جنیوا کانفرنس: حکومت کی کامیابی


ترقی یافتہ صنعتی ممالک کو یہ احساس دلانا ہماری کامیابی ہے کہ صنعتی فضلے کے اخراج کی بدولت ماحولیاتی تابکاری بڑھانے اور کاربن کے پھیلاؤ کے ذمہ دار وہ ہیں۔ دنیا کو احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک فیصد بھی کاربن فٹ پرنٹ کا باعث نہیں۔ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی آلودگی کی وجہ سے دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے اور اس عمل سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں جو سیلاب آ رہے ہیں اس کی بڑی وجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گلیشئرز کا پگھلنا ہے حالانکہ پاکستان کا قدرت سے جنگ میں کردار آٹے میں نمک برابر بھی نہیں لیکن وہ ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہا ہے۔

جنیوا کانفرنس میں عالمی اداروں اور امیر ممالک کی طرف سے پاکستان کی امداد کے لیے خطیر رقم کے وعدے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو بجا طور پر اس بات کی داد ملنی چاہیے جنہوں نے یہ مقدمہ عالمی برادری کے سامنے پوری شدت سے اٹھایا کہ پاکستان بڑے صنعتی ممالک کے پھیلائے گئے فضلے کے سبب شدید تباہی سے دوچار ہو چکا ہے۔ لہذا امیر ممالک کا فرض بنتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کو قرض کی مد میں مہلت دیں بلکہ تعمیر نو کے کام میں بھی بھرپور تعاون کریں۔

یہ وقت سستی جذباتیت دکھانے کا نہیں تھا عالمی برادری کو امداد پر قائل کرنا وقت کی ضرورت اور ملک و قوم کے مفاد میں لازم تھا۔ ہمارے میڈیا سے مگر گلہ بنتا ہے کہ وہ لا یعنی مباحثوں میں الجھ کر دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرنے میں ناکام رہا کہ آپ کی وجہ سے ہم بحران کا شکار ہیں اور اگر ہمیں عالمی قوتوں نے مدد فراہم نہ کی تو آنے والے وقت میں متاثرہ علاقوں کے لوگ بھوک سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔

پوری دنیا میں سیلاب کی تباہی دیکھ کر پاکستان کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا ہو رہی ہے لیکن حب الوطنی کے خود ساختہ علمبردار ہمارے کچھ سیاستدان اتنے پتھر دل ہو چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کی دشمنی میں عالمی برادری کی امداد رکوانے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ملکی معیشت کا حال ان کے سامنے ہے کہ اس میں تعمیر نو کا بار اٹھانے کی کتنی سکت ہے۔ پورے ملک میں سترہ لاکھ مکانات گر چکے ہیں اور آٹھ لاکھ مویشی مر چکے ہیں۔

سب سے زیادہ تباہی ملک کے دیہی علاقوں میں ہوئی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں مال مویشی کے سوا غریبوں کا کوئی معاشی سہارا نہیں ہوتا، جو مویشی کسی طرح ڈوبنے سے بچ بھی گئے ہیں ان کو کھلانے کے لیے چارہ بھی دستیاب نہیں رہا۔ بڑے شہروں میں رہنے اور اپنے تئیں حقیقی آزادی کی جنگ لڑنے والے اس کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس غریب کے سر کی چھت چھن چکی ہے اور معاشی سہارا بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کا کیا حال ہے؟ اپنے سیاسی مفاد اور تعصب زدہ ذہنیت سے باہر نکل کر یہ لوگ دیکھیں تو علم ہو کہ سیلاب میں گھر تباہ ہونے کے بعد سڑکوں اور نہروں کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے زندگی کس طرح بسر ہوتی ہے۔

اگرچہ ملکی وسائل سے بڑی حد تک ریلیف کا کام شروع ہو چکا ہے مگر متاثرین کی مکمل بحالی کے لیے اب بھی بہت سرمایہ درکا تھا۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا روزگار چھن چکا ہے اور ان کے پاس کچھ کھانے کو نہیں۔ سندھ کی نوے فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ان تمام علاقوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت سے حاصل ہوئی آمدن پر ہے۔ سیلاب سے محفوظ بڑے شہروں میں رہنے والے تصور نہیں کر سکتے کہ کاشتکار طبقے کی اس وقت کیا حالت ہے اور وہ کن مصائب میں مبتلا ہے۔

زرعی پیداوار متاثر ہونے سے ان علاقوں میں صرف کسان ہی نہیں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام اسی لیے پانی اترنے کے بعد بھی مستقبل سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں۔ کپاس اور گنے کی فصل نقد آور تصور ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں سارے سال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لوگ ان فصلوں کی آمدن پر تکیہ کرتے ہیں۔ پانی میں ڈوبنے سے کپاس کی فصل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور کئی علاقوں میں گنے کی فصل بھی کیڑا لگنے سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

نومبر کے مہینے میں گندم کی بوائی ہوتی ہے۔ زرعی زمینوں سے پانی مکمل طور پر نکلتے نکلتے اکتوبر کا مہینہ بھی گزر گیا تھا جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکی۔ یعنی جو خوش قسمت سیلاب میں ڈوب کر مرنے سے بچ گئے ہیں لا محالہ اگلے سال وہ قحط اور بھوک میں مبتلا ہوں گے۔ ابھی سے آٹے کی کمیابی سب کے سامنے ہے، کلیجہ کٹ کر رہ جاتا ہے جب چند کلو آٹے کی خاطر لوگ گھنٹوں خوار اور آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق حالیہ سیلاب سے مجموعی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے اور ظاہر ہے یہ ابتدائی تخمینہ ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو گا۔ اتنی بڑی رقم سیاسی استحکام اور عالمی برداری کی اعانت کے بغیر اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی جماعت حسب روایت جھوٹے پراپیگنڈے اور جعلی تصاویر کے ذریعے عالمی امداد رکوانے کے لیے بھی کوشاں رہی۔

عمران خان اور ان کے فالوورز کے دل و دماغ میں کروڑوں تباہ حال لوگوں کے لیے کتنی فکر ہے یہ سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ دو صوبوں میں عمران خان صاحب کی حکومت ہے جن کے وسائل سے وہ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن سیلاب متاثرین کی داد رسی کے لیے نہ ان کے پاس وقت ہے اور نا ان کی صوبائی حکومتوں کے پاس وسائل۔ ملک و قوم کا مفاد کیا ہے، غریب عوام کا مستقبل کیا ہو گا اور عالمی سطح پر ہمارا کیا تاثر جائے گا، یہ عمران خان صاحب کا مسئلہ نہیں۔

ان کی بلا سے سب بھاڑ میں جائے وہ کسی صورت اقتدار میں واپس آ جائیں۔ اس مقصد کی خاطر وہ ان اداروں کو دھمکانے اور بلیک میل کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے جو انہیں اقتدار میں لائے اور اب تک ڈھیل دینے میں مصروف ہیں۔ عمران خان سے توقع رکھنا فضول ہے اداروں کو ہی سوچنا چاہیے کہ یہ چند جماعتوں کی حکومت کا نہیں پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہم نے خلاف قانون کسی کے خلاف کارروائی کی پہلے کبھی حمایت کی نہ اب کریں گے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک بار یہ سلسلہ چل پڑا تو آئندہ کسی اور کے لیے بھی ریاست کو بلیک میل کرنا آسان ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments