فیصل عجمی حقیقت بھی فسانہ بھی


ستمبر 2022 کے آخری ہفتے کا ذکر ہے شاہد ماکلی فون پر تھے۔ شاہد ایک خوبصورت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پیارا انسان بھی ہے۔ فیصل عجمی کی نئی کلیات ”سخن آباد“ کے بارے بات کی۔ تقریب کے وسط اکتوبر میں انعقاد کا ذکر اور کتاب پر اظہار خیال کی درخواست تھی۔ فیصل عجمی باکمال شاعر اور بڑا کہانی کار ہے۔ مجھے اس سے آگاہی تھی۔

یوں بھی وہ ایک بڑے افسانوی کردار کے طور پر میری یادوں میں محفوظ تھا۔ سو اس پر بات کرنی تو بنتی تھی نا۔

چند دنوں بعد شاہد فون پر تھے۔ ”آپ کی صدارت ہے۔“ یہ میرے لیے سٹپٹانے والی بات تھی۔ فوراً بولی۔ ”یہ عنایت میرے اوپر کس خوشی میں؟ سخن فہم میں ضرور ہوں مگر شاعر تو نہیں۔“ ۔ ”فیصل عجمی کی خواہش ہے۔“ شاہد بولے۔ اب بحث میں کیا پڑتی۔ کہ خواہش کرنے والا تو کہیں بنکاک میں بیٹھا تھا۔

تاہم مجھے تعجب تھا۔ میرے سامنے اسی نوے کی اختتامی دہائی کے ماہ و سال تھے جب ادب کی دنیا میں فیصل کا ظہور ہوا۔ فنون میں کیا چھپنا شروع ہوا کہ فی الفور توجہ کا مرکز بن گیا کہ شاعری میں انفرادیت تھی۔

میرا اور میری ہم عصر دوستوں کا احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا۔ ان کی منہ بولی بیٹی منصورہ سے بھی دوستی تھی۔ لہٰذا اکثر مجلس ترقی اردو ادب جا دھمکتے۔ یہاں پاکستان کے مرکزی شہروں کے نامور ادیبوں سے بھی ملنا اور ان کی باتیں سننے کا موقع مل جاتا۔ یہیں فیصل عجمی بارے کسی گفتگو میں یہ جانا کہ وہ اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق بعید کی ایک بڑی کاروباری آئی کو نک شخصیت ہے۔ اسی دوران ”آثار“ جیسے ادبی پرچے کا اجرا ہوا جس کی ادارت ممتاز شاعرہ ثمینہ راجہ کے سپرد ہوئی۔

فیصل عجمی اسلام آباد کے ادبی منظر نامے پر پوری توانائی سے ابھرا تھا۔

یہ 1996 کی بات ہے اس کا نیا مجموعہ ”شام“ جسے اساطیر جو منصورہ احمد کا پبلشنگ ہاؤس تھا نے شائع کیا۔ تقریب رونمائی جم خانہ میں ہو رہی تھی۔ تقریب میں لاہور کے ادبی حلقوں کا کون سا ایسا اہم نام تھا جو اس تقریب میں موجود نہ تھا۔ اسلام آباد سے احمد فراز، ثمینہ راجہ اور کئی دیگر لوگ آئے ہوئے تھے۔ اس کا ایک منظر جیسے میری آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے منجمند ہوا پڑا ہے جو آج بھی اس شعر کا عکاس ہے کہ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔

لاہور کا ایلیٹ ادبی گروپ جیسے بڑے قاسمی صاحب، چھوٹے قاسمی صاحب یعنی احمد ندیم، عطا الحق، امجد اسلام امجد اور اسی نوع کے دیگر لوگ ایک دائرے میں فیصل عجمی کو لیے گپ شپ کر رہے تھے۔ یوں جیسے وہ راجہ اندر ہو اور ادب کی پریوں نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا ہو۔

ہم چھوٹی لکھاری خواتین رخشندہ، سیما، نیلم اور میں ایک طرف بیٹھے اس صورت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ نہ تو ہم میں سے کسی نے آگے بڑھنے اور نہ ہی خود کو متعارف کروانا ضروری سمجھا۔ یقیناً ہمیں اپنی اوقات کا بخوبی علم تھا کہ ابھی ہم ادب کے ان جناتی دیوں کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہ تھیں۔

نیلم احمد بشیر کے منہ کو کون بند کر سکتا ہے۔ تبصرہ ہوا تھا۔ ”جی پیسہ بول رہا ہے۔“

پھر فیصل عجمی نے ایک اور دھماکہ کیا۔ کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔ کہانیاں بھی ایسی کہ بندے کا سانس روک لیں۔ مشرق بعید کی ان جادوئی سرزمینوں کی جن کے سحر میں قصے کہانیوں کا رسیا بندہ ویسے ہی جکڑا رہتا ہے۔ کہیں نئی دنیاؤں کے نئے چلن کی۔ منفرد، مختصر اور جٹ جپھا ڈالنے والی۔

” سونامی“ اور ”بگ بینگ“ ایسی ہی خوبصورت کہانیوں کے مجموعے تھے جو بہت ہی شاہانہ انداز میں چھپے تھے۔ اور جو ہمیں منصورہ نے عنایت کیے تھے۔

پھر ایک نئے واقعے نے جنم لیا۔

فیصل عجمی پاکستانی ادبی و سوشل منظر نامے سے غائب ہو گیا۔ اس کی کوئی چھوٹی موٹی ادبی تحریر اب کسی پرچے میں دیکھنے کو نہیں مل رہی تھی۔ ”آثار“ بھی بند ہو گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں بس قیاس ہے کہ ثمینہ راجہ کا بھی انہی دنوں انتقال ہوا تھا۔ بے حد خوبصورت لب و لہجے کی شاعرہ بہت سی کہانیاں، یادیں اور رنگ رنگیلی باتیں اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے وسطی سالوں میں سے ہی کسی کا ذکر ہے کہ جب ایک دن میرے فون کی گھنٹی بجی۔

”فیصل عجمی بول رہا ہوں۔“ سن کر تو میں حیرت زدہ رہ گئی۔ میری تو ان سے کبھی چھوٹی موٹی علیک سلیک بھی نہ تھی۔ انہوں نے ”الحمرا“ میں چھپنے والے میرے ایک مضمون کا ذکر کیا جو میں نے ان کے افسانوں پر لکھا تھا۔ گفتگو سے تھوڑی سی جانکاری ہوئی کہ وہ بنکاک میں ہیں۔ چند دنوں بعد پھر فون تھا۔ اس سے تھوڑا سا مزید پتہ چلا کہ کاروباری حالات کچھ ٹھیک نہیں۔ پھر دھیرے دھیرے یہ فونک سلسلہ بڑھتا گیا۔ تیسرے چوتھے یا کبھی ہفتے میں ایک بار کبھی روز۔ ان کی ذات کے پہلو میرے اوپر کھلنے لگے تھے۔ ذاتی، خاندانی، کاروباری اور پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت فعال رہنے کی جس سے بہرحال میری کوئی آگاہی نہ تھی۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کو مالی اور ذہنی سپورٹ، ان کے قصے، عمران کے بارے باتیں پھر اندر خانے کی کچھ مزید خبریں سننے کو ملیں۔

کالم نگار اور ادیبوں کے تذکرے۔ تحفے تحائف کی بھی داستانیں۔ کبھی کبھی مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا کہ جیسے اس کی ذہنی حالت مخدوش سی ہے۔ ایک آدھ بار کچھ ایسا بھی تاثر ملا جیسے وہ کہیں انڈر گراؤنڈ ہے۔

کچھ ہی وقت بعد ہارون الرشید کے ایک کالم سے اندازہ ہوا کہ اسے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ ان دو قیمتی قالینوں کا کیا کرے جو فیصل عجمی نے اسے دیے تھے۔ تاہم ہارون کا ایک کالم میرے لیے بڑا چیلنج بن گیا کہ اس نے سوویت یونین ٹوٹنے کے زمانے میں فیصل عجمی کے ایک افسانہ ” اوور ٹائم“ پر تعریفوں کی بھرمار کردی تھی۔

اس افسانے کا تھوڑا سا پس منظر واضح کردوں کہ اس کی ہیروئن روسی اینا کوا اور دیگر روسی لڑکیاں سوویت ٹوٹنے کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتی ہیں اور اس سے انتقام لینے کے لیے اور ٹائم سے پیسہ اکٹھا کرتی ہیں۔

یہ خیال قطعی غلط تھا۔ میں 2006 میں روس گئی تھی جہاں ایک پاکستانی انجنئیر منصور کی روسی جرنلسٹ بیوی جو ماسکو نیوز کی سیاسی رپورٹر تھی نے میری بہت سے معاملات میں رہنمائی کی تھی۔

سوویت ٹوٹنے پر ماسکو کے لوگوں کے ریڈ سکوائر میں خوشی کے بھنگڑے اور قومی پرچم میں سے ہتھوڑے اور درانتی والے حصے کو کاٹ پھینکنے والے منظر تو اسی کے گھر میں نے سکرین پر دیکھے تھے اور اس وقت کی کہانیاں سنی تھیں۔

ہارون الرشید سے اردو ڈائجسٹ کے ہفت روزہ زندگی کے زمانے سے اچھی شناسائی تھی کہ ہارون اس پرچے کے ایڈیٹر اور میں اسی ٹیم کا رپورٹر کے طور حصہ تھی۔

میں نے فون کیا اور بتایا کہ افسانے کا خیال غلط مفروضے پر ہے۔ روسی نوجوان نسل امریکی کلچر اور امریکی طرز زندگی کی دیوانی ہے۔ ہارون تو اس کے بعد دعا سلام سے بھی گئے۔

فیصل کے ساتھ ٹیلی فونک سلسلہ کوئی 2010 گیارہ تک رہا۔ گھر بدلا تو سلسلہ منقطع ہو گیا۔ سالوں بعد ایک بار موبائل پر میسج تھا۔ ”بنکاک کا سفر نامہ آپ کا منتظر ہے۔“ ”شکریہ“ لکھا۔ مگر یہ پیشکش قبول نہیں کی۔

”آثار“ دوبارہ شروع ہوا ہے۔ کم و بیش اسی سج دھج سے جو اس کا پرانا انداز تھا۔ ”سخن آبا“ دنیا مجموعہ کلام بھی کمال خوبصورتی سے چھپا ہے۔ آفس بھی بن گیا ہے جس کی ذمہ داری شاہد ماکلی کے سپرد ہے۔

تقریب کے دن امجد اسلام امجد تھوڑی دیر کے لیے آئے تھے۔ انہیں کہیں اور بھی ضروری جانا تھا۔ انہوں نے بھی کہا۔ فیصل کو آنا چاہیے تھا۔ اب تو خیر وہ ان سیاسی جھنجھٹوں سے بھی باہر نکل آیا ہے۔ کاروباری حالات بھی ٹھیک ہیں۔ بہت خوبصورت اور منفرد شاعر ہے۔ امجد کہانی کار بھی بڑا ہے۔ میں نے کہا۔

اب اس قصے کی پنچ لائن بھی لکھ دوں۔ دراصل مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ لاہور میں بڑے بڑے سخن وروں کی موجودگی میں اس نے میری صدارت کیوں چاہی؟

کیا یہ اس عورت کو عزت و احترام کی کوشش تھی جسے اس نے اپنی بڑی بہن یا ایک ہمدرد دوست سمجھ کر اپنے بہت سارے دکھ اور پریشانیاں شیئر کی تھیں۔ جو ان ناساز گار دنوں میں اس کے اندر کے بوجھ کو ایک خاموش سامع کی صورت میں ہلکا کرنے میں معاون تھی۔ جو اس کے دکھ کو سمجھتی اور اس اندر کے بڑے لکھاری کی عظمتوں کی مداح تھی۔

میں نہیں جانتی ہوں کہ میرا تحریری یا گفتگو والا رابطہ دوبارہ کبھی نہیں ہوا۔
٭٭٭
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments