ہمارے مائی باپ اور آئین کا مومی مجسمہ


شک تو پہلے بھی نہیں تھا مگر یقین محکم کی یہ کیفیت خواب و خیال میں بھی نہ تھی جو اب نصیب ہوئی ہے۔ ایک ”کتاب چہرہ“ دوست بہت یاد آ رہا ہے جو اکثر مطالعہ پاکستان کا طعنہ دے کر بات کرتا تھا اور میں جانتے بوجھتے اسے جھٹلانے پر تلا رہتا تھا۔ دل ہی نہیں مانتا تھا۔ بچپن سے ملی نغموں پر جھومنے والا دل بھلا کیسے مان لیتا۔ بھئی مانتے ہیں اس مرد قلندر کو جس کے کارن حق الیقین کی دولت حاصل ہوئی۔

مگر اس دولت کا کیا فائدہ جس نے مایوسی کو جنم دیا اور اداسی کی ایک میلی چادر ہمارے سروں پر تان دی کہ آخر کار یہ ہیں ہمارے مائی باپ۔ اگرچہ یہ بھی کوئی نئی بات ہمارے علم میں نہیں آئی مگر یہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں اس کی توقع ہرگز نہ تھی۔ یہ مار پیٹ، یہ عزت نفس کو کچلنا، یہ فون ٹیپنگ اور یہ گھسے پٹے، روایتی اور منافقانہ اخلاقی معیار کے ہتھیار کا استعمال! ہم نا سمجھوں کے حسن ظن کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اپنی کم فہمی کا اعتراف ہماری معاشرتی روایات کے خلاف ہے مگر جس جذباتی صدمے سے ہمیں گزرنا پڑا اس کی شدت شاید اس اعتراف سے کم ہو سکے۔

لیکن صدمے کے باوجود اس خطہ ارض کی قدیم روایات سے آشنائی کا تقاضا ہے کہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ جہاں ہمیشہ طاقت کا سکہ رائج رہا ہو وہاں جمہوری روایات اور آزادی اظہار کی امید باندھنا اور طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی توقع رکھنا حقیقت پسندی سے اتنا ہی دور ہے جتنا قطب شمالی سے قطب جنوبی۔ ایسے میں آئین اور قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ آئین اور قانون کا ڈراوا صرف کمزور کے لیے ہے۔ طاقت کے سرچشموں کے لیے نہیں۔ آئین کا یہ لالی پاپ ہمارے منہ میں ٹھنسی ہوئی وہ چوسنی ہے جس میں سے دودھ کبھی برآمد نہیں ہو سکتا۔

طاقت کے سرچشموں کی فہرست قدیم آریاؤں سے شروع ہو کر سکندر اعظم جیسے مہم جوؤں، حجاج بن یوسف کے بھتیجوں، وسط ایشیا کے در اندازوں، افغانستان کے ”بت شکنوں“ اور عظیم مغل شہنشاہوں سے ہوتی ہوئی انگریزی راج اور پھر دیسی اسٹیبلشمنٹ تک پہنچتی ہے۔ فہرست کے ایک نمبر سے دوسرے نمبر تک ہماری قسمتوں کا منتقل ہونا ہر گز آسان نہیں تھا۔ جب بھی ”رجیم چینج“ کا مرحلہ آیا خون کی ندیاں بہہ گئیں اور سارا ملک اتھل پتھل ہو گیا۔

جہاں تک دھرتی کے بیٹوں کا تعلق ہے تو انھوں نے ہر طاقتور کے سامنے سر تسلیم خم ہی کیا اور چھوٹتے ہی اسے اپنا مائی باپ مانا۔ اگر کوئی پھسپھسی سی مزاحمت ہوئی بھی تو اپنوں نے ہی دوسروں کا آلۂ کار بن کر اس کا جنازہ نکالنے میں دیر نہ لگائی۔ پاکستان بننے کے بعد انگریزوں نے اپنی وراثت اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کی جس کے بعد انتقال اقتدار تو ہوتا رہا مگر انتقال اختیار کبھی نہیں ہو پایا۔ تو پھر صرف پراجیکٹ عمران کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا جائے۔

پہلے والے پراجیکٹ آپ کے سگے تھے، صرف یہ سوتیلا ہے؟ اس کا تو ہمیں احسان مند ہونا چاہیے کہ سب کچھ شیشہ کر دیا۔ پہلے والے تو بولنے کی ہمت ہی نہ جٹا پائے۔ کہاں کا آئین اور کہاں کی جمہوریت! آئین کا مومی مجسمہ ڈھالنے والے بھی یہی با اختیار ہیں اور جمہوریت کا پانسہ پھینک کر تماشا دیکھنے والا بھی ان کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اس مجسمے کے خدو خال میں رد و بدل بھی انھی کا اختیار ہے اور خلق خدا کو پیٹھ پر ٹہوکے دیتے ہوئے لاکر اس کی جھوٹی تقدیس کے سامنے سجدہ ریز کروانا بھی ان کے ہی فرائض منصبی کا حصہ ہے۔

حیرت مجھے اپنے ان دانشوروں پر ہوتی ہے جو آئین کے اس مومی مجسمے کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ یہ سابقہ بائیں بازو کے وہی شعلہ بیاں ہیں جو سوویت یونین کے سانحۂ ارتحال کے بعد دائیں بازو میں خلط ملط ہو گئے اور امریکی نوازشات کے بحر ذخار میں ڈبکیاں کھاتے کھاتے ”ووٹ کو عزت دو“ کا در شہوار ڈھونڈ لائے اور آج کل ”پراجیکٹ عمران“ کے بخیے ادھیڑنے پر مامور ہیں۔

طاقت کے سکے کا فلسفہ ہم بھی مانتے ہیں کہ جنگل کا قانون ہی اصل قانون ہے، اسٹیبلشمنٹ کو اپنا مائی باپ سمجھنے میں بھی ہمیں کوئی عار نہیں کہ نوکر کیا اور نخرہ کیا۔ لیکن ان نیم پخت دانشوروں کی دانشوری کو ہم کیسے تسلیم کر لیں جو تاریخ کے نازک ترین مواقع پر خاموش رہنے کے باوجود احساس ندامت سے عاری ہیں اور ریکارڈ کی درستگی کی حد تک بھی سچ بولنے پر آمادہ نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments