جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے


آٹے کا مصنوعی بحران اور آٹے کی قیمت میں کمر توڑ اضافہ سندھ کے غریب عوام کے لیے فی الوقت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک کلو آٹا اپنی اصل قیمت سے تین گنا زیادہ نرخ یعنی 160 روپے 170 اور 180 روپے پر بک رہا ہے۔ غریب عوام روٹی کے ایک ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے آدم کی اولاد دربدر ہو چکی ہے۔ ایک طرف غربت افلاس بھوک بدحالی بے روزگاری اور مہنگائی ہے تو دوسری جانب مصنوعی بحران۔

ذرا سوچیے پانچ سو روپے دھاڑی کمانے والا بندہ یا پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے والا سفید پوش شہری ایسی صورتحال میں کیسے اپنا وقت گزار سکتا ہے؟ مطلب ایک عام آدمی اب روکھی سوکھی کھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اگر ایک خاندان ایک وقت پر ایک کلو آٹا خرید رہا ہے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ساڑھے پانچ سو روپے کا صرف آٹا خریدنا پڑ رہا ہے۔ مطلب پوری کمائی صرف آٹا خریدنے میں خرچ ہو گئی اب سبزی دال گھی ٹماٹر پیاز نمک دودھ چینی چائے سمیت دیگر روزمرہ کی اشیاء ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں؟ اوپر سے گیس اور بجلی کے بل بھی تو بھرنے ہیں۔ گھر کا کرایہ بھی بر وقت ادا کرنا ہے اور اگر خدانخواستہ گھر میں کوئی بیمار ہو جائے پھر تو بس الامان و الحفیظ۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کوئی پوچھے کہ سائیں سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کی گئی اربوں روپے کی گندم کہاں غائب ہو گئی؟ کیا واقعی اتنی گندم چوہے کھا گئے ہیں یا اربوں روپے کی گندم کرپشن کی نظر ہو گئی؟ مگر اس غبن کے باوجود اب بھی سرکاری گوداموں میں اربوں روپے کی گندم موجود ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس گندم پر غریب عوام کا کوئی حق نہیں ہے۔ حق ہے تو صرف اور صرف اپنی پسند کے لوگوں کا۔ سرکاری گودام بھی بھرے پڑے ہیں اور سرکار کے قریبی لوگوں کے پرائیویٹ گوداموں میں بھی اربوں روپے کا مال ذخیرہ کیا گیا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگا آٹا بیچا جا رہا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز اور فلور ملز پر بھی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر آٹا مل رہا ہے۔ جو منافع خور موجودہ وقت کو موقع غنیمت سمجھ کر مال بٹور رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ کہیں کہیں آٹے میں نمک کی طرح آٹے کے اسٹالز لگائے جا رہے ہیں جہاں کسی کو آٹا مل رہا ہے تو کسی کو صرف دھکے گالیاں اور ذلت نصیب ہو رہی ہے۔

غریب عوام کو نا اہل حکمرانوں سے مفت میں کچھ نہیں چاہیے لیکن لوگوں پر اتنا بوجھ تو نہ ڈالیں کہ سانس لینا بھی محال ہو جائے۔ حکومت بے نیاز بنی ہوئی ہے غریب عوام کے مسائل سے۔ بھلا اربوں روپے کے مالک وزیروں مشیروں کو آٹے اور دال کی قیمتوں کا کیا پتہ؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے فرمایا تھا کہ کپڑے بیچنے پڑے تو بیچ دیں گے لیکن عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔ میاں صاحب کے کپڑے تو نہیں بکے لیکن غریب عوام کی کھال ضرور اتر گئی ہے جس کا سہرا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ یہ وہی عظیم حکمران ہیں جو عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی کے خلاف ہمہ وقت سڑکوں پر ہوا کرتے تھے۔

مولانا فضل الرحمان بلاول بھٹو زرداری مریم نواز اور شہباز شریف کے آزادی مارچ مہنگائی مکاؤ مارچ اور مہنگائی کے خلاف جلسے جلوس ابھی کل ہی کی بات ہے۔ مذکورہ صاحبان فرمایا کرتے تھے کہ انہیں حکومت کرنے کا موقع ملا تو چند مہینوں میں ڈالر ڈیڑھ سو روپے سے کم پر لائیں گے، پیٹرول ڈیزل سستا کریں گے، آٹے سمیت تمام کھانے پینے کی چیزیں سستی کریں گے مگر ان حضرات کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس کے بالکل بر عکس ہوا ہے۔ ایسی غضب ناک مہنگائی کو دیکھ کر لوگ عمران خان کو دعائیں دے رہے ہیں کہ عمران خان جیسا نا تجربہ کار حکمران اچھا تھا جو اشیاء خورد و نوش سمیت تمام چیزوں کے نرخ بھی کنٹرول میں رکھ کر بیٹھا ہوا تھا اور اسی خالی خزانے سے لنگر خانے پناہ گاہیں احساس پروگرام اور ہیلتھ کارڈ جیسے پروگرام بھی چلا رہا تھا۔

تجربہ کار حکمرانوں نے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے محض اپوزیشن کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس وزیروں کی فوج ظفر موج کی مراعتوں اور تنخواہوں کے لیے پیسے ہیں لیکن غریب عوام آٹے کے تھیلے کے لیے رسوا ہو رہے ہیں اور حکمران فرما رہے ہیں کہ ان کے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں۔

تجربے کار حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ٹی وی پر آ کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے فوائد بتا رہے ہوتے تھے بالآخر جب رہی سہی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تو معیشت کو کندھا دینے کے لیے ایک مفرور ملزم اسحاق ڈار کو خاص طیارے کے ذریعے وطن واپس لا کر وزیر خزانہ کی کرسی پر براجمان کر دیا گیا اور ملک کے عوام کو اسحاق ڈار کی صورت میں ایک مسیحا دکھانے کی کوشش کی گئی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا گھبرانے کی کوئی بات نہیں مگر پی ڈی ایم کے با کمال معاشی ماہر وزیر خزانہ صاحب تاحال معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور ملک کے غریب عوام روٹی کے لیے پریشان ہیں یہ پریشانی اور فاقہ کشی ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کی منظر کشی ہے۔

اس وقت غریب اور پسماندہ طبقات تو جن ذلت آمیز حالات سے گزر رہے ہیں انہیں تو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن سفید پوش متوسط طبقہ اور دال مچھلی کے قابل خاندان بھی گزر سفر کے لیے پریشان ہیں۔ آٹے کا بحران آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور غریب دشمن مافیا نے بحران کو کمائی کا سنہری موقع جان کر خوب کمایا ہے۔ بیان بازی کے علاوہ عملی طور پر ملک کے عوام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کے لیے حکومت کے پاس وقت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments