گوادر حق دو تحریک


بلوچستان کا ساحلی شہر مچھیروں کی بستی جس کا دوسرا نام گوادر ہے۔ یہاں کے لوگوں کا رزق ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ قدرت نے گوادر سے متصل بحیرہ عرب کو مچھلیوں سے آباد کر رکھا ہے جہاں چھوٹی بڑی سینکڑوں قسم کی مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ گوادر میں آباد مکرانی بلوچوں کی اکثریت صدیوں سے مچھلیاں پکڑنے کا کام کر رہی ہے اور اس مقصد کے لئے کے لئے چھوٹی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں۔ ایران کا آبی اور زمینی راستہ گوادر سے ملتا ہے۔ گوادر کبھی سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ 1958 میں وزیراعظم فیروز خان نون نے ساڑھے پانچ ارب روپے کے عوض پاکستان میں شامل کیا تھا۔

سی پیک منصوبے سے گوادر میں غیر مقامی لوگوں کی آمدورفت بڑھنے اور جگہ جگہ حفاظتی چوکیوں پر تعینات افراد کے رویے سے اور کئی جگہ باڑ اور دیواروں سے عام بلوچوں کو شکایات ہیں۔ ترقی کے نام پر گوادر کی زمینیں باہر کے لوگوں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر ماہی گیروں کی سرگرمیاں محدود کردی گئی ہیں۔ بلوچ مچھیرے سویرے کشتیاں لے کر نکلتے تھے اور شام تک آبی رزق کی تلاش جاری رہتی۔ لیکن اب ماہی گیری کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں۔ اور ماہی گیروں کو لائسنس بنانے کے لئے کہا جا رہا ہے۔

ایک طرف مقامی ماہی گیروں پر پابندی تو دوسری جانب جدید ترین جال بردار کشتیاں یا Fishing Trawlers ساحل کے بہت قریب ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ یہ ٹرالر باریک جال استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ بڑی اور چھوٹی تمام مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں۔ جب تک یہ ٹرالر سمندر میں موجود ہوں مقامی مچھیروں کو ماہی گیری کی اجازت نہیں، جس کے باعث مقامی بلوچ مچھیروں کے بوسیدہ جال خالی رہتے ہیں اور ان روزگار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

مقامی آبادی سے اس امتیازی سلوک کے خلاف مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی قیادت میں گزشتہ دو سال سے ”حق دو تحریک“ چل رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے یہ مچھیرے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ تمام اقدامات سی پیک اور چینیوں کی حفاظت کے نام پر کئے جا رہے ہیں، جبکہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ Lijian Zhao نے بہت ہی غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا کہ گوادر کا ساحل تو دور کی بات، گہرے سمندروں میں بھی کوئی چینی ٹرالر موجود نہیں اور چین مقامی مچھیروں کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سی پیک اور گوادر منصوبے کا واحد ہدف پاکستانی عوام کی خوشحالی ہے اور چین کو پاکستان میں ماہی گیری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ چین کی جانب سے اس وضاحت کے بعد یہ سوالات سامنے آتے ہیں۔

گوادر کے ساحل پر بلوچ ماہی گیروں کے رزق پر ڈاکا مارنے والے یہ ٹرالر کس کے ہیں؟
انھیں چینی ٹرالر کہہ کر ان کی حفاظت کے نام پر مقامی مچھیروں کو کس کے ایما پر تنگ کیا جا رہا ہے؟

بظاہر یہی لگتا ہے کہ مفاد پرستوں کے تحفظ کے نام پر مقامی ماہی گیروں کو سمندر سے دور کر دیا گیا ہے۔ اور اب وہ اطمینان سے قیمتی آبی وسائل لوٹ رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان کہتے ہیں کہ ’چین کے انکار کے بعد کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ ٹرالر مافیا صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہے یا یہ حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔

سمندر تک رسائی بند کر کے مچھیروں کا معاشی قتل عام، تلاشی کے نام پر مقامی لوگوں کی تذلیل، پانی، بجلی بھی میسر نہیں۔ پوری ساحلی پٹی پر صرف ایک ڈگری کالج ہے۔

’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے شرکا ءکا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ ٹرالر مافیا اور چیک پوسٹس کا خاتمہ کیا جائے۔

تحریک کے زیر اہتمام گزشتہ برس نومبر میں بھی کئی روز تک دھرنا دیا گیا تھا تا ہم حق دو تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ حکومت بلوچستان نے ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ اپنے حقوق کے لیے دھرنا دینا پڑا۔

پہلے دھرنے کے خاتمے کا اعلان حق دو تحریک کے مطالبات تسلیم کرنے اور ان پر عملدرآمد سے متعلق معاہدے پر دستخط کے بعد کیا گیا۔ اس معاہدے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان نے دستخط کیے۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ حق دو تحریک کے تمام مطالبات جائز تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن مسائل کے لیے آپ لوگوں نے گوادر میں پرامن جدوجہد کی ان کے حل کے لیے ہم حکومتی سطح پر کام کر رہے تھے۔ ’

حکومت بلوچستان اور حق دو تحریک کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کے اہم نکات یہ تھے۔

» سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور اس کی روک تھام کے لیے محکمہ ماہی گیری اور ماہی گیر مشترکہ پیٹرولنگ کریں گے۔

»ماہی گیروں کے نمائندگان کو باقاعدہ محکمہ فشریز کے دفتر میں ایک ڈیسک دیا جائے گا۔

» ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی اور وی آئی پی نقل و حمل کے دوران بلا ضرورت عوام الناس کی آمد و رفت کو محدود نہیں کیا جائے گا۔

»ٹریڈ یونینز اور کمیٹی سسٹم کے خاتمے کے احکامات جاری کیے جائیں گے، اور سرحدی کاروبار ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطہ کار کے مطابق بحال کیا جائے گا۔

» سرحدی تجارت فرنٹیئر کور سے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گی اور اسے تمام اختیارات دیے جائیں گے۔
» سرحدی تجارت کے حوالے سے ٹوکن، ای ٹیگ میسیج اور لسٹنگ وغیرہ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
»معاہدے کے نکات پر ایک مہینے میں عملدرآمد کیا جائے گا۔
»ضلع گوادر، کیچ اور پنجگور میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی
»مظاہرین کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہوگی ’
»وزیر اعلیٰ بلوچستان ضلع گوادر کے ماہی گیروں کی امداد کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کریں گے۔
»گوادر میں ایکسپریس وے متاثرین کو دوبارہ سروے کے بعد جلد معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

» حق دو تحریک کے کارکنان پر تمام مقدمات فوراً ختم کیے جائیں گے اور حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت کا نام فورتھ شیڈول سے فوری طور پر خارج کیا جائے گا۔

»سمندری طوفان سے متاثرہ ماہی گیروں کے امداد کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رابطہ کر کے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

» وفاقی اور صوبائی محکمے ملازمتوں سے متعلق معذور کوٹے پر عمل کریں گے۔
»مکران ڈویژن کے رہائشی علاقوں میں چادر و چاردیواری کا احترام کیا جائے گا۔

گوادر کو حق دو ’تحریک کے تحت اس بار خواتین نے ریلیاں بھی نکالیں جس میں سینکڑوں خواتین اور ماسی زینی جیسی متحرک سماجی کارکنوں اور بلوچستان سے جبری لاپتا افراد کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ گوادر کی ترقی بلوچستان کی ترقی ہے، مگر زمینی حقائق مختلف ہیں کیوں کہ ہمارے شہریوں کو تو پینے کا صاف پانی بھی نہیں مل رہا۔ دوسری طرف بلوچستان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ گوادر کی تعمیر و ترقی سے صوبے کے عوام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر کے عوام ”حق دو تحریک“ کی حمایت کرر ہے ہیں۔

مقامی آبادی کے لوگ 80 فیصد گندے پانی سے متاثر ہیں روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال میں مریض پیٹ کی بیماری اور ٹائیفائیڈ کی شکایت کے ساتھ ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ گھروں کی ٹینکیوں میں جو پانی آ رہا ہے وہ پینا تو دور کی بات ہاتھ منہ دھونے کے لائق بھی نہیں، مگر لوگ اس سے نہانے اور برتن دھونے پر مجبور ہیں۔ تین اطراف میں پانی سے گھرے اس شہر کو ’پیاسا شہر‘ کہا جاتا ہے۔ سمندر کے کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے چین نے پورٹ پر ایک پلانٹ لگایا ہے لیکن یہ گوادر کے شہریوں کے لیے نہیں ہے۔

گوادر کو آنکاڑہ ڈیم سے سپلائی کیے جانے والا پانی قابل استعمال نہیں۔ شہر کے چند ہی حصے ہیں جہاں پانی کی قلت ذرا کم ہے لیکن زیادہ تر لوگ ٹینکر کا پانی لینے پر مجبور ہیں۔ جن کی قیمت ہزاروں میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور مقتدرہ نے ہمیشہ معاملات کو بگاڑا ہے اور اس تحریک کے لوگوں کو بھی غداری کے سرٹیفکیٹ دیے جا رہے ہیں اب بھی ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ پاکستانیوں کو اہل گوادر کی پشتیبانی کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا وقت کم ہے اور دشمن کی چال بہت کاری کیونکہ طاقتوروں نے تشدد کے پرانے طرز عمل کو اپنا لیا ہے جس سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بگڑتے ہیں۔

اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments