مہنگائی، غربت اور جرائم میں اضافہ


مہنگائی میں تواتر سے اضافہ جاری ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اور غربت، بے روزگاری، بیماری، جہالت ہر طرف اپنے پاؤں پھیلائے ہوئے جرائم کی جانب رواں دواں ہیں۔ پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ، قوت خرید صفر اور اب حکومت کے روس سے سستا تیل خریدنے کے دعوے کی حقیقت کیا ہے ’نا اہل حکومت روس سے 30 فیصد کم قیمت پر تیل لینے کی ڈیل پر کام نہیں کر سکی۔‘ ہمارے مقابلے میں انڈیا میں جو امریکہ کا اتحادی بھی ہے، روس سے سستا تیل خرید کر پاکستانی روپوں میں 25 روپے تک قیمتیں کم ہو چکی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں۔ 25۔ 20 فیصد یعنی۔ 40۔ 30 روپے تک کے اضافے، جو ملکی تاریخ میں سب سے بڑا اضافہ ہے اور اس کی قیمت قوم کو مہنگائی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے آنے والے وقت میں جبکہ ’قوم کو مہنگائی کی ایک بڑی لہر کا سامنا کرنا پڑے گا اور موجودہ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

پی ڈی ایم سیاسی پارٹی کی بجائے ایک شخص کی شخصی مگر فرضی ساکھ کے گرد طواف کرنے والے موقع پرستوں اور احتساب سے راہ فرار اختیار کرنے والے بدعنوان سیاستدانوں کا ایک ایسا اکٹھ ہے جس میں نام، چہرے اور پوزیشنیں مسلسل صرف اس وجہ سے بدلتی رہتی ہیں کہ ان طواف کنندگان کی ڈوریاں صاحب طواف کی بجائے دائرہ طواف سے باہر حقیقی معبد پر براجمان خداؤں کے ہاتھ میں ہیں۔

13 جماعتوں کا عوام دشمن ٹولہ نہ تو کبھی اصلاح پسند تھا اور نہ ہی ہے یا ہو سکتا ہے۔ ان کی اور ان۔ کے لیڈر سمیت ان کے قریبی ساتھیوں کی سیاسی جہالت اور بے لگام ہوس ناکی اور موقع پرستی کو اصلاح پسندی قرار دینا ان کو رعایت دینے، عزت دینے اور قابل قبول بنا کر پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ اور یوں۔ حقیقت میں حکمران اور اس کے گرد وہ ٹولہ جو اس ملکی خزانے کو لوٹنے والے طاقت کی ہوس میں بدمست ایک ایسا مصنوعی سیاستدانوں کا ٹولہ ہے جسے نظام کی الف ب کا بھی علم نہیں اور اسے جب جب اس کے آقاؤں اور ہمنواؤں سے مشورہ دیا کہ جلد اقتدار کے حصول کے لئے کیا کیا نعرے لگانے ہیں یا کیسی کیسی تقریریں کرنی ہیں تو اس میں ان کے دلال کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر اس تجویز، مشورے، ہدایت یا حکم پر عملدرآمد شروع کر دیا جاتا ہے اور اپنے میلے اور بدبودار کپڑے فروخت کرنے والے وزیر اعظم جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر قوم کو دھوکہ دینے والے ملک کے یہ لٹیرے اس بچے کھچے پاکستان کو جو دین کے نام پر حاصل کیا گیا تھا کو بھی بیچ کھانے میں مصروف ہیں اور آئی ایم ایف جیسی بلا سے قرضے لے کر ان کی شرائط پر عوام کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی وجہ دیگر ذرائع پر انحصار اور غیر ملکی سامراج کی ناراضگی اور سبق سکھانے کی جارحانہ پالیسی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس نظام میں پاکستان جیسی کمزور اور نحیف معیشت تو دور کی بات ہے امریکہ جیسی دیو ہیکل معیشت میں بھی اصلاح کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے مگر اس ملک کی تاریخ میں بھٹو کی نام نہاد اصلاحات کی شکل میں روٹی کپڑا اور مکان اور اسلامی سوشل ازم کا کھوکھلا نعرہ سامنے آیا جو ایک دم ٹھس ہو کر رہ گیا۔ اس سے قبل ایوب خان کی شکل میں آمریت کے خونی پنجوں کے ذریعے کوشش کی گئی تھی جس کی ناکامی نے ایک انقلاب کو جنم دیا تھا تب سے لے کر اب تک تمام جمہوریتیں اور آمریتیں ایک ہی روش اپنائے ہوئے ہیں اور وہ سامراجی گماشتگی میں محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی کوشش پر گامزن ہیں۔

مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ مہنگائی جہاں ملکی معیشت کو تباہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں جرائم کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 30 فیصد جبکہ صرف اشیا خورد و نوش سے متعلق مہنگائی کی شرح 45 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جو ایک الارمنگ سیچوایشن ہے۔ تقریباً ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔ شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی۔

تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد بھی نیچے آنے کی توقع نہیں ہے۔ مہنگائی کے گہرے معاشی اثرات اور اس کے سیاسی اعتبار سے بھی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی طرف سے خاصا سخت رد عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیاں اپنی جگہ پر قائم ہیں اور یہ قربانی کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ اور ایک وقت کی روٹی کے لالے غریب عوام کو پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے گھر کے اخراجات کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اس بڑھتی ہی مہنگائی سے جرائم میں بھی شدید اضافہ ہو رہا ہے جس میں ڈاکے چوری اور اغوا جیسے جرائم سر فہرست ہیں

پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک طویل المدتی اصلاحات کی حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے، ہم ہر پانچ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اسی لئے جاتے ہیں کہ ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ جب تک ہم معیشت کا ڈھانچہ نہیں بدلتے اور خساروں میں کمی نہیں لائیں گے ہم اس چکی میں پستے رہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ زراعت میں ویلیو ایڈیشن لائیں، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کپڑے کے ساتھ ساتھ پہننے کے لئے سوٹ بھی بنائے تاکہ ہمارے زر مبادلہ میں اضافہ ہو۔

سب سے اہم بات جس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم نالج بیسڈ اکانومی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارا ملک جس کا انحصار تیل کی درآمدات پر ہے اور اشیائے خورد و نوش درآمد کرنے پر ہے اس پر یہ کہ ہم آبادی کو کنٹرول نہیں کر پا رہے، ان نا مساعد حالات میں آنے والے ماہ و سال بہت مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments