صحرا کے نغمے


صحرا میں ریت پر چڑھتے ہوئے اونٹوں کی آوازیں، ایک ایسی گونج جو بدوؤں کے گیت، ہوا اور رات کے سناٹے میں ابھرتے نغمے، ان اونٹوں کو ہانکنے والوں کے گیت، صحراؤں میں عربوں کی تاریخ کے آغاز سے ہی گونج رہی ہے، جزیرہ عرب کے صحراؤں کی خاموشی میں یہ آوازیں گنگناتی ہیں، اونٹوں کو سنائے جانے والے یہ گیٹ جیسے روح کی تسبیحیں پڑھتے ہوں۔ کل حداء الابل پر تعارف لکھا تو آج سوچا اس پر مضمون لکھ ڈالوں، جیسے سورج سے روشنی یا چاند سے چاندنی کا رشتہ ہے، ویسے عربوں کا رشتہ اونٹوں سے صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ اونٹ کو بلاتے نغموں نے عرب ثقافت میں شاعری اور زبانی روایت میں جگہ پالی، اور اس زبانی ذخیرے نے کہانیوں، قصوں اور حکایتوں کی ایک سلسلہ رکھا، جو عرب کی تاریخ میں ہمیں ہر دور میں ملتا ہے۔ جو زمانہ قبل از اسلام بھی ملتا ہے اور زمانہ اسلام کے بعد بھی ملتا ہے۔

ھداء الابل اصلا اونٹ  کے نگہبان چرواہے کا اونٹ کے ساتھ محض اشارے، آواز، یا اونٹ کی پکار کی سرگوشی سے ایک شاعرانہ گانے میں تیار ہونے والا نغمہ، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے معنی بدلتا رہا، گائے ہوئے شاعرانہ الفاظ اور کہے گئے اشعار تاریخ کا حصہ بنتے گئے، اس لیے اس کی مٹھاس، آواز، شاعری اور بیان کا جادو، بدوؤں کے صحرائی ماحول اور ان کی ثقافت میں موجود کیفیتیں اور ان کے گیتوں کے لفظوں میں معنی کی فراوانی، چرواہوں کے ساتھ ساتھ اونٹوں کو بھی تسلی دیتی ہے، ان صحراؤں کی راتوں میں ان عربوں کے لہجے اور حرفوں نے آج کتنے عہد گزرنے کے بعد بھی ان نغموں کو لازوال رکھا ہے۔

عرب مؤرخین اور صحراؤں کے راوی اس بات پر متفق ہیں کہ تدویحہ ”التدویھة“ ہر قسم کے نغموں کی اصل اور ابتداء کی کوئی کہانی ہے۔ ویسے حداء کی بھی دو قسمیں ہیں، پہلا ”اونٹ کے نغمے“ اور دوسرا ”گھوڑے کے نغمے“ ۔ دونوں کا تعلق بحر الراجاز سے ہے اور اس کا نام اونٹوں کے نغموں ”حداء الابل“ کے نام پر رکھا گیا ہے۔

جب اونٹ  سست ہو یا بیمار ہوتا ہے تو وہ ایک قدم قریب آتا ہے اور اس کی چال میں خلل پڑتا ہے، اس صورت میں اس کی چال کو ”رجیز“ کہتے ہیں اور اونٹ کو ”رجیز“ یا ”رجز“ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لرزتا ہے، اسی لئے عربی میں جنگوں میں جنگجووں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لئے عورتیں میدان جنگ میں رجز پڑھتی تھیں، جن میں وہ جنگجو مردوں کو جنگ کے بعد فتح کی خوشی شادیانے اور اپنی دعوت دیتی تھیں۔ اونٹوں کو بھی ہنکانے کے اس عمل کو رجز بھی کہا گیا، لہٰذا یہ عرب صحراؤں کے تمام حصوں میں ایک مشہور شعری شاعری کا فن بن گیا، عرب ورثے میں ایسے ہزارہا قصے ہیں، جو اونٹ سے منسوب صحرا کی ایک معروف اصطلاحات کے طور پر ان نغموں کی تصدیق کرتے ہیں۔

جو چیز عرب ثقافت میں اونٹوں کے نغموں میں فصاحت کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہے وہ قرآن کی اپنی آیات ہیں، کہ ایک فصیح زبان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث میں بھی ان کا ذکر مذکور ہے، ان کے خیال رکھنے کی بھی سفارش کی گئی تھی، جس میں الاکثم بن سیفی کی روایت بھی شامل ہے، جنہیں زمانہ قبل از اسلام کے حکیموں میں شمار کیا جاتا ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ

”لاتضعوا رقاب الابل فی غیر حقھا، فانھا مھر الکریمة ورقؤ الدم، بالبانھا یتحف الکبیر ویغذى الصغیر۔“

ترجمہ: اونٹوں کی گردنیں ان کے بغیر نہ ڈالو۔ ٹھیک ہے، کیونکہ یہ سخیوں کا جہیز ہیں اور خون نرم ہوتا ہے۔

عربوں کا اونٹ کے ساتھ رشتہ شدت اور معنی میں کسی دوسرے وجود سے پیدا ہونے والا رشتہ ہے، اس لیے اونٹ ہر اس چیز کی علامت بن گیا جس نے عربوں کی لسانی بیداری، عربوں کے ادبی ذوق کو تشکیل دیا، اور ان کے جمالیاتی تصور کی خوبصورتی تک کو یعنی جسے کوئی غیر عرب اس کی جمالیات کو چھو نہیں سکتا، جب تک کوئی اسے ان کی طرح نہ محسوس کرسکے عربوں کی اونٹ سے محبت میں اشکبار کرنے والی نظموں کو محسوس نہ کرسکیں۔

معروف مؤرخ ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی (متوفی سنہ ہجری 346 / سنہ عیسوی 957 ) نے اپنی کتاب (مروج الذھب ومعادن الجوھر) میں ذکر کیا ہے کہ اونٹوں کے نغمے رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے عربوں میں تھے، زیادہ مضبوط روایت جو ملتی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے اجداد کے پردادا ”مضر بن نزال بن معد بن عدنان بن ادد“ سے وراثت میں ملے اور پھر انہوں نے اسے جاری رکھا، ہوا یوں کہ اک بار مضر بن نزال ایک سفر کے دوران اپنے اونٹ سے گرا اور اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا، درد کی شدت سے وہ مخصوص الفاظ اور مخصوص کیفیت میں چلانے لگا، (یا یداہ یا یداہ یا ہادیا یا ہادیا) یعنی میرا ہاتھ میرا ہاتھ اور میرے خدایا میرے خدایا۔

وہ ایک خود گلو شخص تھا، اس کی آواز کی حلاوت سن کر سارے اونٹ اس کے گرد جمع ہو گئے، اور اس کے ساتھ چلنے لگے، یہیں سے حداء الابل کا آغاز ہوا اور عربوں نے اس کے الفاظ کو حداء کا آغاز بنا دیا، (اے میرے ہاتھ، میرے ہاتھ، اے میرے رہنما، اے میرے رہنما) ۔ عربوں میں حداء میں سب سے پہلی سماع اور تلاوت تھی، اس کے بعد ایسے ہزاروں حداء کے نغمے نکلے۔

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ بھی جب کوفہ کی سرزمین پر چلتے تھے تو اونٹوں کی حدی کرتے تھے، وہ کہتے تھے

یا حبذا السیر بارض الکوفة
ارض سواء سھلة معروفة
تعرفھا جمالنا المعروفة
ترجمہ : اوہ، میں کوفہ کی سرزمین میں چلنا چاہتا ہوں۔
زمین چاہے آسان معلوم ہو۔
آپ ہمارے معروف حسن کو جانتے ہیں۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بصرہ سے کوفہ جاتے ہوئے اپنی اونٹنی (رباب) سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے گھوم رہے ہوتے تھے،

اوبی الى اہلک یا رباب
اوبی فقد حان لک الایاب
ترجمہ: اپنے گھر والوں کی اطاعت کرو، خداوند
اوبی آپ کے واپس آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

عرب میں یہ باقاعدہ ایک پروفیشن بن گیا، اونٹوں کو باقاعدہ نغموں سے بلانا، نہپسنا، تربیت کرنا، مختلف آوازوں سے پانی میں اترنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا، پانی پینا سکھایا جاتا، خود حداء کی اتنی اصناف بن گئی کہ ہر شاعری کی کیفیت اور اصناف میں حداء الابل کے اشعار کا آغاز ملتا ہے۔ محبت، غزل، جدائی، محبوب کا وصل، فراق، کہ ہر ہر صنف کو حداء الابل نے سمو لیا، جیسے اونٹوں کو پانی پلانے کے عمل کے دوران نوجوان آرزو، جذبے اور جوش سے بھرپور خوبصورت گیت گاتے ہیں اور جب وہ قبیلے کی لڑکیوں کو پانی کے مشکیزے اور برتن لے کر پانی لینے کے لیے ان کے پاس آتے دیکھتے تو وہ مزید پرجوش ہو جاتے ہیں۔

ان میں جو شادی شدہ نہیں ہوتا، تو ان میں سے ہر ایک لڑکیوں میں سے ایک کی تعریف جیتنے کی خواہش رکھتا ہے، تاکہ وہ اس کی ہونے والی بیوی بن سکے، اور بعد میں آنے والے اکثر عرب کنویں کے بجائے قالیب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ عبداللہ ذو النجادین رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کا چرواہا تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے دعائیں مانگتے ہوئے گاتے تھے۔

تعرضی مدارجاً وسومی
تعرض الجوزاء للنجوم
ھذا ابو القاسم فاستقیمی

ان اصناف میں کئی معروف ہیں جن کی۔ فن التھیلیم، فن الموالیا، فن الھجینی، غنائیات القلیب، غناء الاواب، الحان التدویة وغیرہ

ابو الفضل احمد بن حجر عسقلانی (متوفی سنہ ہجری 852 ) اپنی کتاب (فتح الباری فی شرح صحیح البخاری) میں کہتے ہیں کہ

اونٹوں کے نغمے ایک خاص قسم کے اشعار اور لفظوں سے بنائے جاتے ہیں، جسے ابتدائی عرب (الرقبانی) کہتے تھے اور بعد کے عرب اسے (الحجینی) کہتے ہیں، اور یہ صحابہ کے سفر اور قافلوں کی نظم ہے۔ الرقبانی، قدیم حوالوں کے مطابق، شاعری کی بہت سی شعروں پر مشتمل ہے جو گایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اونٹ پر سوار ہونے کے دوران لفظ بکھیرے جاتے ہیں اور جہاں تک آج کل کے عربوں کا تعلق ہے، وہ اونٹ کے حوالے سے الرقبانی الحجانی کہتے ہیں، اور یہ مختصر جملوں والے پچھلے تمام نغموں سے مختلف ہے۔ الحاجینی نے ایک مختلف انداز میں گایا جو بلاد الشام، جزیرہ نما عرب اور سینائی میں عام تھا، اور یہ تال و سر پر مبنی، شاعرانہ نظموں میں سے ہیں، جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق ہے، سیاحت، رشتہ داری، نسب اور دوسرے کئی موضوعات کے بارے میں گایا جاتا ہے۔ جیسے طنز، تعریف، اور بہتان وغیرہ۔

پورے صحرائے عرب میں تیونس، مراکش، امارات، کویت، بلاد الشام عمان وغیرہ میں ہر جگہ حدا خوانی کی طرز و ترتیب الگ الگ ہیں، ہر ہر خطے میں حداء خوانی کی موسیقی اور آوازیں الگ الگ تخلیق کی گئیں، جو اونٹوں اور ان کے پانی سے متعلق ہر چیز میں فکری، علمی اور جمالیاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہیں، اور زبان کی تشکیل، تخلیق اور افزائش میں ان حدا خوانوں کی زبردست مہارت ہے، اس لیے ایسی آوازوں اور دھنوں کو دستاویزی شکل دینے پر بھی عرب میں کام ہو رہا ہے۔

ریفرنس :
1۔ مصنف محمود مفلح البکر کتاب ”فی الغناء البدوی الھجینی“ سنۂ 1987
2۔ علامة عبداللہ بن خمیس کی کتاب ا ”لادب الشعبی فی جزیرة العرب“ سنۂ 2001
3۔ عراقی محقق شفیق الکمالی کی کتاب ”الشعر عند البدو“ سنۂ 1957
4۔ المجلہ العربیہ۔

تحریر کا پس منظر :

سعودی عرب نے 30 نومبر سنۂ 2022، کو عمان اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ورثے یونیسکو کی ایک معروف فہرست ”غیر محسوس ثقافتی ورثہ“ Intangible Cultural Heritage میں ”حداء الابل“ کو شامل کروا لیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments