کورونا وائرس: کمبل ہمیں کب چھوڑے گا؟


کیا کرونا وائرس اپنی نئی شکل میں پاکستان میں آ چکا، یا نہیں؟ کیا یہ نئی شکل ابتدائی وائرس سے کم خطرناک ہے یا زیادہ؟ کیا یہ پہلے کی طرح یا اس سے زیادہ پھیلاؤ اختیار کرے گا یا نہیں؟ کیا جو ویکسین ہم نے لگوا رکھی ہے، وہ اس وائرس سے ہمیں بچائے گی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہ وائرس کبھی ہماری جان چھوڑے گا بھی، یا نہیں؟ یہ سوالات آج کل گردش میں ہیں۔

جنوری سن 2020 میں بھی یہی صورت حال تھی۔ کورونا وائرس چین کے شہر ووہان میں نمودار ہوا۔ چین اسے اپنے ہاں قابو کرنے کی کوشش میں تھا اور باقی دنیا، اپنی آنکھیں چین پر ٹکائے تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان کا بھی ایسا ہی معاملہ تھا اور تشویش باقی دنیا سے زیادہ کیونکہ چین سے ہمارا بارڈر ملتا ہے، سڑک کے ذریعہ روزانہ آمدورفت ہے اور اس کے ساتھ ہوائی ذریعہ سے بھی۔

آج، تین برس بعد بھی وہی صورت ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں چین کا ذکر ہے کہ کورونا کے کیس یک دم بہت بڑھ گئے۔ وائرس کی تبدیل شدہ اقسام کا شور ہے، اور ان کے چکرا دینے والے بے شمار ناموں کا۔ یہ واضح نہیں کہ نئی اقسام کا وجود کس ملک سے ہوا؟ ایک بات البتہ وثوق سے کہی جا رہی کہ یہ ہے اومیکرون ہی۔ کورونا کا وہ بچہ جو پچھلے برس کی ابتدا میں مضامین کا موضوع تھا۔ اور جس نے چند ماہ کے عرصہ میں مکمل طور پر کورونا کی اپنے سے پہلی قسم یعنی ڈیلٹا کی جگہ لے لی تھی۔

اومیکرون کی حال ہی میں پھیلنے والی ذیلی قسم جو XBB۔ 1.5 کہہ کر پکاری جا رہی ہے، اصل قسم سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے اور بیماری پھیلانے کی طاقت رکھتی ہے، لیکن کسی قدر تسلی کی بات یہ ہے کہ یہ شدید نمونیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود یہ تشویش بجا ہے کہ تقریباً سوا ارب آبادی والے ملک چین میں جہاں اکثریت کو ابھی تک کورونا کی انفیکشن نہیں ہوئی تھی، وہاں بزرگ لوگوں اور وہ جو قوت مزاحمت میں کمی کرنے والی دوسری بیماریوں، مثلاً کینسر کا شکار ہیں، ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہو گی۔ ایسے میں اومیکرون سے ہونے والی ایک فیصد شرح اموات بھی چند ماہ میں لاکھوں کے مرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

اس پس منظر کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ایک عام شخص کا کورونا کی معلومات نے تین سال سے ناک میں دم کر رکھا ہے اور آج بھی یہ ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ نئی اقسام کو ہی لے لیں۔ ماہرین کے مطابق ہر ہفتہ کورونا کی ایک نئی شکل نمودار ہوتی ہے۔ نسل در نسل اس کے اس قدر نام اور ذیلی نام ہیں کہ ان کا تعاقب کر نا مشکل ہے۔ سو اس موضوع سے ہونے والی ذہنی تھکاوٹ ایک فطری بات ہے۔ لیکن اس تھکاوٹ کے باوجود معلومات کو ذہن سے بالکل جھٹکا بھی نہیں جا سکتا کہ یہ بہر حال ہماری اور ارد گرد کے لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے۔ سو انتہائی سادہ زبان میں کچھ باتیں یہاں درج کی جا رہی ہیں۔

نمبر ایک: وائرس نے اپنی شکل میں کچھ تبدیلی ضرور کی ہے لیکن ہے یہ اومیکرون ہی۔ اس بات کی اہمیت اس لئے ہے کہ اومیکرون سے پچھلی قسم یعنی ڈیلٹا میں شدید بیماری کی صلاحیت کہیں زیادہ تھی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں مارچ 2021 میں پھیلنے والی ڈیلٹا وبا سب کو یاد ہو گی جس میں اتنی اموات ہوئیں کہ مرنے والے کی آخری رسوم کے لئے شمشان گھاٹ میں جگہ نہیں ملتی تھی۔ اومیکرون نے آ کر ڈیلٹا کی جگہ لے لی، یہ اتنی شدید بیماری نہیں کرتا اور ابھی اس سے کوئی ایسی قسم پیدا نہیں ہوئی جو اتنی الگ ہو کہ اس کا نام ہی نیا رکھا جائے۔

نمبر دو: وائرس کو کسی طرح کے بارڈر یا ائر پورٹ اقدامات روک نہیں سکتے۔ سن 2020 میں تمام اقدامات کے باوجود وائرس امریکہ میں نمودار ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جسے اولین کیس سمجھا گیا اور جو جنوری 2020 میں سامنے آیا، وہ پہلا کیس نہیں تھا۔ پہلا کیس دسمبر 2019 میں ہی پہنچ چکا تھا۔ خود پاکستان میں تمام انتظامات کا رخ چین کی طرف تھا۔ وائرس مگر ایران کے راستے آ گیا۔ توجہ تفتان بارڈر پر تھی جہاں سے زائرین کا داخلہ ہونا تھا اور وائرس ہوائی راستے سے داخل ہو گیا۔ یہ ضرور ہے کہ ہوائی سفر چونکہ وائرس کو پوری دنیا سے ملک میں لے آنے کا ذریعہ بنتا ہے تو مسافروں سے ماسک کی احتیاط پوری کروانا اور علامات والے مسافروں کا ٹیسٹ کرنا تا کہ اندازہ کیا جا سکے کہ کوئی نئی قسم تو ملک میں متعارف نہیں ہو رہی، ضروری ہے۔

نمبر تین : افواہیں پہلے کی طرح اب بھی ہوں گی۔ بد قسمتی سے اس طرح کی وباؤں میں بھی حکومتیں اور دوسرے عناصر سیاسی بیان بازی سے رکتے نہیں ہیں۔ آج بھی یہ حقیقت معلوم نہیں کہ چین میں بتائی جانے والی وبا کا اصل حجم کتنا ہے۔ بیرونی ذرائع اسے بہت زیادہ بتاتے رہے ہیں، اتنا کہ مردہ خانوں میں جگہ ختم ہو گئی، جبکہ چین کے اپنے ذرائع کے مطابق براہ راست کورونا سے بہت کم اموات واقع ہوئی ہیں۔

نمبر چار: وہ سبق جو 2020 کے ابتدائی ہفتوں میں پڑھایا گیا، وہ آج بھی کا ر آمد ہے۔ ماسک پہنیں، ہجوم میں جانے سے پرہیز کریں، آپس میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، گھروں کے اندر تازہ ہوا کی آمد و رفت کو یقینی بنائیں، ہاتھ دھوتے رہیں، اور اگر آپ کو بوسٹر کا بتایا گیا ہے تو ویکسین کی بوسٹر ڈوز بھی لگوائیں۔ بوسٹر کے بارے میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ویکسین کا اثر وقت کے ساتھ کم پڑ جاتا ہے لہذا جب ملکی ہدایات کے مطابق بوسٹر کا کہا جائے لگوا لیں، زیادہ عمر کے لوگ اور وہ جن میں قوت مزاحمت کی کمی ہے، وہ لوگ پہلے بوسٹر لگوائیں۔ دوسرے یہ کہ بعض ممالک میں ویکسین کی وہ تجدید شدہ شکل میسر ہے جو اصلی کورونا وائرس کے علاوہ اس کی اومیکرون قسم (BA۔ 4، BA۔ 5 ) کے خلاف بھی موثر ہے۔

نمبر پانچ: کورونا کی وبا کب ختم ہو گی؟ اس بات کا حتمی جواب ابھی تک کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ ہاں یہ واضح ہے کہ جب تک وائرس ایک سے دوسرے شخص تک منتقل ہوتا رہے گا، اس وبا کا تسلسل برقرار رہے گا۔ وبا کے اختتام کے لئے وائرس کے ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کو روکنا ضروری ہے۔ اور ایسا انفرادی طور پر بچاؤ کے اقدامات کو مستقل اپنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments