افسانہ: موم بتی


ایک طرف موٹروے پر بس کی رفتار کافی سست تھی تو دوسری طرف گرمیوں کے دن، لمبے تو تھے ہی، گرم بھی غیر معمولی طور پر، ہوا رکتی تو جسم پر پسینے کا سیلاب آ جاتا۔ ایک ایک قطرہ بالوں سے ہوتا ہوا ناف تک یوں جاتا جیسے گاڑی کے شیشے پر برسات کے قطرے۔ پانچ گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بے چین دل اب باغ باغ ہو رہا تھا۔ اس سے ملاقات کی تڑپ کے سبب دل کی آواز گھڑی کی ٹک ٹک کی مانند ہو گئی تھی۔

بس سے اتر کر یوں لگا جیسے ایک باغ میں داخل ہو گیا ہوں۔ اڈے میں شور و غل پرندوں کی سریلی دھنوں جیسا معلوم ہوتا تھا۔ چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آنکھوں کے کناروں کو جھریوں سے ڈھکے ہوئے تھی۔ زیر لب خاموش سی مسکراہٹ عیاں تھی۔ میں، میرے ساتھ میری ماں اور سامنے تھا، اس کا دروازہ۔ تین سال کی جدائی اور پھر یوں اچانک اس کے دیدار سے دل گھبرا رہا تھا۔

دروازے پر دستک دے کر ایسا لگا جیسے ہاتھ دروازے کے پار نکل گیا؛ دروازہ ایسا تھا کہ کھٹکھٹاؤ تو سر تا پا ہلنا شروع کر دے۔ خیر مجھے دروازے سے کیا، جیسے بھی ہو!

”جی کون؟“ آواز تو آئی لیکن یہ وہ آواز نہیں تھی جس کی چاہ میں مہمان پھولوں کا شہر چھوڑ کر آیا تھا۔ ”میں ہو، سلیم۔ امی بھی ساتھ ہے۔“ بال سنوارتے ہوئے بولا۔ سلیمہ کی سب سے چھوٹی خالہ، عائشہ نے دروازہ کھولا۔ عائشہ تین سال کے عرصے میں کافی بدل چکی تھی، ہڈیوں پر گوشت بھر آیا تھا لیکن آنکھیں وہی، چھوٹی چھوٹی، ”اسلام علیکم“ ، عائشہ نے مسکراتے ہوئے ہمارے تھیلے کے لیے ہاتھ بڑھایا ”وعلیکم السلام!“ عائشہ کو تھیلا پکڑاتے ہوئے اس کی منزل میں ابھی دو قدم لئے ہی تھے کہ ایک آواز کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہوئی دل پر دستک دے گئی۔

”اسلام علیکم!“ ہاتھوں کی انگلیوں سے چادر کے سرے کو مضبوطی سے تھامے سلیمہ بولی۔ مڑ کر دیکھا تو تین سال پہلے کی سلیمہ نہیں بلکہ چاند کا ٹکڑا تھا۔ ادھ کھلی، بادامی آنکھیں جیسے شراب سے مخمور ہوں، پتلی ناک، بے داغ گال ناک کے حتمی حصے سے ابھری ہوئی، گردن میں ہلکا سا خم تھا۔ ہونٹ خون سے بھرے ہوئے تھے۔ خشک ہونٹوں پر زبان کی حرکت سے خون کی روانی متاثر ہو جاتی اور بے اختیار زبان کے پیچھے راہ بنا لیتی تھی۔

سلام کا جواب دیا کہ نہیں، اس محبت کا پہلا گھونٹ پینے والے کو کچھ یاد نہیں۔ آنکھیں محبوب سے نظر ہٹانے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ حیرت زدہ آنکھیں تین سال پہلے والی سلیمہ کو وہی سلیمہ ماننے سے انکاری تھیں۔ سلام دعا کے بعد محسوس ہوا کہ سورج کی آخری کرنیں گھر کی اونچی اونچی بوسیدہ دیواروں کو روشن کیے ہوئے تھیں۔ ایک دیوار پر تو جیسے خزاں کا موسم گزر چکا ہو؛ دیوار کی اونچ نیچ کو چونا لگا کر چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔

دیواروں کا تو خیر، کمرے بھی خستہ حال تھے۔ ایک کمرے کی چھت میں بڑی بڑی لکڑیاں اور گھاس پھوس ٹھونس دیے گئے تھے۔ اس کمرے کے ہر ایک کونے پر دیوار کے چوتھائی حصے تک بارش کے پانی کے نشانات اب بھی زندہ تھے جو واضح طور پر چھت میں چھوٹے موٹے سوراخوں کا پتہ دیتے تھے۔ یوں شام ہوئی اور رات سلیمہ کے دیدار کے انتظار میں گزری۔

صبح ناشتے پر غیر محسوس انداز میں آنکھیں گھمائیں لیکن سلیمہ کہیں نظر نہ آئی، سوچا شاید سو رہی ہو۔ کچھ لقمے لئے لیکن سلیمہ کی پہلی جادوئی نظریں مہمان جسم پر ہر طرف سے قابض ہو چکی تھیں۔ کھانے کو دل کر رہا تھا نہ ہی کسی سے بات کرنے کو۔ نہ اٹھنے کا دل کر رہا تھا اور نہ ہی کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے کو۔ من میں عجیب کسک تھی کہ ڈوبا جا رہا تھا۔

سلیمہ کے گھر میں دو کمرے آمنے سامنے تھے۔ ان کے درمیان میں ایک چھوٹا سا صحن، دائیں طرف کچن اور بائیں طرف بھی ایک کمرا تھا۔ سامنے والے کمرے میں موم بتی روشن تھی جو مجھے بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ اس کی مدھم روشنی کو دیکھنے، میں اس کمرے میں چلا گیا۔ ”آپ یہاں!“ سلیمہ ہلکے سے آواز میں شرماتے ہوئے بولی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ کمرے کے باہر سورج کی کرنیں آگ برسا رہی تھیں۔ دوسری طرف میں اور سلیمہ ایک ہی چھت تلے موجود تھے۔

سلیمہ نے ماتھے پر انگلی پھیری، پسینہ صاف کیا۔ ”اف اللہ! شاہینوں کے شہر کی بھی عجیب گرمی ہے، ہر دوسرے روز کپڑے دھونے پڑتے ہیں، پھر آپ کو تو پتہ ہے نا، سلیم، بڑی بیٹی ہوں، سب میں ہی دھوتی ہوں، امی تو اکثر بیمار رہتی ہیں“ سلیمہ جب یہ باتیں کر رہی تھی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرا دھیان کسی چیز پر سے ہٹانا چاہ رہی ہو۔ لیکن سچ کہوں تو سلیمہ کے محو کلام ہوتے وقت الفاظ اس کے ہونٹوں سے شبنم کے قطروں کی طرح ٹپک رہے تھے ”سلیم تم رکو میں ابھی پنکھا لائی۔

تم اتنے دور سے آئے ہو، آخر مہمان ہو میرے، ہمارے!“ نیلی چادر اپنے بالوں پر جلدی جلدی سیدھی کرتے ہوئے بولی۔ ”سلیمہ بات سنئے!“ یہ الفاظ بے اختیار منہ سے ایسی روانی سے نکلے کہ جیسے چشمے سے پانی نکلتا ہے لیکن ہاں یہ میرے دل کی آواز تھی۔ ہمت کی اور سلیمہ کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔ قد میں سلیمہ میرے کندھوں کے برابر تھی، نیلی، شیفون کی چادر بالوں کے عین اوپر لیکن جبین سے دو انگلیوں کی مسافت پر بال بے پردہ تھے، سلیمہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے، ”سلیمہ!

میں تم کو کچھ بتانا چاہتا ہوں“ آواز میں ایسی گھبراہٹ محسوس ہوئی جیسے اسٹیج پر مقرر کو ہوتی ہے۔ ”جی ب ت بت بتائیں“ تیز تیز سانس لیتے ہوئے ایسے بولی جیسے کھینچ کھینچ کر لفظوں کو نکال رہی ہو۔ سلیمہ کی آنکھیں اب میری آنکھوں سے ایک ہاتھ کے فاصلے پر تھیں، چہرہ میری طرف اٹھا ہوا تھا، نیلا شیفون اب کالی گھٹاؤں سے دوستی چھوڑ گیا تھا۔ بالوں کی شروعات تھوڑے سے اٹھے ہوئے مٹھی بھر بالوں سے ہوئی تھی اور پھر پورے سر کو بے شمار بال ایک نرم ریشمی کپڑے جیسے ڈھانکے ہوئے تھے۔

سلیمہ کی آنکھیں میرا آئینہ بن چکی تھیں۔ سفیدی ایسی تھی کہ جیسے آنکھیں ابھی عطا ہوئی ہوں۔ چاند سا چہرہ میرے چہرے کے نیچے پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ نظریں تیس درجے کے زاویے سے جھکیں تو سرخ ہونٹوں پر خشک زبان کے دوڑنے کے نظارے کی دید نصیب ہوئی۔ زبان بھی مجھے اتنا قریب دیکھ کر ہونٹوں کے پیچھے چھپ گئی۔

پسینہ میرے سر کے بالوں سے میری داڑھی میں بھٹک رہا تھا۔ جسم پر پسینہ کی حرکت ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے چیونٹیوں کی چہل قدمی۔ سلیمہ کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے۔ ”سلیمہ، میں تم سے سات بہاریں زیادہ دیکھ چکا ہو۔ جب تم اس دنیا میں آئی تھی میں اپنی شرارتوں میں مصروف، تم سے بے خبر تھا۔ تمھارا کیا نام ہو گا، تم کیسے لگو گی، اس سے مجھے کچھ غرض نہیں تھی۔ لیکن آج میں تمھارے لیے آیا ہوں۔ آج میں اس کے پاس آیا ہوں جو بن دیکھے میری زندگی کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔

آج میں اس کے پاس آیا ہوں کہ جس کا بچپنا مجھے پل پل یاد ہے۔ آج میں اس کے پاس آیا ہوں کہ جس کا میں بلا معاوضہ پہرے دار ہوں۔ سلیمہ! میرے دل پر تمھارے ہاتھ ہیں۔ تم میرے دل کا حال جان سکتی ہو۔ تم کوشش کرو تو میرے بے زبان دل سے باتیں کر سکتی ہو۔ میری آنکھوں میں دیکھو! تم کو ہر طرف صرف تم ہی نظر آؤ گی۔ سلیمہ! ہر مصیبت میں، تمہارے آگے، تمہارے پیچھے، تمہارے دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے میں کھڑا ہوں گا۔ تمھارے ہر آنسو کے لیے میں وہ ہوا بنوں گا جو گرنے سے پہلے اسے آنکھوں میں ہی خشک کر دیتی ہے۔ میں تمھارے لیے وہ دیوار ہوں گا جو ہر طوفان، آندھی سے تمھاری حفاظت کرے گی۔ وہ چھت ہوں گا جس کے نیچے تم ہر پل سکون کی سانس لو گی۔ تمھاری زندگی میں ہمیشہ بہار ہوگی۔ ہر خزاں کو تم سے پہلے مجھ سے ٹکرانا ہو گا۔

سلیمہ! میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ بے شمار پیار! جس کو لفظوں میں بیان کرنا اس کی تذلیل ہے۔ ایسا پیار کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ جس کے لیے لیلی اور مجنوں کی مثال بھی کافی نہیں۔ جو بے مثال ہے۔ میرے پیار میں ذات کی نفی ہے۔ میں، میں نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں۔ سب تم ہو۔ سب۔ تم!

سلیمہ یہ سب خاموشی سے سن رہی تھی۔ گردن ایسے جھکی ہوئی تھی جیسے مکتب میں غلطی کرنے پر شرارتی بچے کا سر۔

”موم بتی بجھا دو، سب ختم ہو گئی ہے، تمھارے ابو پھر غصہ کریں گے۔“ باہر سے سلیمہ کی امی نے زوردار آواز پکارا۔ ”جی امی بس ابھی بجھا دیتی ہوں“ سلیمہ گھبراہٹ بھری آواز میں بولی۔ پھر اچانک کمرے میں اندھیرا چھا گیا اور سلیمہ کے پیچھے دروازے کا ایک حصہ دوسرے سے ٹکرا کر بند ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments