اراکین اسمبلی کی دولت اور عوام کی غربت میں غیر معمولی اضافہ


پاکستان برسوں سے معاشی بدحالی کا شکار ہے مگر پھر بھی ملک میں اشرافیہ لکھ پتی سے کروڑ پتی بلکہ ارب پتی ہوتی جا رہی ہے جبکہ عام پاکستانی لکھ پتی سے ککھ پتی ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ جی ہاں وہ طبقہ ہے ہمارے حکمران اور سیاستدان، جو عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر ووٹ لے کر پارلیمنٹ پہنچتے ہیں۔ اتنے برسوں میں پاکستانیوں کے کون سے بنیادی مسائل حل ہو گئے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ کہ ایک ہی پاکستان میں رہتے ہوئے غریب۔ غریب تر اور ان کے نام پر سیاست کرنے والے پارلیمنٹرینز کے اثاثے چند سالوں میں ڈبل سے ٹرپل ہوتے جا رہے ہیں۔ ملکی سیاست خدمت ہے یا سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت ہر پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے۔

ایک نجی ٹی وی چینل کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ 2015 سے لے کر 2020 تک یعنی پانچ سالوں میں ارکان اسمبلی کی مجموعی دولت میں 85 فیصد تک اضافہ ہوا۔ کچھ قانون ساز تو ایسے بھی ہیں کہ جن کے اثاثے تو ڈبل اور ٹرپل ہو گئے مگر اسی پاکستان میں رہتے ایک عام پاکستانی شہری کی آمدن 197 ڈالرز پر کیپٹا سے بھی کم ہوئی۔ 2015 سے 2020 میں ایک ہزار ایک سو ستر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے مجموعی اثاثے 49 ارب سے بڑھ کر 91 ارب ہو گئے لیکن اس دوران ملک کی حالت بدلی نہ عوام کو سکھ کا سانس آیا۔ مگر حکمرانوں کا مقدر ضرور سنور گیا۔

اگر ملک کے مقبول سیاستدانوں کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قوم کے کپتان عمران خان کے اثاثوں میں پانچ سال میں 250 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ عمران خان کے اثاثے 2017 میں 4 کروڑ روپے تھے جو 2019 میں 14 کروڑ روپے سے زائد ہو گئے۔ مگر کیسے عوام جاننا چاہتی ہے۔

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بیوی کے اثاثوں میں 241 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 2014 میں 7 کروڑ سے بڑھ کر 2019 میں 24 کروڑ روپے ہو گئے۔ مگر کیسے؟ عوام کو کوئی بتانا پسند کرے گا

صدر عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کے اثاثوں میں 2014 سے 2019 کے دوران 278 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، دستاویزات کے مطابق 2014 میں ان کی جانب سے 3.94 کروڑ روپے اثاثے ظاہر کیے گئے، جو 2017 میں 4.67 کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔

غریب عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کی دعویدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 2019 میں 1.6 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے، سابق صدر آصف علی زرداری کے اثاثے 5 فیصد بڑھے۔ لیکن ستم دیکھیے سندھ میں آج بھی بچے ننگے پاؤں ہیں۔ بلاول صاحب ان بچوں کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں کہ دیکھیں میں بھی عوامی لیڈر ہوں۔ سندھ میں لوگ سستے آٹے کی قطار میں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ کیا یہ ایک زرعی ملک کے لیے اور برسوں سے سندھ پر حکمرانی کرنے والے خاندان کے لئے سوچنے کا مقام نہیں؟

پنجاب میں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا مگر عوام کی حالت یہاں بھی نہیں بدلی، وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے اثاثوں میں 14 فیصد اور مونس الٰہی کے اثاثے پانچ سال کے دوران 114 فیصد بڑھے، مونس الہی کروڑ پتی سے ارب پتی ہو گئے لیکن صوبے میں عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں 2015 سے 2019 کے دوران 376 فیصد اضافہ ہوا، بات کروڑوں سے نکل کر اربوں تک پہنچ گئی مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں عوام آج بھی تعلیمی اداروں اور معیاری طبی سہولتوں سے دور ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں 7 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ مگر معاشی بدحالی کے باعث صوبے میں اسٹریٹ کرائمز بڑھ چکا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے اثاثے 2.4 ارب سے زائد ہیں۔ مگر صوبے سے لوگ بہتر روزگار کے لئے دوسروں صوبوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔

عوام کا دم بھرتے دیگر سیاستدانوں کو بھی دیکھا جائے تو حالات مختلف نہیں ہیں۔ کسی کے اثاثے 50 فیصد تو کسی کے 100 فیصد تک بڑھے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان اثاثے ظاہر کرتے وقت بھی سیاست سے کام لیتے ہی۔ لیکن پھر بھی یہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی حکمران طبقے کو مبارک ہو مگر گزارش بس یہ ہے کہ ایک نظر اسی پاکستان میں رہتے عوام پر بھی ڈال لیں۔ جن کی کم از کم آمدن آپ نے ہی 25 ہزار تک مقرر کی ہے۔ کبھی یہ بھی خبر لے لیں یہ بھی مزدور طبقے ہو مل رہی ہے یا نہیں۔ کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ اس منہ زور مہنگائی میں ایک عام آدمی کیسے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ کیا یہاں بھی قصور عوام کا ہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو چنتے ہی کیوں ہیں۔

کیوں کہ فلسفی کارل مارکس تو بہت پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments