کی۔ میں بطور پولیس ویمن اپنا تعارف نہیں کروا سکتی۔‘

’یہاں زندگی پنجرے میں قید پرندے جیسی ہے‘

افغان خواتین

ذکیہ ذہدت ایک سماجی کارکن ہیں اور ان خواتین میں شامل ہیں جو افغان خواتین کے حالات دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں زندگی پنجرے میں قید پرندے کی مانند لگتی ہے۔

بی بی سی کو انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ’جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں تب سے اب تک ہم نے 15 کے قریب احتجاج کیے ہیں۔ عورتوں پر بہت سختیاں ہیں۔ طالبان میرے سمیت احتجاج کا انتظام کرنے والوں کا پیچھا کرتے ہیں، بہت سے لوگ گرفتار بھی ہو چکے ہیں اس لیے ہم اب گھر کے اندر احتجاج کر رہے ہیں تاکہ اپنی آواز سے معاشرے میں خواتین کی برادری کو متحرک کر سکیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اب ہم موبائل سم کارڈ بھی نہیں خرید سکتے، میں بہت بُرا محسوس کر رہی ہوں، آپ اس کو ایسے سوچ سکتے ہیں جیسے ایک پرندہ ہے اور اس کے پر  کسی نے کاٹ دیے ہیں اور وہ پنجرے میں قید ہے۔۔۔۔ میں اب کچھ بھی نہیں کر سکتی۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں طالبان: گذشتہ ایک دہائی کے دوران افغان خواتین کی زندگیاں کن نشیب و فراز سے گزریں؟

افغان خواتین پر سب دروازے بند

افغانستان کی خواتین کا خوف، مایوسی اور تھوڑی سی امید

افغان خواتین

طالبان ان پابندیوں کو شریعت کا نام دیتے ہیں اور ان کی نظر میں عورتوں کے پارک میں جانے، یونیورسٹی کالج جانے، یا ملازمت کرنے کے لیے کام پر جانے سے روکنا درست اقدام ہے۔

افغانستان میں پہلی خاتون ڈپٹی سپیکر کا غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے جانے والا انٹرویو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ طالبان نے عورتوں کو ختم کر دیا ہے اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ ان کو کہیں کہ تمھیں سانس نہیں لینا چاہیے۔

انھوں نے دنیا کی جانب سے اپنائے گئے رویے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی اور انھیں این جی اورز میں کام کرنے سے روکنے کے اقدام پر تنقید کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عملی طور پر وہ طالبان کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

ایسی سینکڑوں خواتین ہیں جو اس صورتحال کے باعث پاکستان اور دیگر ممالک میں اپنے خاندانوں سے بہت دور رہنے پر مجبور ہیں۔

مرضیہ ایک برس سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں اور یہاں سے بیرون ملک جانے کی منتظر ہیں، افغانستان سے نکلنے سے پہلے بھی انھیں کئی ماہ تک ایک شیلٹر ہوم میں چھپ کر رہنا پڑا تھا۔

مرضیہ کی والدہ اپنے دیگر بچوں کے ساتھ کابل سے دور ایک دیہی علاقے میں رہ رہی ہیں۔

مرضیہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم میں کب یہاں سے نکل سکوں گی اور اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد کے لیے رقم بھجوا سکوں گی۔‘

’ان کے پاس ابھی اتنی رقم نہیں کہ وہ کسی طرح افغانستان سے نکل آئیں کیونکہ اب پاکستان پہنچنا بھی بہت مشکل ہو چکا ہے، ہزاروں ڈالر کی رقم خرچ کر کے لوگ افغانستان سے نکل سکتے ہیں۔‘

لیکن مرضیہ نے مجھے کہا کہ کیا وہاں سے نکل جانا ہی حل ہے آپ بتائیے ناں۔۔۔ لاکھوں خواتین اور لڑکیاں کیسے ملک سے نکل سکتی ہیں؟

یہاں پاکستان میں میری ملاقات چند ہفتے پہلے منتقل ہونے والے خاندانوں  اور تنہا آنے والی لڑکیوں سے بھی ہوئی۔

ان کی آنکھوں میں ایک امید دکھائی دیتی ہے کہ شاید وہ اپنے آنے والے کل کو طالبان کے سائے سے نکل کر بدل لیں گی، لیکن کب اس کا جواب ان کے پاس نہیں۔

افغان خواتین

’اگر طالبان حکومت میں رہنا چاہتے ہیں تو خواتین پر دروازے بند کرنا نامکمن ہے‘

مونیثہ موبریز ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’طالبان نے مجھے دیکھتے ہی قتل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور اس لیے مجھے ملک سے نکلنا پڑا۔‘

ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قہوے کی پیالی میرے سامنے رکھتے ہوئے مونیثہ نے جب اپنا گھر اور خاندان چھوڑنے اور پاکستان میں عارضی منتقلی کی روداد سنائی تو آنکھوں میں آنسو لیے وہ کہنے لگیں ’مجھے نہیں معلوم میرا سفر کہا جا کر ختم ہو گا تاہم انھوں نے کہا کہ میں پہلے تو کبھی نہیں لیکن اب طالبان کو ایک پیغام دینا چاہتی ہوں۔

’مجھے طالبان سے یہ توقع تو نہیں کہ وہ ہمارے پیغامات کا جائزہ لیں گے لیکن میں طالبان کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ افغانستان میں رہنا چاہتے افغانستان کی سیاست میں رہنا چاہتے ہیں افغانستان کے حکومتی سٹرکچر میں رہنا چاہتے ہیں، افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ آپ عورتوں کو مسترد کریں یا انھیں سوسائٹی اور حکومت کے تمام حصوں سے نکال دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments