سہاگنی دہاگنی: سندھ میں سہاگن اور دوہاگن کے مقبرے


نارا کینال سکھر پر روہڑی اور اروڑ کے درمیان دو مقبرے ہیں، جو سہاگن اور دوہاگن کے نام سے مشہور ہیں۔ سہاگن کا مطلب ہے وہ عورت جس کا شوہر زندہ ہو، جب کہ دوہاگن کا مطلب ہے بیوہ یا جس کی شادی شدہ زندگی خوشگوار نہ ہو۔

یہ مقبرے 13 ویں صدی کے صوفی بزرگوں کی قبریں ہیں جن کے نام صوفی کمال الدین اور صوفی قتال الدین ہے، جو اس وقت کے درویشوں میں شمار ہوتے تھے، وہ اپنے آپ کو سہاگن اور دوہاگن کے ناموں سے پکارتے ہیں، صوفی استعارہ (میٹافور) میں :

سہاگن کی تعریف یہ ہے : ”ایک سچا سہاگن۔ کوئی اور نہیں بلکہ وہ شخص ہے جسے روحانی وجود (گرمک) کہا جاتا ہے، حقیقی سہاگن وہ گرمک ہیں جو ذات اعلیٰ میں ضم ہو گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، سہاگن وہ روح کی دلہنیں ہیں جنہوں نے اپنے اندر (سچائی / حق) کا ادراک کر لیا ہے۔ وہ ماورائی شعور کے پلیٹ فارم پر آزاد زندگی گزارتے ہوئے واقع ہیں، ان کی انفرادی روشنی کائناتی روشنی میں ضم ہو گئی ہے“ ۔

دوہاگن کی تعریف یہ ہے : ”دوہاگن کوئی اور نہیں بلکہ وہ شخص ہے جسے مادی وجود (منمکھ) کہا جاتا ہے۔ مادی وجود ایک انا پرست ہستی ہے جو اسم الٰہی، لفظ کو نہیں سمجھتا۔ نتیجے کے طور پر، وہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے! دوسرے لفظوں میں، وہ اصل ذات، حق، سچائی سے بے خبر ہے، وہ جو ہر وقت ہمارے اندر موجود ہے۔ اس حقیقت سے ناواقفیت میں اپنے بارے میں غلط تصورات، خیال، وہم اور احکام جنم لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے جسم و دماغ اور عقل سے اپنی شخصیت کو جانتا ہے۔ اس الجھن اور شک کے نتیجے میں، وہ اپنے آپ کو“ فنا ”،“ حق سے مختلف، ”بے بس“ ، ”دکھی“ اور ”محدود“ سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس بنیادی طور پر غلط خود شناسی کی وجہ سے وہ اپنے اور اپنے حق یا اپنے پاک وجود کے درمیان جدائی (جہالت کا پردہ) پیدا کرتا ہے جہاں کوئی نہیں ہوتا ”!

یہ دونوں مقبرے اپنی تعمیراتی شکل اور ڈیزائن کے لحاظ سے منفرد ہیں۔ تعمیر کا یہ بے نقاب (کھلی) اینٹوں کا انداز غالباً اس علاقے میں سبی ضلع (بلوچستان) کے میتھری سے آیا ہے، جہاں اسی طرز کے مقبرے 11۔ 12 ویں صدی عیسوی کے ہیں۔

شری بابا گرو نانک (c۔ 1469۔ 1539 ) نے اپنی کتاب شری گرو گرنتھ صاحب میں سہاگنوں اور دوہاگنوں دونوں کا صحیح صوفی استعارہ (میٹافور) کے طور پر ذکر کیا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ بابا گرو نانک اروڑ کے دونوں بزرگوں، شیخ کمال الدین اور شیخ قتال الدین، اور ان کے اختیار کردہ ناموں سہاگن اور دوہاگن سے بخوبی واقف تھے

بابا گرو نانک، شری گرو گرنتھ میں بیان کرتے ہیں : سہاگنیں پاکیزہ روح کی دلہنیں ہیں۔ جو جنس، ذات، عقیدہ، سماجی حیثیت یا مذہب کے امتیاز سے بالاتر ہیں۔ وہ صرف حق / ذات الہی کو اپنا ابدی سہاگ سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ابدی شوہر کبھی نہیں مرتا، اس لیے یہ دلہنیں کبھی بیوہ نہیں ہوتیں! ”اس سچے شوہر کے بغیر، کوئی حقیقی شادی نہیں ہے“ ۔ دوسری طرف، وہ تمام گمراہ، الجھے ہوئے، مادی مخلوقات یا مشروط روحوں کو دوہاگن کہا جاتا ہے۔

آپ گربانی میں فرماتے ہیں : ”نانک تے سوہاگنی جنا، گورمکھ پرگت ہوئی؛ من مکھی صدا دوہاگنی دری کھریہ بلا لہی“ ۔
وہ سہاگن ہیں، جن کے اندر حق ظاہر ہوتا ہے۔ من مکھ ہمیشہ کے لیے چھوڑی ہوئی دلہنیں ہیں۔ وہ اپنے رب کے دروازے پر چیختے اور روتے ہیں۔

ایک سچے سہاگن کی نشانیوں میں شامل ہیں، لیکن ان تک محدود نہیں : حق کی زندگی، قناعت، عقل کی دنیا سے لاتعلقی، شعور، جسمانی حدود سے آزاد، مادی دنیا (دماغ) پر فتح، میٹھی گفتگو، خدا کی مرضی میں قائم رہنا، روحانی خوبیاں، خدا کا شعور، انا کی کمی، خواہش سے محرومی، اندر سے ماوراء کی تبدیلی کرنا، روحانی خوشی، الہٰی شانوں کا سحر، ”پسند اور ناپسند“ کے جھنجھٹ سے دور رہنا، وغیرہ۔

بابا گرو نانک بیان کرتے ہیں : دوہاگن کوئی اور نہیں بلکہ مادی وجود (من مکھ) کہلانے والے وہ لوگ ہیں، جو حق / الہی سے الگ رہتے ہیں، وہ صرف ”دوسری“ (دنیاوی چیزوں ) سے محبت کرتے ہیں، وہ پیدائش اور موت کے دائمی چکر میں مبتلا رہتے ہیں، وہ دھوکے میں رہتے ہیں۔ دوئی کی محبت سے وہ مذہبی رسومات ادا کرنا پسند کرتے ہیں (صحیفوں کا ظاہری (مکینیکل) پڑھنا، مذہب کی ظاہری نمائش وغیرہ) ، وہ دنیاوی اشیاء کی محبت میں مگن رہتے ہیں، ان کا حواس باختہ ذہن اس کی سچائی کے ادراک کے قابل نہیں رہتا۔ اور وہ خود کو ظاہر کرنے کے لیے غیر سازگار سرگرمیوں میں مشغول ہو کر اپنی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔

آپ گربانی میں فرماتے ہیں : ”سی من مکھ جو شبد نہ پہچانے، انتاری اگیاں دکھ بھرم ہے وچی پڑھدا دوری پائیاسی“ ۔
(وہ اکیلے من مکھ ہیں جنہیں اسم اعظم کا احساس نہیں ہے۔ اندر جہالت اور شک کا درد ہے، جیسے انسان اور خدا کے درمیان الگ کرنے والا پردہ) ۔

دوہاگن کی علامات سہاگن کے مخالف ہیں! دوہاگن کی نشانیوں میں شامل ہیں : وہ سچائی کی تلاش کے بجائے دنیا کی سراب جیسی شکل کا پیچھا کرتے پھرتے ہیں، ان کے جسمانی حواس اور اندرونی لطیف آلات کنڈیشنڈ ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنے آپ کو دکھی اور اذیت میں مبتلا پاتے ہیں، وہ غیر مستقل چیزوں میں مستقل خوشی تلاش کرتے ہیں۔ وہ نیکیوں سے عاری ہیں، وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ رب کا گھر (مسکن یا موجودگی) ان کے اپنے اندر ہے، وہ جھوٹے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور فساد اور جھوٹ کا زہر کھاتے ہیں، ان میں نیکی کی کمی ہے، انہیں روحانیت کے ذائقہ کا نہی معلوم؛ رسم و رواج، انہیں ماورائی علم سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ شک میں مبتلا ہیں، انہیں مادی دولت اور طاقت پسند ہے، وہ لیڈر بننے کے لیے کچھ بھی کر لیں گے، وہ دکھاوے کے مذہب رسومات پر عمل پیرا ہیں، وہ رسم پرست ہیں، وہ اپنے مذہبی لباس پر فخر کرتے ہیں، اور وہ تمام تر رسومات کو دوسروں سے افضل قرار دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ انا پرست مخلوق ہیں۔

سہاگن اور دوہاگن کے مقبروں کے ساتھ پہاڑ کی کٹائی کی جا رہی ہے، جہاں ہیوی اسٹون کریش پلانٹ اور ڈائنامائیٹ دھماکوں کی وجہ سے مقبروں کو شدید خطرات لاحق ہیں، اس قدیم تاریخی ورثے کو فوری طور پر بچانے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ کسی دن دھماکوں اور کھدائی کی وجہ سے یہ ملیا میٹ ہو جائیں گے، حکومت سندھ کو فوری طور پر اسٹون کریش پلانٹ اور ڈائنامائیٹ کے استعمال کو بند کرنا ہو گا اور مقبروں کے لیے راستے ہموار کر کے، سیر و تفریح کے لیے آنے والے سیاحوں کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ ہمیشہ قوموں کے قد آور ہونے کا پتہ تاریخ کے آثار سے ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments