لچکدار موسمیاتی پاکستان: مگر کیسے؟


شنید ہے کہ حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ میزبانی میں موسمیاتی لچکدار پاکستان پر بین الاقوامی کانفرنس 9 جنوری 2023 کو ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس حکومتوں، سرکاری اور نجی شعبوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کو 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کے عوام اور حکومت کی مدد کے لیے اکٹھا کرے گی۔ اس کے دو بنیادی مقاصد ہیں، لچکدار بحالی، بحالی، اور تعمیر نو کا ایسا فریم ورک ( 4 RF) پیش کرنا، جو آب و ہوا کے لیے لچکدار اور جامع انداز میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے تمام شعبوں کی حکمت عملی ترتیب دیتا ہے دوسرا یہ کہ پاکستان کی آب و ہوا کی لچک اور موافقت کی تعمیر کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کریں اور طویل مدتی شراکت داری قائم کریں۔

2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب پاکستان کے لیے کئی دہائیوں کی بدترین تباہی تھی، جس نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا، تقریباً 15,000 افراد ہلاک یا زخمی اور 80 لاکھ بے گھر ہوئے۔ 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 13000 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 439 پل اور 40 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی یا تو تباہ ہوئی یا اسے جزوی نقصان پہنچا۔ ایک اندازے کے مطابق ان سیلابوں کے براہ راست نتیجے کے طور پر مزید 9 ملین افراد غربت کی طرف مجبور ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اسی دوران 2.2 ملین گھرانوں کو 245 ملین امریکی ڈالر کی نقد امداد فراہم کی اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی مدد سے بے سہارا اور بے گھر افراد میں لاکھوں خیمے، خوراک، پانی اور ادویات تقسیم کیں۔ اب تعمیر نو اور بحالی کا بہت بڑا چیلنج سامنے ہے۔ اقوام متحدہ کے نظام، ورلڈ بینک گروپ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے، پاکستان نے ایک پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ (P ڈی این اے ) تیار کیا ہے، جس میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 14.9 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، اقتصادی نقصانات 15.2 بلین امریکی ڈالر اور تعمیر نو کے لیے 16.3 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ پی ڈی این اے نے جن بنیادی ترجیحات کی نشاندہی کی ہے ان میں معاش اور زراعت کی بحالی، نجی مکانات کی تعمیر نو، اور سڑکوں، پلوں، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت عوامی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو شامل ہیں۔

2010 ء کے بعد دوسری بار 2022 میں پاکستان میں آنے والے شدید ترین سیلاب کی وجہ سے ملک کو شدید ترین انسانی بحران کا سامنا ہے جس کی سب سے اہم وجہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل بشمول گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہایت ہی کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کیوں ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے؟ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن ایک ایسا موسمیاتی تبدیلی کے جائزے کا ادارہ ہے جو بدترین موسمی حالات پر سائنسی تحقیق کرتا ہے۔

اس ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معمول سے 50 سے 75 فیصد زیادہ بارش موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی۔ موسمیاتی سائنس کی سینیئر لیکچرر ڈاکٹر فریڈریکے اوٹو نے کہا ہے کہ حساب کی غیر یقینی کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کا ایک سال سے دوسرے سال تک موسم بہت مختلف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مشاہدہ شدہ ڈیٹا اور آب و ہوا کے ماڈلز میں طویل مدتی تبدیلیوں کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ موسمیاتی بحران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موسمی نظام کی تبدیلیوں جیسے مشرقی مون سون بارشوں اور خطے میں مغربی اثرات نے بھی اس سیلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کی طرف ماہرین موسمیات کافی عرصے سے اشارہ کر رہے تھے۔

2010 ء کے شدید سیلاب کے فوری بعد پاکستان کی حکومت اور فوج نے مغربی دارالحکومتوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں جو پاکستان کے سرکاری حکام کو اپنے مشاہدات اور اعداد و شمار کے تجزیہ کی بنیاد پر آگاہ کر رہے تھے کہ ’بہت جلد‘ پاکستان میں ماضی سے زیادہ تباہ کن سیلابی صورتحال کے بارے میں خدشہ ہے۔ تازہ ترین سیلاب کے بارے میں بھی سائنسی برادری اور ماہرین ماحولیات اور موسمیات اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں اسے دو بڑے موسمی نظام کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔

ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سابقہ 12 سالوں کے دوران کسی بھی حکومت اور ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی جو 2010 کے سیلاب کے فوراً بعد سیکریٹری دفاع کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ یہ مسئلہ اس وقت اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں پیش ہوتا رہا۔ مختلف ذرائع یہ اشارے دے رہے تھے کہ بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تباہ کن سیلاب آنے کا خدشہ ہے لیکن افسوس کا یہ مقام ہے کہ خطرے کی اس گھنٹی کی گونج صرف اقتدار کی راہداریوں میں ہی گونجتی رہی۔

گرین ہاؤس گیسیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ، میتھین شامل ہیں، ہوا میں جذب ہو کر سورج کی نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکنے میں مدد دینے والی اوزون تہہ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع، شمال میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، بغیر منصوبہ بندی پھیلتے ہوئے شہر اور شہروں کی طرف آبادی کی نقل مکانی میں اضافہ، ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر دن بدن موسم گرما کے دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پانی کی گزرگاہوں میں رکاوٹوں کے علاوہ کئی دیگر مقامی عوامل ہیں جو آب و ہوا کی عالمی تبدیلیوں کے اثرات کو پاکستان کے لیے شدید تر اور خطرناک بنا رہے ہیں۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان نے سیلاب کے خدشات کے باوجود پہلے خود اس سے نمٹنے کی کوشش کی، اگر پہلے ہی عالمی اداروں سے مدد طلب کر لی جاتی تو شاید پاکستان کو مختلف اداروں اور ملکوں کی طرف سے ریلیف اور ریسکیو میں بروقت مدد مل جاتی۔

پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا ایک فی صد سے بھی کم ذمے دار ہے، لہذٰا دنیا کے وہ صنعتی ممالک جہاں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج زیادہ ہے، انہیں پاکستان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ذریعے آب و ہوا کی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پیدا ہونے غیر معمولی اثرات سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے لیکن اب یہ لازمی امر بن چکا ہے کہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی برادری سے بھی درخواست کرے کہ وہ پاکستان کو بروقت امداد فراہم کی جائے تاکہ پاکستان اس معاملے سے نمٹ سکے۔

ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر ازسر نو مرتب کریں اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک بنیادی سکیورٹی خطرہ قرار دے دیں۔ افواج پاکستان کی افرادی قوت کو ڈیموں کی تعمیر، آبی گزرگاہوں اور آبی ذخائر کی صفائی اور دیگر تمام متعلقہ کوششوں کے لیے بروئے کار لایا جانا چاہیے دفتر خارجہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے اس مظہر کو بین الاقوامی سطح پر ہماری عوامی سفارتکاری کا بڑا مسئلہ شمار کیا جانا چاہیے۔ ’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments