اہل اردو کا قصور کیا ہے؟


دو ہزار اکیس تک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی آبادی تقریباً سات اعشاریہ نو بلین کے لگ بھگ تھی۔ دنیا کے ہر خطے میں مختلف تہذیبوں کے نمائندہ انسان آباد ہیں جو ناصرف رنگ روپ اور جسامت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ ان کی بولیاں اور رہن سہن کے طور طریقے بھی ایک دوسرے سے جزوی یا کلی طور پر جدا ہیں۔ کسی مخصوص خطے میں جنم لینا، کسی مخصوص رنگ روپ کا حامل ہونا یا کوئی مخصوص زبان بطور مادری زبان بولنا کسی بھی طرح انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ یہ محض ایک اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص کس خطے میں جنم لیتا ہے یا بطور مادری زبان کون سی زبان اس کے حصے میں آتی ہے۔

اپنی مادری زبان سے انسیت ایک فطری بات ہے کیونکہ یہی وہ زبان ہے جس میں اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار سب سے زیادہ بہترین اور مفصل طریقے سے ممکن ہے۔ مادری زبان کو چھوڑ کر باقی دیگر زبانوں پر ہم بھلے جتنی بھی محنت کیوں نا کر لیں مگر ان زبانوں پر مادری زبان جیسی مہارت حاصل کرنے میں اکثر و بیشتر ناکام ہی رہتے ہیں۔ دنیا میں اکثر افراد اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ کچھ اور زبانوں سے بھی ناصرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ان میں بات چیت کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ لوگ یہ زبانیں محض شوق کی خاطر سیکھتے ہیں۔

مادری زبان کے سوا کوئی بھی دوسری زبان ہم اپنی آسانی کے لئے سیکھتے ہیں کیونکہ یہ زبان سیکھ کر ہمارے لئے بہت سی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جو زبان نا سیکھنے کی صورت میں مسدود رہتی ہیں، لہذا ہونا تو یہ چاہیے کہ جو زبان آپ اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر سیکھ رہے ہیں اس کی بے جا مخالفت نا کریں اور نا ہی اسے انا کا مسئلہ بنائیں کیونکہ آپ پرنا تو کوئی جبر ہے اور ہی آپ کوئی زبان سیکھ کر اس زبان پر یا اہل زبان پر کوئی احسان کرتے ہیں بلکہ کوئی بھی زبان بطور سیکنڈ لینگویج سیکھتے وقت آپ کو صرف اور صرف اپنا ذاتی فائدہ مقصود ہوتا ہے۔

مگر جب انسان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی چڑھتی ہے اور حسد کا ناگ پھن پھیلاتا ہے تو وہ ان تمام فوائد کو نظر انداز کر دیتا ہے جو وہ اپنی مادری زبان کے سوا دیگر زبانوں سے حاصل کرتا رہا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان میں بے حد واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے جہاں اکثر و بیشتر قوم پرست اردو زبان سے متعلق کھلم کھلا اظہار بغض کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں اردو زبان بہت سے علاقائی زبانیں بولنے والے پاکستانیوں کے لئے باعث تکلیف ہے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اردو چونکہ پاکستان کی مقامی زبان نہیں ہے لہذا اسے پاکستان کی قومی زبان قرار دے کر مقامی افراد پر ظلم کیا گیا ہے۔ اردو کو قومی زبان قرار دیا جانا پاکستان کے مقامی افراد پر ظلم تھا یا نہیں یا اگر تھا تو اس میں اہل زبان کس حد تک قصور وار ہیں یہ جاننے کے لئے قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے اور اس کے بعد کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔

موجودہ دور کے کچھ غیر معروف دانشوروں کا دعوا ہے کہ تقسیم برصغیر کے پیچھے تاج برطانیہ کا ہندوستان کو تقسیم کرنے کے بعد کمزور کردینے کا گھناؤنا ایجنڈا تھا مگر عام خیال یہی ہے برصغیر کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر عمل میں آئی اور پرچم اسلام کی چھاؤں تلے مختلف زبانیں بولنے والے بنا سوچے سمجھے متحد ہو گئے۔

قیام پاکستان سے کافی عرصہ قبل یہ بات مقبول عام ہو گئی کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ اردو کو بطور قومی زبان منتخب کیے جانے کے پیچھے وجہ غالباً یہ رہی تھی کہ یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھے جانے کے باعث دین اسلام سے زیادہ نزدیک ہے مزید یہ کہ بہت سی زبانوں کا مرکب ہونے کے باعث یہ زبان سیکھنے میں دیگر زبانوں کی نسبت کافی آسان ہے۔ یہ بات مختلف جلسوں جلوسوں میں بارہا دہرائی گئی اور یقینی طور پر اخبارات میں بھی چھپی اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئی مگر دین اسلام کے متوالوں کو اس وقت یہ خیال ہی نا آیا کہ عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو زبان جسے وہ دیو ناگری رسم الخط میں لکھی جانی والی کسی بھی زبان پر محض مذہبی عقیدت کی بنیاد پر ترجیح دینے پر دل و جان سے راضی تھے آنے والے وقت میں ان کی انا کو ٹھیس پہچانے والی تھی۔

اردو زبان کے علم برداروں میں سے ایک شاعر مشرق اور مفکر پاکستان علامہ اقبال تھے جو تھے تو پیدائشی طور پر پنجابی ہی لیکن انھوں نے چونکہ زیادہ تر شاعری پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی زبانوں میں کی لہذا پاکستان کی مظلوم ترین قوم ہونے کے مغالطے میں مبتلا بہت سے قوم پرست پنجابی انھیں اپنے طور پر پنجابیت سے عاق کرچکے ہیں۔ علامہ اقبال 1938 میں قیام پاکستان سے تقریباً نو سال قبل دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے یعنی بنگالیوں اور پنجابیوں سمیت کسی بھی قوم پر اردو زبان زبردستی تھوپنے کے لئے زندہ نہیں رہے۔

اگرچہ کچھ قوم پرستوں کا دعوا ہے کہ کراچی میں پیدا ہونے والے، تھیٹر دیکھنے والے، کتے پالنے والے اور سگار پینے والے مسٹر جناح کو اسلام سے کوئی دلچسپی نا تھی بلکہ انھوں نے محض گورنر جنرل بننے کی خاطر پاکستان بنایا۔ ممکن ہے کہ قوم پرستوں کا یہ دعوا درست ہو لیکن اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ مسٹر جناح با المعروف قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ محض ایک سال تک ہی سنبھال سکے اور ایک سال بعد ہی ٹی بی کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئے یعنی ترویج اردو کے نام پر بنگالیوں اور دیگر اقوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کا الزام ان سر بھی نہیں جاتا۔

مسٹر جناح کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور جن کی مادری زبان بنگالی تھی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ایک بنگالی کا اتنے بڑے عہدے پر براجمان ہونا اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ زبان کی بنیاد پر نفرتوں کی آگ ابھی نہیں بھڑکی تھی اس وقت بنگالی کسی سے کمتر نا تھے اور حکومت پر براجمان ہونے کا حق جتنا اردو بولنے والوں کو حاصل تھا اتنا ہی بنگالیوں اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والوں کو بھی حاصل تھا۔ خواجہ ناظم الدین 14 ستمبر 1948 کو بطور گورنر جنرل آف پاکستان تعینات ہوئے اور انھوں نے یہ عہدہ 17 اکتوبر 1951 کو اس وقت چھوڑا جب 16 اکتوبر 1951 کو وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انھیں وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنا پڑا۔

بنگالی زبان کو بطور مادری زبان استعمال کرنے والے خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم پاکستان کا عہدے سنبھالنے کے لئے جب گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑا تو ایک ایسے شخص نے یہ عہدہ سنبھالا جو ذات کے لحاظ سے ”ملک“ تھا اور اس کی جائے پیدائش لاہور تھی۔ یہ ملک غلام محمد تھے جو کہ ایک ماہر معاشیات تھے اور جنھیں پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ملک غلام محمد ذات کے ”ملک“ ضرور تھے مگر ان کا شجرہ نسب پشتون کاکازئی قبیلے سے ملتا ہے لہذا اگر ملک غلام محمد سے کسی پنجابی قوم پرست کو کوئی شکایت ہے تو وہ اس کا ملبہ پنجاب کے بجائے کاکازئی قبیلے پر ڈال سکتا ہے لیکن یہاں ایک بات واضح ہے کہ ملک غلام محمد کے کسی بھی عمل کی ذمہ داری کسی بھی طرح نا تو اردو زبان اور نا ہی اردو بولنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ بہرحال یہ وہ دور تھا جب ملک کہ دونوں اہم ترین عہدوں پر ایسے افراد براجمان تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔

لیاقت علی خان کے قتل کے فوراً بعد 1952 میں مشرقی بنگال یعنی موجود بنگلہ دیش میں لسانی فسادات کا آغاز ہو گیا۔ ان فسادات کا پر امن طریقے سے خاتمہ ممکن تھا اگر بنگالی بولنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور پنجابی بولنے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد مخلصانہ اور غیر تعصبانہ طریقے سے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں افراد کے پاس طاقت بھی تھی اور اختیار بھی تھا یعنی یہ دونوں افراد اگر چاہتے تو اردو کے بجائے کسی بھی زبان کو بطور قومی زبان منتخب کر سکتے تھے یا پھر اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی اور دیگر علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دے سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کی واحد قومی زبان اردو ہی رہی۔

ابھی مشرقی بنگال میں لسانی فسادات جاری تھے کہ زندہ دلان مغربی پنجاب کے سینوں میں احمدیت کے خلاف نفرت جوش مارنے لگی اور لاہور میں مذہبی منافرت پر مبنی فسادات پھوٹ پڑے۔ یاد رہے کہ یہ وہ زندہ دلان مغربی پنجاب تھے جن کی نسلیں آج تک 1947 میں وقوع پذیر ہونے والی تقسیم پنجاب پر نوحہ کناں ہیں اور اس مغالطے میں ہیں کہ احمدیوں سے جینے کا حق چھین لینے والے ان کے مذہب پرست پنجابی آباء مشرقی پنجاب کے سکھوں کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہنے کا ظرف رکھتے تھے۔

جب بنگال کے لسانی فسادات اور پنجاب کے مذہبی فسادات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گئے تو پنجابی بولنے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو لگا کہ اگر وہ بنگالی بولنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیں تو سب کچھ نا صرف ٹھیک ہو جائے گا بلکہ بد انتظامی کا سارا کا سارا ملبہ بھی بنگالی بولنے والے وزیراعظم پر آ گرے گا اور خود ان کو کلین چٹ مل جائے گی۔ لہذا انھوں نے اس کلین چٹ کے حصول کی خواہش میں پاکستان کے دوسرے وزیراعظم کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے اس روایت کا آغاز کیا جس کے ثمرات سے پاکستانی جمہوریت آج تک مستفید ہو رہی ہے۔

خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد محمد علی بوگرہ نے بحیثیت وزیراعظم پاکستان حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ خواجہ ناظم الدین ہی کی طرح آپ کا تعلق بھی صوبہ بنگال سے تھا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے 1954 میں بنگال میں جاری لسانی فسادات رکوانے کی خاطر ملٹری بیک گراؤنڈ کے حامل اسکندر مرزا (جنھیں پاکستان کے پہلے ڈیفینس سیکریٹری ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ) کو بطور گورنر بنگال تعینات کیا اور 1955 میں اسی دور حکومت میں اسکندر مرزا کی بطور وفاقی وزیر داخلہ تعیناتی عمل میں آئی۔

ابھی بنگالی بولنے والے اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ تعینات ہوئے تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ آپ نے پنجابی بولنے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو اپنے عہدے سے استعفی دینے پر مجبور کر دیا۔ ملک غلام محمد کے جبری استعفے کے بعد ملک میں گورنر جنرل کے عہدے کا خاتمہ ہوا، صدارتی نظام کا نفاذ عمل میں آیا اور اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

اب صورت حال یہ تھی کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم دونوں علاقائی قومیت کے لحاظ سے بنگالی تھے یعنی بنگال سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں اتنی طاقت اور اختیار تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جاسکتا تھا مگر ایسا نا ہوسکا کیونکہ بدقسمتی سے یہ دونوں افراد صوبہ بنگال کے باسیوں کی سوچ اور جذبات کے حقیقی ترجمان نا تھے مگر اس صورت حال میں قصور وار یہی صاحب اقتدار افراد تھے نا کہ وہ افراد جن کی مادری زبان اردو تھی۔

اسکندر مرزا کا دور صدارت سیاسی عدم استحکام کا دور تھا۔ حکومت برطرف کرنے کی جو روایت پنجابی گورنر جنرل یعنی ملک غلام محمد نے ڈالی تھی اسی کی پیروی کرتے ہوئے بنگالی صدر اسکندر مرزا نے اپنے دو سالہ دور صدارت میں چار وزرائے اعظموں جن میں چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون شامل تھے کو برطرف کیا۔ آپ ہی وہ عظیم ہستی ہیں جنھیں اپنی ہی پارٹی کی ایڈمنسٹریشن کے خلاف اپنے ہی آرمی کمانڈر جنرل ایوب خان کے ذریعے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی آمر (جنرل ایوب) کے ہاتھوں پہلی برطرفی کا سہرا بھی بطور حکمران آپ ہی کے سر ہے۔

جنرل ایوب 1958 سے 1969 تک منصب صدارت پر فائز رہے اور آپ کے دور صدارت میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان اختلافات نے کچھ اس طرح زور پکڑا کہ یہ اختلافات تقسیم پاکستان پر منتج ہوئے۔ آپ ایک مطلق العنان فوجی حکمران تھے اگر آپ چاہتے تو چٹکی بجا کر اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کے رتبے پر فائز کر کے بنگالیوں کو خوش کر سکتے تھے مگر آپ نے ایسا کرنے سے پہلو تہی کی۔ آپ چونکہ قومیت کے لحاظ سے پشتون تھے اور موجودہ خیبر پختونخوا کا ڈسٹرکٹ ہری پور آپ کی جائے پیدائش ہے لہذا یہاں بھی نا تو اردو زبان کو اور نا ہی اہل اردو کو الزام دینا جائز ہو گا۔

جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف 1967 میں لاہور کے مقام پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام تر بائیں بازو کے سیاستدانوں نے سندھی بولنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی پاکستان کی بنیاد رکھی۔

جنرل ایوب کے استعفے کے بعد جنرل یحیی خان نے 1969 میں بطور صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ آپ مارچ 1969 سے دسمبر 1971 تک ان عہدوں پر فائز رہے اور اپنے ڈھائی سالہ دور آمریت میں آپ نے اپنے لامحدود اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دے کر بنگالیوں کو خوش کرنے کے بجائے اور 1970 میں ملک بھر میں منعقد ہونے والے پہلے الیکشن کے نتائج کی روشنی میں اقتدار و اختیارات شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کرنے کے بجائے آپریشن سرچ لائٹ کا حکم دے ڈالا جس میں قوم پرست بنگالیوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کا قیام چونکہ آمریت کے خلاف جد و جہد کی غرض سے عمل میں آیا تھا لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ پارٹی مشرقی پاکستان کے ان عوام کا ساتھ دیتی جو فوجی آمروں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار تھے مگر ہوا یہ کہ جمہوریت کی علم بردار اس پارٹی نے مغربی پاکستان کی نمائندہ پارٹی کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے والے فوجی آمر کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ لیا اور پارٹی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیگ کی فتح تسلیم کرنے کے بجائے نہایت ہی ثابت قدمی کے ساتھ وزارت عظمی کے حصول پر کمر بستہ رہے۔ آپریشن سرچ لائٹ نے بنگلہ دیش لبریشن وار کو ہوا دی جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر کم و بیش تیس لاکھ بنگالی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ریاست پاکستان کو صوبہ بنگال سے ہاتھ دھونے پڑے۔

عوامی لیگ کی فتح تسلیم نا کرنے والے شہید جمہوریت اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سندھی تھے جبکہ جنرل یحیی جن کا پورا نام آغا محمد یحیی خان تھا پنجاب کے شہر چکوال میں پیدا ہوئے تھے اور آپ کا شجرہ نسب پشتون قبیلے کرلانی سے ملتا ہے لہذا آپ کے دور آمریت میں رونما ہونے والے ان واقعات کا ملبہ بھی نا تو اردو زبان پر اور نا ہی اہل اردو پر ڈالنا درست ہو گا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی غالباً اہم ہے کہ 1970 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان میں کوئی بھی سیٹ حاصل نا کر سکی جبکہ عوامی لیگ مغربی پاکستان میں کسی بھی سیٹ کے حصول میں نا کام رہی۔ یعنی موجودہ پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں سے ہمدردی کے دعویدار لاتعداد سندھیوں، پنجابیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کے آبا و و اجداد نے ان انتخابات میں عوامی لیگ کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا کیونکہ ووٹ دینے کی صورت میں بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ مل جانا تھا اور یہ غیر بنگالی افراد بنگالی زبان کو قومی زبان کے روپ میں برداشت کرنے کے لئے تیار نا تھے۔ بنگالی زبان سے یہ بیزاری اور نفرت ان کا ذاتی فعل تھا اس میں اہل اردو قطعی طور پر قصور وار نا تھے۔

تقسیم پاکستان کے بعد جنرل یحیی 20 دسمبر 1971 کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔

جنرل یحیی کے بعد جو افراد وقتاً فوقتاً صدر پاکستان کے عہدے پر فائز رہے ان میں ممنون حسین، جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عارف علوی کے سوا سب کے سب وہ تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی اور معیشت دان اور بینکر شوکت عزیز اردو بولنے والے وہ واحد فرد تھے جنھوں نے لیاقت علی خان کے بعد وزارت عظمی کی ذمہ داریاں سنبھالیں تھیں۔

جنرل محمد ضیاء الحق (جن کا شمار پاکستان کے طاقتور ترین صدور میں ہوتا ہے اور جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تھے ) کے بارے میں ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ آپ چونکہ مہاجر تھے لہذا آپ کی مادری زبان اردو تھی اور آپ نے تمام تر اختیارات رکھنے کے باوجود پنجابی یا کسی اور زبان کو قومی زبان کے درجے پر فائز نہیں ہونے دیا۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جنرل محمد ضیاء الحق کی جائے پیدائش جالندھر ہے جو کہ مشرقی پنجاب کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ آپ کی مادری زبان پنجابی تھی اور آپ ذات کے آرائیں تھے لہذا محض ہجرت کو بنیاد بنا کر کوئی بھی آرمی مخالف پنجابی قوم پرست آپ کو پنجابیت سے عاق نہیں کر سکتا۔

مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں اردو کے سوا کوئی اور زبان اگر قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکی تو اس میں قصور نا تو اردو زبان کا ہے اور نا ہی اس طبقے کا جس کی مادری زبان اردو ہے کیونکہ اس طبقے کے ہاتھ میں کبھی اتنی طاقت رہی ہی نہیں کہ وہ اردو کو کسی پر بھی بزور طاقت مسلط کر پاتا۔ پاکستان میں آمریت کا بیج بونے والا ایک بنگالی تھا اور اس آمریت کے نتیجے میں اردو زبان کو ڈھال بنا کر مغربی پاکستان کے سندھیوں پنجابیوں اور پٹھانوں نے بنگالیوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ جو جو نا انصافیاں کیں ان سے اردو بولنے والے طبقے کا کچھ لینا دینا نہیں مگر اردو زبان کا پاکستانیوں پر ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اس زبان نے پاکستان میں آباد 300 مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا اگر اردو زبان نا ہوتی تو یہ 300 مختلف زبانیں بولنے والے پاکستانی یا تو آپس میں بات چیت کرنے سے قاصر رہتے یا پھر اردو کی جگہ کسی اور زبان کو باہمی رابطے کا ذریعہ بنانے پر مجبور ہوتے اور اس زبان کو بطور مادری زبان استعمال کرنے والوں کو اپنا دشمن گردان رہے ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments