جنیوا کانفرنس اور امداد: قرض کی پیتے تھے مے


پاکستان اور اقوام متحدہ نے 9 جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پاکستان کی تعمیر نو اور بحالی میں شراکت کے موضوع پر مشترکہ طور پر اہم کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مقصد گزشتہ سال کے تباہ کن سیلابوں کے بعد ملک کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے امداد کا انتظام تھا۔

گزشتہ سال پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشوں اور گلیشئر پگھلنے سے آنے والے سیلابوں سے 80 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر اور 17 سو سے زائد ہلاک ہوئے تھے۔ ماہرین نے اس سیلاب کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تھا۔ تعمیر نو کا تخمینہ 16.3 ارب ڈالر لگایا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مل کر پاکستان کی تعمیر نو اور بحالی میں شراکت کے موضوع پر اس بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی۔ پاکستان نے کانفرنس میں تعمیر نو اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا فریم ورک پیش کیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور طویل المدتی شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔

کانفرنس میں اعلٰی سطح کے افتتاحی اجلاس کے بعد باضابطہ طور پر تعمیر نو اور بحالی میں شراکت کی دستاویز پیش کی گئیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان کے دورے میں ہونے والی تباہی کو ’ماحولیاتی خونریزی‘ قرار دیا تھا۔ کانفرنس سے پہلے یو این ڈی پی پاکستان کے نمائندے کنٹ اسٹبی کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی برادری کے لیے اہم لمحہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے اور مربوط بحالی کے کاموں میں ساتھ دے۔ ‘ گذشتہ سال نومبر میں مصر میں ہونے والے کوپ 27 کے اجلاس میں پاکستان ’لاس اینڈ ڈیمیج‘ فنڈ کے قیام میں پیش پیش رہا تھا جس کا مقصد سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد ان ممالک کے نقصان کا ازالہ تھا، ماحولیاتی تبدیلی میں جن کا کردار امیر ممالک سے بہت کم ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی مشاورت سے جنیوا کانفرنس کاجو ایجنڈا تیار کیا گیا تھا اس کے تحت پاکستان نے سیلاب کی صورتحال اور نقصانات کا معاملہ کانفرنس میں رکھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے فنڈز اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ممالک کی مدد کے لیے فنڈز کا مطالبہ کیا۔

جنیوا میں منعقد ہونے والی پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کانفرنس برائے ماحولیاتی بالیدگی (Resilience) میں دنیا کے حکومتی اور عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے۔ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی انسانی و قدرتی و ماحولیاتی تباہی کے بعد مصر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں وزیر ماحولیات محترمہ شیری رحمان کی سفارت کاری کے باعث عالمی ماحولیاتی فورم کو ماحولیاتی نقصانات و تلافی کے حوالے سے عالمی ذمہ داری کا ادراک کرایا گیا تھا۔

اس بار ماحولیات دوست بحالی و تعمیر نو کا منصوبہ مرتب کیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جبکہ بحالی و تعمیر نو کے لئے 16 ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہے۔ اس برس کم ازکم 6 ارب 78 کروڑ ڈالرز چاہئیں۔ کہا جا رہا تھا کہ ایمرجنسی مدد کی اپیل پر آدھی رقم ہی مل سکی تھی، ڈونرز کی دلچسپی اگر اتنی ہی رہی تو کم از کم 4 ارب ڈالرز بھی مل جائیں تو طوفان میں گھری کشتی باہر نکل سکتی ہے۔

وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے بھی رابطہ کیا۔ امید ہے کہ جلد ہی اس کا وفد اسلام آباد میں نویں جائزہ کے لئے آئے گا اور معاملات طے ہونے کی قوی امید ہے۔ یہ ریویو مکمل ہوا تو چین، سعودی عرب، امارات اور قطر سے اربوں ڈالرز کے وعدوں پر عمل کی امید کی جا سکے گی اور پاکستان فروری یا مارچ تک مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل کر معاشی و مالیاتی استحکام کی جانب بڑھ سکے گا تاہم اگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل ہوا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 250 روپے سے اوپر اور مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو اتحادی حکومت کے گلے کی پھانس بن کر رہ گیا ہے۔ یقین دہانیاں تو کرائی جا رہی ہیں کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہیں پڑے گا لیکن آزاد منڈی میں بلیک مارکیٹ کا چلن جو حشر بپا کئے ہوئے ہے اسے روکنے کے لئے صوبائی حکومتیں اپنا کام نہیں کر رہیں۔

پاکستان کے لیے اضافی امداد اس وقت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کے سبب ملک کو درآمدی بل اور بیرونی قرضوں کی ادائی میں مشکل کا سامنا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے گارڈین میں لکھے گئے ایک مضمون میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور دشوار سفر کا آغاز ہے لیکن اس کے نتائج سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار، کروڑوں افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ شہباز شریف نے عالمی رہنماؤں، عالمی ترقیاتی اور انسانی تنظیموں اور فرینڈز آف پاکستان پر زور دیا کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ممکنہ طور پر غیر محفوظ ممالک کی مدد کریں۔ وزیراعظم نے مضمون میں مزید کہا کہ سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کا لائحہ عمل کانفرنس میں پیش کیا جائے گا جو کہ عالمی بنک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بنک اور یورپین بنک کے تعاون سے وضع کیا گیا ہے۔

اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ جنیوا کانفرنس پاکستان کو موسمیاتی لحاظ سے ایک مضبوط ملک بننے کی جانب بڑھنے کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو گی۔ صدر نے کہا کہ پاکستان کا گلوبل وارمنگ میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن وہ سیلاب کی وجہ سے موسمیاتی تباہی سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور اسے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کی سرگرمیوں میں دوست ممالک، مسلح افواج، غیر سرکاری تنظیموں اور سول انتظامیہ کے تعاون کو سراہا۔

جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی ریزیلینٹ کانفرنس میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لئے مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں کی جانب سے امداد کے جو اعلانات اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کانفرنس میں سب سے بڑی امداد اسلامی ترقیاتی بینک گروپ کی طرف سے 4 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی ہے، یہ رقم 3 سال میں پاکستان کو فراہم ہو گی، ورلڈ بینک کی جانب سے 2 ارب ڈالر، سعودی عرب 1 ارب ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک 1 ارب ڈالر، امریکہ 100 ملین ڈالر، چین کی طرف سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے مزید 10 کروڑ ڈالر گرانٹ دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی لمزید 88 ملین ڈالر، یورپی یونین 93 ملین ڈالر، جاپان مزید 77 ملین ڈالر، فرانسیسی صدر نے 10 ملین ڈالر، آذربائیجان 2 ملین ڈالر اور انڈونیشیا نے بھی 1 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ جنیوا کانفرنس میں 10 اعشاریہ 57 ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا گیا ہے، پاکستان کو سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے مجموعی طور پر 16 ارب 30 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ سیلاب نے متاثرین کی زندگی بدل کر رکھ دی اور آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کے عوام یو این سیکرٹری جنرل کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، عالمی برادری کے تعاون پربھی مشکور ہیں، مشکل وقت میں مدد کرنے والے ممالک کو پاکستان نہیں بھولے گا سیلاب سے تینتیس ملین لوگ متاثر ہوئے، انفرا اسٹرکچر کی تباہی سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی، سیلاب سے مکانات، تعلیمی ادارے، زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچا، سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تاحال سیلاب کا پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحال کر کے اچھا مستقبل دینا ہے، پاکستان کو بظاہر اس کانفرنس سے اچھے نتائج ملے ہیں۔

پاکستان میں اس کانفرنس پر تنقید کرنے والے ان فوائد کو بھی متنازع بنائیں گے جو حاصل ہوں گے، یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی مثال کے پی حکومت کے صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا کا جنیوا میں اپنی نمائندگی خود کرنے کا اعلان ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے سیاستدان، سیاست صرف اسے سمجھتے ہیں جو وہ کرتے ہیں، ملک کی خدمت بھی صرف وہی ہے جو وہ کریں، بلاتفریق تمام سیاست دانوں کی یہ سوچ ہے کہ اگر وہ حکومت میں نہیں ہوں گے تو ملک کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ انا کے خول میں بند سیاست دانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے اگر یہ سیاست ملک کے لیے ہے تو اس کام کے لئے ہر وقت اقتدار میں رہنا کیا ضروری ہے، اگر کوئی دوسرا اقتدار میں ہو تو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اس کا ساتھ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟

ذاتی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے ملک و قوم کا بہت سا نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ کاش اس کا احساس کر لیا جائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمران خان سمیت آج کل ہر خاص و عام ایک بات شدت سے دہرا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت تباہی کے دہانے پر ہے اور وہ ڈیفالٹ کے قریب ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں معیشت ٹیکسز پر چلتی ہے اور اس سے کوئی مبرا نہیں ہوتا خصوصاً حکمران و تاجر طبقہ کو اس سے چھوٹ نہیں ہوتی لیکن وطن عزیز میں ٹیکسز کے حوالے سے تمام تر توجہ تنخواہ دار طبقے پر ہے یا منی بجٹ دینے پر ۔ تاجر طبقہ تو لفظ ”ٹیکس“ سننا ہی نہیں چاہتا۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی تقسیم سے ہٹ کر ہر قدم صوبوں کی مشاورت سے اٹھائے تا کہ کچھ تو حالات بہتر ہوں اور دنیا کو لگے کہ ہم بھیک سے ہٹ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔

دنیا میں ٹیکس کے عوض صحت، تعلیم سمیت عوام کو دیگر بنیادی سہولتیں مہیا کی ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ٹیکس حکومتی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے

ترقی یافتہ ممالک کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ٹیکس سے انکاری ہو گا لیکن وطن عزیز کا تاجر طبقہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دے گا لیکن حکومت بے بس ہے کیونکہ اس کی ترجیح ووٹ بنک ہے نہ کہ معیشت۔ انرجی کرائسس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تمام کاروباری سرگرمیاں جلد بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتیں سیاسی تقسیم کی وجہ اس کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ وفاقی و صوبائی کابینہ کے سائز اور ان کی مراعات دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ہم معاشی بدحالی کے باعث اپنے اخراجات آدھے کر دیتے لیکن ہم نے یہ اخراجات چار گنا کر دیے ہیں۔ پوری دنیا معاشی بد حالی کا شکار ہے لیکن پاکستان کا کیس نرالا ہے بقول ایک غیر ملکی سفیر کے پاکستانی حکمران مانگنے کے لیے بھی اپنے ساتھ ”سونے کا کشکول“ لے جاتے ہیں۔ حکومت معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے تئیں اقدامات اٹھانے کے بجائے سارا انحصار بیرونی امداد پر کرتی ہے جس سے قرضے اور بڑھتے ہیں اور معیشت دبتی چلی جاتی ہے۔

امداد دینے والے بھی ہماری معاشی منصوبہ بندی اور اللے تللے دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان سے امداد لیں یا دیں۔ ہماری حکومت معاشی بدحالی کا رونا روتی ہے تو پھر اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز گھر سے کیوں نہیں کرتی۔ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو عوام کو اس طرف لانے کے لیے حکومتوں کو بھی ایسے علامتی اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے عوام کو بھی لگے کہ ان کا پیسہ حکومتی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔ سیاستدان اور پاکستان کا درد دل رکھنے والے سرمایہ دار ہی ملک کو معاشی بھنور سے نکال سکتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دانوں کا ایجنڈا اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا اور اگلے انتخابات سے ہٹ کر یکجا ہونے کا ہو۔ لیکن سوال پھر وہی ہے یہ کام کرے گا کون؟ ہمارا عمل تو غالب کے اس شعر کا مصداق ہے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments