”جب وی میٹ“ : زندگی میں خوشی اور امید کی کرن پیدا کرنے والی فلم


معروف بھارتی فلم ساز امتیاز علی کی 2007 ء میں ریلیز ہونے والی سپر ہٹ رومانٹک فلم ’جب وی میٹ‘ ایک شاہکار مووی ہے۔ جب یہ 25 اکتوبر 2007 ء کو سینما میں پہلی بار ریلیز ہوئی تھی تو اس نے باکس آفس میں ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ ہر طرف سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل میں جکڑی پاکستانی قوم کے پاس تفریح کے لیے کم ہی مواقع میسر آتے ہیں۔ ایسے میں انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر بہت کچھ ایسا موجود ہے۔ جس کو دیکھ کر ہم اپنے لمحات کو مزے سے جی سکتے ہیں۔

کچھ دیر کو زندگی کی تلخیاں بھول کر اپنے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر سکتے ہیں۔ شاہد کپور اور کرینہ کپور کی فلم ’جب وی میٹ‘ بھی ایک ایسی ہی فلم ہے، جو ذہنی اذیت اور دماغی الجھنوں کو بھول کر زندگی کو نئے ڈھنگ سے جینے کے لیے محرک کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ میرے لیے تو ایک ڈوپامین ہے، جو ذہنی تناؤ سے نکال کر جینے کی ایک نئی امنگ کو من میں پیدا کرتی ہے۔

انسان اپنی زندگی میں یکسوئیت اور روٹین ورک سے جب اکتا جاتا ہے۔ تو اس کا من کرتا ہے، وہ بنا کسی منزل کے طویل سفر کو نکل جائے اور زندگی کو ایک نئے زاویے اور روپ سے انجوائے کرے۔ فلم ”جب وی میٹ“ کی کہانی بھی کچھ ایسے ہی ایک کردار، آدتیہ ’سے شروع ہوتی ہے۔

آدیتہ جو ایک بزنس ٹائیکون ہے۔ وہ اپنے روزمرہ کے کاموں اور فیملی ایشوز کی وجہ سے پریشان اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دن اپنی گاڑی پر دفتر سے نکلتا ہے۔ گاڑی کو راستے میں چھوڑ دیتا ہے۔ وہ بغیر کسی منزل کا متعین کیے انجان راستوں کی خاک چھاننے اور زندگی کے روشن پہلو ڈھونڈنے کی غرض سے سفر کو نکل جانا چاہتا ہے۔ جس کے لیے وہ ممبئی کے ایک ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہے۔ وہاں وہ پنجاب کے کسی دور دراز علاقے کو جانے والی ایک ٹرین پر سوار ہوتا ہے۔

وہ اپنی سیٹ پر خیالوں میں گم سم بیٹھا کچھ سوچ رہا ہوتا ہے۔ جب ایک نوجوان چنچل مزاج لڑکی اس کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہو جاتی ہے۔ وہ لڑکی آتے ہی آدتیہ سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ اپنی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے اپنی نرگسیت پسندی دکھاتی ہے۔ وہ مسلسل بولتی رہتی ہے۔ اس دوران آدتیہ جو افسردگی کا شکار ہے۔

وہ شوخ لڑکی میں اپنی کوئی دلچسپی شو نہیں کرتا اور وہ لڑکی کی باتوں سے تنگ آ کر خاموشی سے اگلے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے۔

جب گاڑی چلنے لگتی ہے تو گیت نامی وہ لڑکی آدتیہ کو ڈھونڈنے کے لیے ٹرین سے نیچے اترتی ہے۔ اور وہ گاڑی مس کر دیتی ہے۔ وہ آدتیہ کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ گیت آدتیہ سے اسے ٹیکسی پر اس کے گھر بٹھنڈا جو پنجاب کا دور افتادہ علاقہ ہے، وہاں چھوڑ آنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

آدتیہ جو زندگی سے بیزار ہو گیا تھا اور خودکشی کے خیالات اس کے دماغ میں آنے لگے تھے۔ وہ سفر کے دوران گیت کی ہشاش بشاش اور باغ و بہار شخصیت سے متاثر ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی لائف کو خوشی سے جینے کا ارادہ کرتا ہے۔ ایک طویل مسافت کے بعد وہ گیت کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں آدتیہ پنجاب کے موسم اور میزبانی کا خوب لطف لیتا ہے۔ گیت جس کے سر پر اپنے بوائے فرینڈ انشومن سنگھ کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ وہ ایک رات آدتیہ کے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر سے بھاگ رہی ہے۔ آدتیہ کو بھاگ کر شادی کرنے والی عورتوں سے سخت نفرت ہوتی ہے۔ کیونکہ آدیتہ کے بچپن میں اس کی ماں اسے تنہا چھوڑ کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ جس کے آثار آدتیہ کی زندگی میں شدت سے دکھائی ہوتے ہیں۔

آدتیہ گیت کو سمجھاتا ہے کہ وہ گھر سے بھاگ جانے والی حرکت سے بعض آ جائے۔ مگر وہ نہیں مانتی۔ آدتیہ بھی اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ آدتیہ اور گیت وہاں سے نکل پڑتے ہیں۔ گیت اپنے لڑکے دوست کے پاس جب شملہ پہنچتی ہے۔ تو وہ فیملی پریشر کی وجہ سے گیت کے ساتھ شادی سے انکار کر دیتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف آدتیہ واپس ممبئی آ کر اپنے کاروبار کو نئے ولولے اور جوش سے شروع کرتا ہے۔ اور اپنی کمپنی کو نمبر ون پر لے آتا ہے۔

آدتیہ کو جب گیت کے حالات کا علم ہوتا ہے تو وہ شملہ جانے کے لیے سفر کرتا ہے۔ جہاں گیت اپنے دوست کی بے وفائی میں اذیت کے دن گزار رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنا غم غلط کرنے کے لیے شملہ کے کسی مقامی سکول میں بطور ٹیچر کام کر رہی ہوتی ہے۔ جہاں وہ اپنا زیادہ وقت سکول کے بچوں کے ساتھ گزارتی ہے۔ دوسری طرف گیت کے حالات کا سن کر آدیتہ ممبئی سے شملہ پہنچ جاتا ہے۔ وہ کافی کوشش کے بعد گیت کو اپنے ساتھ لینے جانے پر رضامند کرتا ہے۔ آدتیہ، گیت کے محبوب انشومن سنگھ کو بھی اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا کر بٹھنڈا کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔

جب وہ لوگ گیت کے گھر بٹھنڈا پہنچ جاتے ہیں تو گیت کے خاندان والے بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔ آدتیہ کے سمجھانے پر وہ گیت کی شادی انشومن سنگھ کے ساتھ کروانے راضی ہو جاتے ہیں۔ مگر انشومن سنگھ کی بے وفائی اور آدتیہ کی بے لوث محبت گیت کو آدتیہ کے قریب کر دیتی ہے۔

آدیتہ جو اپنے والدین کی کمی کے سبب زندگی کی رونق اور چکاچوند سے دور ہوا ہوتا ہے۔ وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہونے کے باوجود بھی غم زیست کے حصار میں محصور ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت اور چنچل لڑکی جب اس کی زندگی میں آتی ہے تو گویا آدتیہ کو دنیا میں جنت مل جاتی ہے۔ ایک عورت کی مرد کی زندگی کو کس طرح مکمل اور خوبصورت بناتی ہے۔ جب وی میٹ، میں اس کو دلکش انداز میں فلمایا گیا ہے۔

رومانس اور کامیڈی سے بھرپور یہ فلم ایک شاہکار ہے۔ یہ مووی یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔ اس فلم کا ساؤنڈ ٹریک، کرینہ۔ کپور (گیت) کی نٹ کھٹ اداکاری اور شاہد کپور (آدیتہ) کا اڑیل اور بے لوچ کردار آپ کی توجہ کو سکرین پر مرکوز کیے رکھتے ہیں۔ دونوں کی اداکاری قابل ستائش اور قابل دید ہے۔ یہ فلم ایک افسردہ اور نا امید انسان کو خوش رہنے کے ہنر اور زندگی کو نئے انداز سے جینے کے ڈھنگ سے آشنا کرتی ہے۔ اس فلم کے گانے جھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

جب وی میٹ کے مشہور گانوں میں، نگارہ نگارہ نگارہ بجا، موجاں ای موجاں، تم سے ہی دن ہوتا ہے اور آؤ گے جب تم ساجنا شامل ہیں۔

فلم میں مجھے سب سے زیادہ پسند
تم سے ہی دن ہوتا ہے
سرمئی شام آتی ہے
یہ سونگ آیا ہے۔ اسے موہت چوہان نے گایا ہے جبکہ اس کے بول ارشد کمال نے لکھے ہیں۔ مووی کا مشہور گانا۔
آؤ گے جب تم ساجنا
انگنا پھول کھلیں گے

ہے، جس کے لیریکس فیض انور نے لکھے۔ استاد راشد خان نے اسے گایا۔ جبکہ اس کے میوزک ڈائریکٹر سندیش سندیلیا ہیں۔

میلوڈی سونگز، دلکش مناظر، عمدہ اداکاری اور دلچسپ پلاٹ پر مشتمل یہ فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments