پاکستان میں صحت کے مسائل اور سال 2022


سال 2021 ء وبائی امراض کے خوفناک مناظر، غیر یقینی صورت حال، عالمی تناؤ، غرض یہ کہ بڑے پیمانے پر انسانیت کے لیے ایک مشکل سال رہا تھا۔ سال 2022 شروع ہوا تو کووڈ کی طرز زندگی کو بھول جانے کا سب نے سوچا اور بہتری کی امید کے ساتھ آنکھ کھولی، لیکن وطن عزیز میں صحت کے مسائل پر کیا ہوا اور ہم اس ہنگامہ خیز سال کے آخر تک پہنچ گئے آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

سال 2022 کا سورج طلوع ہوا تو اخبارات میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے بیانات کی بڑی بڑی سرخیاں آویزاں تھیں کہ ”کوئی ایشین ٹائیگر مدینہ کی ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتا، فلاحی ریاست کا ماڈل مسلمان ممالک میں نہیں بلکہ یورپ میں ہے، پاکستان میں خاموش انقلاب آ رہا ہے، 400 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب کے ہر خاندان کے لیے“ ہیلتھ انشورنس ”فلاحی ریاست کی طرف ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اقدام ہے اور یہ وقت بتائے گا کہ یہ منصوبہ میٹرو بس، اورنج ٹرین سے کہیں زیادہ عوام کو فائدہ پہنچائے گا، اتنے بڑے فیصلے ہر کوئی نہیں کر سکتا۔

مارچ 2022 تک پنجاب کے ہر خاندان کے پاس صحت کارڈ ہو گا جس سے وہ سالانہ 10 لاکھ روپے تک علاج کروا سکیں گے۔ خیبر پختون خواہ میں ہر خاندان کو صحت کارڈ دیا جا چکا ہے۔ جب کہ بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں بھی ہر خاندان تک صحت کارڈ پہنچائیں گے۔ صحت کارڈ کا اجراء ایک خوش آئند اور غریب خاندانوں کے لیے ایک زبردست فیصلہ تھا۔ جس سے لاکھوں غریب خاندانوں نے اپنا مکمل علاج کروایا۔ بعد میں قومی شناختی کارڈ کو ہی صحت کارڈ کا درجہ دے دیا گیا۔

یہ کارڈ ابھی تک چل رہا ہے۔ جن لوگوں کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل تھی انہوں نے دوران علاج بھرپور فائدہ اٹھایا۔ البتہ اس میں چند ایک ایسی خامیاں اب بھی موجود ہیں، جس کی وجہ سے اس کے ثمرات پوری طرح عوام کو منتقل نہیں ہو رہے ہیں مثال کے طور پر اس کی ایک شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے قومی صحت کارڈ سے فائدہ اٹھانا ہے تو آپ کو لازمی ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گا۔ ایک دیہاڑی دار مزدور کو مہنگے ٹیسٹ لکھ کر ڈاکٹر کی طرف سے دے دیے جائیں، ان ٹیسٹ کی سہولت گورنمنٹ ہسپتالوں میں نہ ہو تو وہ غریب مزدور اس کارڈ سے پرائیویٹ ٹیسٹ اس لیے نہیں کروا سکتا کیوں کہ وہ ہسپتال میں داخل نہیں ہے۔ اس بارے میں موجودہ گورنمنٹ کو نظر ثانی کرنی چاہیے، اور بغیر داخلے کے مریضوں کا علاج بھی اس کارڈ پہ فری کر دینا چاہیے۔

ہم بہ فضل باری تعالیٰ 2023 کا سورج دیکھنے کے منتظر ہیں، لیکن یہ گزرتا سال کووڈ اور دیگر بیماریوں کے اثرات کی وجہ سے کچھ نام ور شخصیات کو ہم سے دور کر گیا جن کا متبادل شاید آسانی سے نہ مل سکے۔ جن میں کووڈ کے اثرات کی وجہ سے انتقال کرنے والی قابل ذکر شخصیات میں سے عالم اسلام کی عظیم شخصیت مفتی محمد رفیع عثمانی، عبدالستار ایدھی مرحوم کی اہلیہ سماجی رہنما بلقیس ایدھی، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک شامل ہیں۔

طویل و مختصر عرصے سے صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کر کے 2022 میں انتقال کرنے والی شخصیات میں اردو کے معروف شاعر ادیب عبداللہ جاوید (کینیڈا) ، کئی بیماریوں اور بیٹی کے غموں سے لڑتی بوڑھی ماں امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی، بزرگ خاتون سابق صدر آصف علی زرداری کی والدہ بیگم زریں آراء بخاری، بزرگ سیاست دان سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی، پیپلز پارٹی لوئر مالاکنڈ کے صدر سابق صوبائی وزیر بخت بیدار خان قابل ذکر ہیں

جب کہ اچانک اموات، ہارٹ اٹیک سے اموات میں قابل ذکر شخصیات سوات سے رکن صوبائی اسمبلی وقار احمد خان، رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین، پاکستان کے انتہائی ممتاز صنعتی گھرانے ”ڈین گروپ“ کے سربراہ ایس ایم منیر شامل ہیں۔ ڈینگی کے وائرس سے بھی کئی مشہور و معروف شخصیات چل بسیں جس میں بیت المال سندھ کے سربراہ، اقراء یونیورسٹی کے چانسلر حنید لکھانی قابل ذکر ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان مرحومین کی کامل مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند فرمائے۔ اللہ کریم دین اسلام اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے۔

دنیا بھر میں صحت کے شعبے نے ترقی کی ہے لیکن پاکستان میں اس شعبے میں دست یاب انسانی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ ہیومن ریسورس پاکستان کی ضرورت کا صرف دسواں حصہ پورا کرتے ہیں۔ ملک میں فوری طور پر دو لاکھ مزید ڈاکٹرز، نرسوں کی ضرورت ہے۔ کوالٹی ہیلتھ کیئر کے لئے معیاری ڈاکٹر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی کووڈ وبا کا سامنا رہا، ابھی تک اس کے اثرات باقی تھے کہ سال 2022 میں ایک اور قدرتی آفت سیلاب کی صورت میں امڈ آئی۔

کئی ہلاکتیں ہونے کے بعد قدرتی آفت کے وسیع و عریض علاقوں میں وبائی امراض نے ڈیرے ڈال دیے، دور دور تک کوئی ڈاکٹرز، ہسپتال، دوائیں نظر نہ آئیں، وبائی امراض سے کئی بزرگوں، بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ کئی فلاحی اداروں نے حکومت کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپ ضرور لگائے جو کہ جز وقتی اور ناکافی تھے۔ صحت کے انسانی وسائل کے لحاظ سے پاکستان اقوام عالم کی فہرست میں کافی نیچے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بطور معاشرہ حکومت کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ، مختلف اداروں کے ساتھ مل کر اقوام عالم کے شعبہ صحت کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور کام شروع کریں اور اپنے آنے والے دنوں، سالوں میں بہتری لانے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔

کسی بھی ریاست میں رائے عامہ کے لیے صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت شروع سے ہی نازک رہی ہے، سال 2022 میں بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔ گورنمنٹ کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لائنیں اس پر مہر ثبت کرتی رہیں کہ اعلیٰ افسران اپنے ماتحتوں کو ڈھیل دے کر ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر بھاری بھرکم تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیلات اکٹھی کرنے کے لیے چند بڑے شہروں کے گورنمنٹ ہسپتالوں میں جانے والوں سے رابطہ کیا اور ڈاکٹرز کے رویے اور سہولیات کے بارے میں چند سوالات کیے۔

جواب میں 99.99 ٪ مریضوں کا کہنا تھا کہ ”اگر ہم نے کسی مرض کے خصوصی ڈاکٹر کو اپنا مرض جانچ پڑتال کے لیے پیش کرنا ہو یا کروانا ہو، تو ڈاکٹرز ملنا ہی ناممکن ہوتا ہے اگر مل بھی جائیں تو بہت کم ڈاکٹرز خود مریضوں کی جانچ پڑتال، دیکھ بھال کر دوائی لکھ کر دیتے ہیں۔ اکثر ان کے تربیت یافتہ ڈاکٹرز مریضوں پر ٹریننگ کرتے دیکھے گئے ہیں۔ وہ تربیت یافتہ ڈاکٹر بھی مریض کا پورا مسئلہ دیکھے سنے بغیر دوائی لکھ کر اگلے مریض کو بلا لیتے ہیں۔ لیکن اگر خاص مرض کے ڈاکٹرز صاحبان کے پاس مریض کو باہر ان کے پرائیویٹ کلینک پر لے جایا جائے اور دو ہزار فیس ادا کی جائے تو ڈاکٹر صاحب مریض کو پاؤں سے سر تک ہاتھ لگا کر بھی چیک کریں گے، اور حوصلہ افزا باتیں بھی کریں گے۔

کاش! ان ڈاکٹرز صاحبان کے کان پکڑ کر کوئی انہیں بتائے کہ آپ جو حکومت سے تنخواہیں لیتے ہیں وہ بھی عوام کا ہی لیا ہوا (ٹیکس) پیسہ ہوتا ہے۔ حکومت نے اساتذہ کرام پر تو پابندی لگائی کہ اگر اساتذہ کرام سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ تو پرائیویٹ ٹیوشن نہیں پڑھائے گے۔ لیکن صحت کے شعبے میں کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا گیا۔ جس سے ڈاکٹرز پرائیویٹ کلینک میں مریضوں کو اچھی طرح وقت دینے کی بجائے گورنمنٹ ہسپتالوں میں وقت دیں اور مریضوں کے صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے حقیقی مسیحا کا کردار ادا کریں۔ حکومت پاکستان کو شعبہ صحت میں بہتری لانے کے لیے ایسے ضروری اقدامات جس سے صحت کی سہولیات ہر غریب و امیر کو یکساں فراہم ہوں ضرور و فی الفور کرنے چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments