شخصی آزادی، سیکس ایجوکیشن، لو میریج، میریٹل ریپ جیسے الفاظ سے گھبراہٹ


لفظ، اس کے ساتھ وابستہ معاشرتی تصورات، تصور کے ساتھ سماج و عوام کی جذباتی وابستگی، زمانی اطلاقات، حدود و قیود وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو فقط ایک اکیلا لفظ، منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لفظ اپنے ساتھ اتنا کچھ اٹھا کے سفر طے نہیں کرتا۔

مرور زمانہ سے یہ سب چیزیں یکسر تبدیل بھی ہو جاتی ہیں۔ اس رد و بدل کے بعد جب کوئی لفظ ایک سماج سے دوسرے سماج میں بولا جانے لگتا ہے تو بحث برائے بحث شروع ہو جاتی ہے۔

ان سب تبدیلیوں کا لحاظ اور علم کم ہی لوگوں کے پاس ہوتا ہے اور کبھی ان سب باتوں کو جاننے کے وسائل بھی مفقود اور سخت محنت طلب ہوتے ہیں، کبھی تعصبات اور دوریاں آڑے آتی ہیں۔

لفظ ”محبت“ کو ہی دیکھ لیں۔ محبت سے وابستہ معاشرتی تصورات، جذباتی وابستگیاں، زمانی اطلاقات اور تحدیدات وغیرہ مغرب و مشرق میں کتنی مختلف ہیں (خصوصاً مرد و زن کے تعلق میں ) محبت کو ہمارا سماج عموماً جیسے ایک ملفوف قسم کا احساس سمجھتا ہے، جو تہ در تہ ہوتا ہے۔ شرم، ہچکچاہٹ، تکلف اور وقتی حجاب سے پر، جھکی جھکی نظروں، خاموش سرگوشیوں سے بھرپور لیکن اندر سے چیختا ہوا، منہ زور اور شاید مجبوراً کچھوے کی چال سے آگے بڑھتا ہوا۔ جسمانی ملاپ مطلوب و محمود اور اس کا حصہ ضرور سمجھا جاتا ہے لیکن بغیر نکاح کے اس تعلق کو قائم کیا جانا جرم اور اس کو گفتگو کا موضوع بنانا معیوب مانا جاتا ہے۔

مغرب کے زیر اثر جو محبت کا تصور پنپ رہا ہے ( یہ عوامی سطح پہ زیادہ تر ناولوں، فلموں، ڈراموں، ویب سیریزز، ڈاکیومینٹریز وغیرہ سے کشید کردہ ہے ) اس کے انداز اپنے ہیں اور خود مغرب محبت کو کیسے دیکھتا ہے وہ کچھ الگ رنگ لیے ہوئے ہے۔

مغرب میں جنسی سرگرمی کے لیے بھی پیار کرنا ( لو میکنگ ) کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔ وہاں پیار اور جنسی عمل جیسے ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ ہم محبت اور مباشرت کو یک جاں کرنے سے گھبراتے ہیں، ایسی محبت جس میں جنسی سرگرمی سر عنوان ہو اس کو خالص محبت سمجھتے ہی نہیں۔

ایسی ہی لفظ ”سیکس“ ہمارے ہاں جنس کو بیان کرنے کے علاوہ جب کسی جنسی سرگرمی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو ایک منفی لبادے میں دیکھا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کو سیکس کرنے سے تعبیر کرنے میں اک ہچکچاہٹ سی محسوس کی جاتی ہے۔ غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔

یہاں یہ نکتہ زیر بحث لانا مطلوب نہیں کہ بہتر تصور کون سا ہے یا ہمارے سماجی تصورات میں بہتری کی کتنی گنجائش اور ضرورت ہے۔ اس میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ البتہ اس معاملے میں سنجیدگی لینا اور اتفاق کی صورت نکالنا اہم ہے کہ درآمد کردہ تصورات کو اپنے سماجی قالب میں ڈھالنا، اپنی مقامی تعبیرات اور اسلوب میں بیان کرنا، سماج سے مخاطب ہوتے وقت گفتگو کو ایسے سب استعاروں اور تعبیروں سے دور رکھنا اہل علم کے لیے ضروری ہے جن سے معاشرے میں اضطراب پیدا ہو، معاملات گڈمڈ ہونے کا اندیشہ ہو، لوگوں میں ایک درست بات سے وحشت اور تنفر پیدا ہو۔

جب عام پاکستانی سے بات کرتے وقت ہم مثال کے طور پر ”سیکس ایجوکیشن“ کی تعبیر استعمال کرتے ہیں تو لوگ وحشت کھاتے ہیں۔ متکلم کا منشا چاہے یہ نہ بھی ہو کہ مغربی تصور جنسی تعلیم یہاں رائج کرنا چاہیے لیکن لوگ اس تعبیر سے یہی اخذ کرتے اور سمجھتے ہیں۔ اس تعبیر کا ہمارے یہاں ایک مخصوص تصور ہے، اس کے ہوتے ہوئے اس وحشت کو دور نہیں کیا جاسکتا۔

اس لیے بہت مناسب ہو گا کہ معاشرے میں ایک لازمی امر کی آگاہی پھیلانے کے لیے، سماج کو ایجوکیٹ کرنے کے لیے، بجائے کہ ہم کسی دوسرے سماج کی تعبیرات استعمال کریں، ان تعبیرات اور تصورات کو اپنے سماجی قالب میں ڈھال کر، مقامی استعاروں اور تصورات کی زبان میں بیان کریں تا کہ سماج کو قبول کرنے میں سہولت اور اپنائیت محسوس ہو۔

میرا جسم میری مرضی، عورتوں کی آزادی، سیکس ایجوکیشن، لو میریج، میریٹل ریپ۔ یہ چند عنوانات اور تعبیریں اسی قبیل کی محسوس ہوتی ہیں جو الجھ کر رہ گئی ہیں۔ ان پہ گفتگو ہونا ضروری ہے۔ ان کے متعلق ہمیں اپنے تصورات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے لیکن یہ سب اپنے مغربی لیبل، تعبیر اور تصورات کی وجہ سے ابھی تک ہمارے معاشرے کے سنجیدہ موضوع گفتگو نہیں بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments