فسانہ عجائب کا تنقیدی جائزہ


داستان ”فسانہ عجائب“ رجب علی سرور کی تصنیف ہے۔ سرور نے اس داستان میں قدیم داستانوی روایت کو قائم رکھا ہے اور اپنی اس تصنیف کو فوق الفطرت عناصر سے رنگین بنانے کی کوشش کی ہے۔ قدیم داستانوں میں طلسم و اسرار، عشق و محبت اور جنگ و جدال کا مقبول ترین عناصر میں شمار ہوتا تھا۔ سرور نے بھی ان بنیادی عناصر کو پیش نظر رکھ کر اپنی داستان کا خمیر انہی عناصر سے اٹھایا اور عقل میں نہ آنے والی سائنسی حقیقت پر پوری نہ اترنے والی اشیاء کو اس داستان میں جگہ دی۔

طوطے کا انسانوں کی طرح گفتگو کرنا، انسانوں کو مختلف جون بدلنا، نقش سلیمانی اور لوح طلسم کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر انجام دینا، جادوگروں اور دیوؤں کا حیرت انگیز کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسی باتیں جو انسان کی عقل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہانی کی ان طلسماتی کڑیوں اور حیرت زاد اجزا کی وجہ سے ہی سرور نے داستان کا نام ”فسانہ عجائب“ رکھا ہے۔

” فسانہ عجائب“ کا جب ہم تنقیدی جائزہ لینے لگتے ہیں تو یہ تصنیف ہمیں دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ فکری حصہ جس میں لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت پیش کی گئی ہے اور فنی حصہ جس میں مختلف کرداروں اور فنکار کی فنکاری، داستان اور ناول کی درمانی کڑی کا پتہ چلتا ہے۔

داستان میں لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت اور سرور کی لکھنؤ سے محبت نظر آتی ہے۔ وہ لکھنؤ کی سر زمین کے ذرہ ذرہ کا پرستار نظر آتا ہے۔ اسے پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف اس بلا دالعروس (لکھنؤ) کی ایک ایک چیز سے پوری واقف ہے۔ اس نے زندگی کی جزئیات کو ایسی خوبی سے پیش کیا ہے کہ لکھنؤی معاشرت ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتی نظر آنے لگتی ہے۔

محمد واصل عثمانی صاحب رقمطراز ہیں :

”سرور نے ایک ایسی تصنیف تخلیق کی جس کے ہر لفظ اور جملہ سے لکھنویت جھلکتی ہے۔ لکھنؤی انداز بیان لکھنؤی طرز ادا جگہ جگہ پر نمایاں ہے۔ لکھنؤ کی معاشرت تہذیب، رہن سہن، میلے ٹھیلے، بازار، دکان، عمارت کا تذکرہ بڑے نفیس انداز میں کیا گیا ہے“

سرور نے حب وطن کے جذبے سے سرشار ہو کر نہ صرف لکھنؤ پرست ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ اپنے خلوص سے کام لے کر لکھنؤ کی ہر ہر چیز کو حیات ابدی بخش دی ہے۔ لکھنؤ کے وہ صناع، فنکار اور باکمال جنہیں کوئی جانتا نہ تھا۔ جن کا نام زبان پر لانا لکھنؤ کی شرفا کے لیے معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ جن کے ذکر سے مجالس کے رنگ درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ سرور نے فسانہ عجائب میں انہیں ایسا مقام عطا کیا کہ ان کے فن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ کمالوں میں ان کا شمار ہونے لگا بلکہ لکھنؤی تہذیب و معاشرت کا انہیں جزو لاینفک سمجھا جانے لگا۔ ان با کمالوں میں ”نان بائی بھی ہے اور تنبولن بھی۔ کنجڑن بھی ہے اور عطر فروش بھی۔ حلوائی بھی ہے اور حجام بھی۔ ان کے سرسری تعارف کے علاوہ سرور نے ان کے کمالات اور فنون کو نمونے کے طور پر پیش کر کے آگاہ بھی کیا ہے۔

سرور نے ان با کمالوں کی زیارت کے علاوہ فنون لطیفہ یا دوسرے فنون جو عوام کی بے کاری اور دلچسپی کے مشاغل ہیں مثلاً بیٹر بازی، پتنگ بازی، بنوٹ، گنگا اور لکڑی چلانا وغیرہ کا ذکر بھی باخوبی سے کیا ہے اور لکھنؤ تہذیب کی عکاسی کرتی عالی شان عمارات، باغوں اور راغوں کا ذکر بھی بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے جس سے لکھنؤی تہذیب و معاشرت بے نقاب ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اور اس کے علاوہ لکھنؤ کی شیریں بیانی کا اظہار ہر اعلی اور ادنیٰ کی زبان سے دکھانا سرور کے فن عروج کا ثبوت ہے۔

لکھنوی معاشرت کا ایک اہم عنصر طوائفوں اور بالا خانوں پر بیٹھنے والی مہ جبینوں کی زندگی اور ان کی تہذیب ہے۔ طوائف کے کھوٹوں کا ذکر ہمیں اکثر قدیم داستانوں اور ناولوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس دور میں جب یہ داستان لکھی گی ان مہ وشوں کو صرف جنسی آسودگی کا ذریعہ اور دل بہلانے کا سامان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ زہرہ جبیں اس معاشرہ میں سب سے زیادہ مہذب اور معلم تہذیب و اخلاق تصور کی جاتی تھیں۔ شرفا نہ صرف خود ان کی گفتگو اور آداب و اطوار سے محظوظ ہونے بلکہ اپنی کم سن اولاد کو بھی آداب محفل، انداز گفتگو، تہذیب، شستگی اور فنون لطیفہ سیکھنے کے لیے ان کے پاس بھیجتے تھے۔ اقتباس ملاحظہ ہوں :

”وہ رنڈیاں پری شمائل زہرہ پیکر مشتری خصائل، اس نازو انداز اور سحر و کرامات غمزہ و عشوہ اداوگات کی بانکی کہ ہاروت و ماروت تو کیا معاذ اللہ۔“

داستان میں ایک فکری پہلو اور تلخ حقیقت کا بیان بھی ملتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والوں مسلمانوں کے گھروں میں بہت سی ایسی رسمیں جو تقریب کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ بعض صورتوں میں ان رسومات نے مذہبی حیثیت اختیار کر لی ہے پیدائش سے لے کر بوڑھے کی وفات تک بے شمار ایسی رسمیں ہیں جنہیں ہندوستان اور خصوصاً لکھنؤ کے لوگ ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتے مثلا:

” ولادت، چھٹی، چلہ، عقیقہ، بسم اللہ، ختنہ، روزہ، آمین، منگنی، نکاح، شادی، نیاز، نذر، فاتحہ، مجلس، میلاد شریف، گیارہویں، عرس یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جنہیں ایک غریب سے غریب انسان بھی اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے جن کا نہ کرنا اپنے لیے باعث ننگ۔“

ان رسومات کے علاوہ فسانہ عجائب میں لکھنوی معاشرت اوہام پرستی کی شکار اور توہمات میں بھی گرفتار تھی۔ لکھنؤ کے لوگ ہمیں بت پرستوں، دیوی و دیوتا کے پجاری، نجومیوں، پنڈتوں اور جفر والوں پر یقین رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے داستان کے شروع میں جب بادشاہ اولاد سے محروم ہوتا ہے تو پنڈتوں اور نجومیوں کو بلایا جاتا ہے اور وہ مختلف کنڈلیاں نکالتے ہیں۔

ان تمام فکری پوائنٹ کے بعد اب یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ داستان میں فوق الفطرت عناصر کے باوجود اس میں لکھنوی زندگی کے حقیقی خدو خال کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور وہاں کی تہذیب اور انداز فکر کے نقوش اجاگر کیے گئے ہیں اس لیے ہمیں ڈاکٹر گیان چند کی رائے بڑی دقیع معلوم ہوتی ہے کہ فسانہ عجائب ”داستان اور ناول کی درمیانی کڑی ہے۔“

جہاں تک داستان کے پلاٹ کا تعلق ہے وہ زیادہ مربوط معلوم نہیں ہوتا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سرور نے اس داستان کو احباب کے تقاضے پر قلم برداشتہ تحریر کیا تھا۔ دوسرے داستان کی بنیاد اس وقت کی مروجہ داستانوں کے بیشتر اجزاء پر رکھی تھی۔ یہ دونوں باتیں داستان کے تسلسل اور اس کے مربوط ہونے میں حائل ہوئیں۔ پھر داستان کی پانچ ضمنی کہانیاں پلاٹ میں خلا پیدا کرنے اور اس کے ربط و تسلسل میں رکاوٹ کا موجب بنی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ ضمنی داستانیں اس کے اختصار پر بھی ایک بد نما داغ ہیں۔ ضمنی کہانیاں طویل داستانوں میں تو جائز ہیں کیونکہ یہ یکسانیت اور اکتاہٹ کو دور کرنے کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن ”فسانہ عجائب“ جیسی مختصر داستان میں جائز نہیں سمجھی جا سکتیں۔ ان باتوں نے پلاٹ کی ہمواری کو نقصان پہنچایا ہے لیکن قصہ کی دلچسپی اور زبان کی رنگینی و وضع کاری پلاٹ کی اس ناہمواری کا زیادہ احساس نہیں ہونے دیتی اور دو ایک موقعوں کو چھوڑ کر قاری برابر کہانی کی فضا میں اپنے آپ کو گم پاتا ہے۔

کردار نگاری ناول کا ایک عنصر بیان کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کی قدیم داستانوں میں کردار نگاری کا خاص اہتمام نظر نہیں اتا۔ فسانہ عجائب ایک ایسی داستان ہے جس میں دوسری داستانوں کے برعکس کردار نگاری کا ایک خاص معیار دکھائی دیتا ہے اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ سرور نے اس داستان میں اپنے کردار کی تخلیق میں بڑی جانفشانی سے کام لیا ہے۔ اس کے کرداروں میں خصوصاً ملکہ مہر نگار، جان عالم، انجمن آراء، جوگی، ماہ طلعت، وزیر زادہ، بادشاہ فیروز بخت، چڑی مار کی بیوی کا کردار، بھٹیاری، سوداگر، ملک یمن کا بادشاہ کے علاوہ کچھ انگریزی کردار بھی نظر آتے ہیں۔ ملکہ مہر نگار داستان کا سب سے اہم، تابناک، متحرک اور جاندار کردار ہے جس کے وجود نے فسانہ عجائب کو ناول سے قریب کر دیا ہے۔ یہ ایسی شخصیت ہے جو داستان پر آغاز سے اختتام تک چھائی رہتی ہے۔ اس داستان کے کردار جاندار اور بے جان دو خانوں یعنی پیچیدہ اور سپاٹ پر مشتمل ہیں۔

مکالمہ نگاری سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف اپنی تخلیق میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ داستانوں میں ہم مکالمہ سے وہ کام نہیں لے سکتے جو ناول میں لیا جاتا ہے۔ لیکن سرور کا یہ کمال ہے کہ اس ”فسانہ عجائب“ میں مکالموں کے ذریعے کرداروں کی داخلی کیفیات کو بڑے سلیقہ سے پیش کیا ہے اور ان مکالموں کے ذریعے لکھنؤ کی تہذیب اور معاشرت کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ فسانہ عجائب کے مکالموں میں جو برجستگی اور بے ساختہ پن نظر آتا ہے اس کی بدولت اس داستان کو دوسری قدیم داستانوں پر فوقیت حاصل ہے۔

منظر کشی سے کہانی کی دلچسپی اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ منظر کشی کامیاب ہو تو جھوٹا قصہ بھی سچا لگنے لگتا ہے۔ جہاں تک ”فسانہ عجائب“ کی منظر نگاری کا تعلق ہے سرور نے بڑی کامیابی سے اسے بھی نبھانے کی کوشش کی ہے۔ سرور کا کمال یہ ہے کہ اس نے داستان کی اس روایتی منظر نگاری کو پیش نظر رکھ کر تخیل کی باگوں کو آزاد چھوڑ کر اپنی قوت متخیلہ سے خوب کام لیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہوں :

”جان عالم خوش و خرم جلد جلد قدم اٹھاتا چلا جاتا تھا۔ ایک روز چار گھڑی دن رہے کیا دیکھتا ہے کہ ایک شے مثل آفتاب بصد آب و تاب شمال کی سمت درخشاں۔ جب قریب پہنچا دیکھا دروازہ ہے عالی شان، سربفلک کشیدہ دیدہ روزگار ندیدہ بسکہ مطلا ہے اور لعل و یا قوت اس کثرت سے جڑے ہیں کہ جوہر کا وہم گمان رہتا ہے۔ شعاع آفتاب سے یک رنگی خورشید حاصل ہے۔ شرمندہ اس کے روبرو بدر کامل ہے“

فسانہ عجائب کی زبان پر بحث کرتے وقت ہمیں اب سے ڈیڑھ سو سال پہلے کے لکھنؤ اور اس کے اسلوب نگارش کو سامنے رکھنا چاہیے یہ وہ دور تھا جب مقفی اور مسجع عبارت وہاں کے اسلوب کا طرہ امتیاز تھا۔ لیکن سرور کا کمال یہ ہے کہ اس نے عبارت کو رنگین اور دل کش بنانے کے لیے صداقت، حقیقت اور شعریت سے بھی جا بجا کام لیا ہے تاکہ قاری کے لیے وہ مقفی اور مسجع عبارت ثقیل اور گراں نہ بن جائے اور وہ اکتاہٹ نہ محسوس کرنے لگے۔ فسانہ عجائب کے اس پہلو پر بحث کرتے ہوئے پروفیسر وقار عظیم صاحب رقمطراز ہیں :

”یہ زبان و بیان کے نقطہ نظر سے رنگینی، شعریت، ادبی لطافت اور زور تخیل کا ایسا نمونہ ہے جو اردو کے پورے افسانوی ادب میں اس رنگ خاص میں آپ اپنی مثال ہے“

حواشی:
1)
2)
رفیع الدین ہاشمی، اصناف ادب، لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز، س 2018، ص 60
3)
محمد واصل عثمانی، مقدمہ فسانہ عجائب، شائع کردہ مکتبہ عزم و عمل، کراچی، ص 13
4)
ایضاً: ص 13
5)
عبد العزیز ملک، ڈاکٹر، فسانہ عجائب تحقیق و تنقید، فیصل آباد: مثال پبلشرز، س 2021، ص 157
6)
ایضاً، محمد واصل عثمانی، مقدمہ فسانہ عجائب، ص 65
7)
سید ضمیر حسن جعفری، ہماری داستانیں، ص 353


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments