کرونائی ادب اور ”وبا تے وسیب“


کورونا کی وبا نے جہاں عالمی معیشت اور سیاست کو متاثر کیا، وہیں اس نے تخلیقی ذہنوں پر بھی اثرات مرتب کیے۔ انسانی فکرو نظر، تصورات اور مزاج وہ نہ رہے جو کرونا سے پہلے تھے۔ انسانی نفسیات اور رویوں نے وہ رخ اختیار کیا جو انسان کے گمان سے بھی بالا تر تھا۔ ان رویوں اور رجحانات کو معاصر تخلیقی ذہنوں نے شدت سے محسوس کیا۔ شاعری اور فکشن کی دنیا میں کئی ایسے فن پارے تشکیل پذیر ہوئے جنھوں نے اس دور کے محسوسات اور نفسیات کو آنے والے دنوں کے لیے محفوظ کر لیا۔

تخلیق کار اس بات پر حیرت زدہ رہ گئے کہ انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں جس طرح بے پناہ ترقی کی اور انسان کے دفاعی نظام کو طاقت ور اور مضبوط بنا ڈالا اس تناسب سے انسان کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر رہی۔ حالاں کہ ڈاکٹر رونالڈ جے گلاسر (Dr۔ Ronald J Glasser) جیسے دانشور اپنے مضامین میں اس جانب توجہ مبذول کراتے رہے ہیں کہ انسان کو دفاعی نظام سے زیادہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

اتنی ترقی کے باوجود ایک ننھے سے وائرس نے ذہین ترین انسان کو تنہائی اور خوف کی جانب دھکیل دیا اور انسان اپنی خواہش کے بر عکس، جبری تنہائی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ اس تنہائی نے وحشت اور اکتاہٹ پیدا کی جس کے انخلا کے لیے تخلیق کاروں نے قلم سنبھالا اور کرونائی عہد کے انسانی محسوسات کو کاغذ کے سینے پر الفاظ کی صورت میں یوں بکھیرا کہ شاعری اور فکشن کی دنیا میں کئی یاد گار فن پارے تشکیل پذیر ہوئے۔

عالمی ادب کی تاریخ میں کئی ایسی تحریریں مل جاتی ہیں جن میں وباؤں کا ذکر موجود ہے۔ چاسر کی ”کینٹر بیری ٹیلز“ (Canterbury Tales) ہوں یا ڈینیل ڈیفو کی ”اے جرنل آف دی پلیگ ایئر“ (A Journal of the Plague Year) وبا کے انسانی زندگیوں پر اثرات کو موضوع بناتی ہیں۔ ڈینیل ڈیفو کی 1722 ء میں تحریر کی گئی مذکورہ کتاب میں 1665 ء میں لندن میں پھیلنے والی وبا کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ معروف فکشن نگار گارشیا مارکیز کے ناول ”وبا کے دنوں میں محبت“ (Love in the Time of Cholera) نے تو اس حوالے سے بطور خاص شہرت حاصل کی۔

البرٹ کامیو کے ناول ”طاعون“ (The Plague) کو بھی اس حوالے سے فراموش نہیں کیا جا سکتا جسے کرونا کے دنوں میں پھر سے پڑھا گیا اور وہ سب کچھ محسوس کرنے کی از سر نو کوشش کی گئی جو کامیو اس ناول کے متن میں بین السطور کہنے کا جتن کر رہا ہے۔ اس ناول میں الجیریا میں ”اوروں“ نام کے شہر میں طاعون کی وبا کو پھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو انیسویں صدی میں طاعون کے باعث اجڑ گیا تھا۔ 1918 ء میں ہسپانوی فلو نے بھی دنیا کا رنگ بدل کر رکھ دیا تھا جس میں کم از کم پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

1939 ء میں کیتھرین این پورٹر نے اپنے ناول ”پیلے ہورس پیلے رائڈر“ (Pale Horse، Pale Rider) میں ہسپانوی فلو کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کی کردار مرنڈا جب ہسپانوی فلو سے صحت یاب ہونے کے بعد باہر نکلتی ہے تو اسے پہلی عالمی جنگ اور وبا کے بعد دنیا بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مارگریٹ ایڈون کا 2009 ء میں شائع ہونے والا ناول ”دی ایئر آف دی فلڈ“ (The Year of The Flood) بھی اس حوالے سے اہم ناول ہے جس میں رین کے کردار کے ذریعے وبا کی تنہائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ایملی سینٹ جان منڈیل نے چوسر کی کہانیوں سے ”سٹیشن الیون“ (Station Eleven) کے قصے کا خمیر اٹھانے کی کوشش کی ہے جس میں جارجیا نام کے ملک میں وبا کا ذکر ہے۔ کرونا وائرس سے پہلے ہسپانوی فلو، سارس اور ایبولا نامی وباؤں نے بھی عالمی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جس سے دنیا تباہی کے دہانے پہ آ کھڑی ہوئی تھی۔ تنہائی کی اذیت اور موت کا خوف انسان کی نفسیات کو بدل کر رکھ دیتا ہے جس کو اردو ادب میں بھی کئی تخلیق کاروں نے اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

اردو ادب میں وبا کے بیان کے اولین نمونے غالب کے خطوط میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فکشن میں ڈپٹی نذیر احمد کے ”توبۃالنصوح“ کے بعد راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ”کوارنٹین“ نے بطور خاص شہرت حاصل کی۔ قدرت اللہ شہاب کے ”شہاب نامہ“ کے ابتدائی حصے میں طاعون کی وبا کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں ملتا ہے۔ کرونا سے کچھ عرصہ قبل اشاعت پذیر ہونے والے حسن منظر کے ناولٹ ”وبا“ کی بھی عصری تناظر میں تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ نے ”شہر خالی، کوچہ خالی“ ناول تحریر کر کے کرونا کی صورت حال میں انسانی کیفیات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ 2021 ء میں محمد اعظم ندوی کی مرتبہ کتاب جو منظوم اور نثری تصنیفات کا مجموعہ ہے، نے کرونا کے عہد میں تحریر کردہ ادب کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ محمد شاہد خاں کی ”کورونا مریض کی ڈائری“ کے علاوہ مسرت زہرا کنول کا شعری مجموعہ ”درد کی دہلیز پر “ اور ڈاکٹر عمران ظفر کا شعری مجموعہ ”کرونا میرے آگے“ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آصف فرخی کے رسالے ”دنیا زاد“ کے کرونا نمبر کے ساتھ ساتھ ”عالمی جائزہ“ دہلی اور لٹریری فورم آف نارتھ امریکا کے میگزین ”گوشوارہ“ نے بھی کرونائی ادب کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیا۔

پاکستان کی علاقائی زبانوں میں بھی کئی تخلیق کار شعری اور نثری تخلیقات سامنے لائے۔ سندھی ادب میں رسول میمن کا ناول ”کتا“ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔ اختر حفیظ کا ”کووڈ۔ 19“ اور عبدالرحمان پیرزادہ کی کتاب ”وبا کے دن“ بھی اس ضمن میں خاصے اہم ہیں۔ پشتو میں ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی اور آیت اللہ ترکزئی کے علاوہ زاہد آفریدی نے بھی وبا کے حوالے سے افسانے تخلیق کیے۔ براہوی زبان میں افضل مراد کے علاوہ کوئی نام سامنے نہیں آیا جس نے کرونائی ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہو۔ پنجابی ادب میں زاہد حسن نے کوارنٹائین کے عنوان سے افسانہ لکھ کر کرونائی ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ زاہد حسن کے علاوہ کوئی بڑا نام پنجابی ادب میں ایسا دکھائی نہیں دیتا جس نے کرونا کے دنوں کی انسانی کیفیات کو ادب کا حصہ بنایا ہو۔

نین سکھ معاصر پنجابی فکشن کا اہم نام ہے جس نے افسانہ اور ناول کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان کا حال ہی میں ”وبا تے وسیب“ کے عنوان سے ناول اشاعت پذیر ہوا ہے۔ اس سے پہلے وہ ”ٹھیکریاں“ ، ”اتھل پتھل“ ، ”شہید؟“ ، ”آئی پرے دی وا“ تے ”جوگی، سپ، تراہ“ جیسے افسانوں کے مجموعے تخلیق کر کے ادبی اور علمی حلقوں میں داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔ ”مادھو لال حسین“ کے عنوان سے ان کا ایک ناول بھی شائع ہوا ہے جو لاہور شہر کو اپنا مرکز بناتا ہے۔

”وبا تے وسیب“ میں انھوں نے کرونا کے دنوں میں نہ صرف انسانی کیفیات کو موضوع بنایا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماج کو لگنے والی دیگر بیماریوں کی جانب بھی کھل کر نشان دہی کی ہے جنھوں نے دیسی تہذیب کو کھوکھلا کر نے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ جدیدیت، کارپوریٹ کلچر اور حد سے زیادہ مغربیت نے جس انداز سے مقامی اقدار، روایات اور رسومات کو ہڑپ کیا ہے، اسے اس ناول میں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اکرم جنجوعہ ہے جو گلزار ولاز کا رہائشی ہے جس کا بنیادی تعلق ترکھان والی سے ہے۔

ترکھان والی کا گاؤں روایتی اور پرانے معاشرے کی نمایندگی کر رہا ہے جب کہ گلزار ولا زملٹی کلچرل اور جدید رہائشی دنیا کا نمایندہ ہے۔ ناول میں اس رہائشی منصوبے کے مکین جدت اور روایت کے مابین معلق دکھائی دیتے ہیں۔ غور کریں تو بیسویں صدی کی سائنسی ترقی نے تیزی سے ملکوں کے مابین فاصلے اور وقت کی دیواریں گرانا شروع کر دیں۔ یورپی ممالک کی سائنسی اور تجارتی ترقی نے ایشیا کے ممالک کو متاثر کیا اسی ترقی کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا جس کے باعث مقامی سطح پر موجود صبر، توکل، تہذیب، شرافت اور انسان دوستی کے تصورات تبدیل ہونے لگے۔

سائنسی نقطہ نظر عام ہونے لگا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی معاشرے میں سیاسی عدم استحکام، لاقانونیت اور بد عنوانی نے سماج میں جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ اس کے اثرات عام آدمی پربھی مرتب ہوئے اور وہ ہجوم میں تنہائی محسوس کرنے لگا۔ ابھی تک انسان زندگی کے اسرار و رموز کو مذہبی عقیدوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا آیا تھا لیکن سائنسی تصورات نے ان عقائد کے کھوکھلے پن کو نمایاں کر دیا ہے۔ اگر غور کریں تو جدید دور کا فرد زندگی اور کائنات کی بے معنویت کا کرب اکیلا جھیل رہا ہے۔ جدیدیت کی تنہائی میں وبا کے اکیلے پن نے مزید اضافہ کیا تو نین سکھ جیسے تخلیق کار نے ایس ایس سرویا جیسا کردار گھڑا جس کے ذریعے جدیدیت اور کارپوریٹ کلچر کی باریکیوں کو قاری کے سامنے کچھ یوں بیان کیا ہے :

”ملک انڈسٹریلائزڈ نہیں، ویسٹرنائزڈ ہو کے کارپوریٹ فوڈ سسٹم تحت چل ریہا۔ کاروبار وچ نفع نقصان ویکھیا جاندا، انسانی صحت دی پرواہ کیویں ہووے۔ پولٹری ڈائٹ، کا وفیٹنگ فارمولے تے فش فوڈ وچ کیہ ملاوٹاں تے گھپلے، پرکھن پھرولن دی اجازت نہیں۔ قنون دی حاکمی، نہ مضبوط ادارے۔ حقاں تے پکھاں دی سمجھ، نہ پوری پڑھت گڑھت۔ فاسٹ فوڈ دیاں چسکوریاں نوں کیہ خبر کہ جی ایم او (Genetically Modified Organism) دی جنور شاہیAnimal Kingdomدا بوٹا شاہیPlant Kingdomنال ریپ کرایا جا ریہا۔ ریپسٹ مائنڈ سیٹ وچ حلال حرام تے جائز ناجائز دی کیہ تمیز۔“ (وبا تے وسیب:ص 49 )

دور حاضر میں افراد کا مزاج جس چیز سے متعین ہو رہا ہے وہ ہمہ گیر اور نمو پذیر مادیت پسندی ہے۔ اس عہد کے افکار، نظریات اور تصورات سے لے کر عام آدمی کی زندگی تک ہر شے کی قدر کا تعین اب اسی کے تحت ممکن ہو رہا ہے۔ مادیت پسندی کوئی بری شے بھی نہیں کیوں کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد اسی پر استوار ہوئی ہے۔ لیکن گزشتہ صدیوں کی مادیت اور موجودہ صدی کی مادیت پسندی میں نمایاں فرق موجود ہے۔ گزشتہ صدیوں کی مادیت خارجی مظہر تھی، اس کے اثرات بھی انسان اور سماج کے ظاہر میں نمایاں ہوتے تھے۔

جب کہ آج کی مادیت انسان کے لیے سب سے بڑا مقصد بن کر سامنے آئی ہے۔ اب یہ ایک خارجی مظہر نہیں رہی بلکہ داخلی محرک میں تبدیل ہو گئی ہے۔ تہذیبی اقدار کی تشکیل میں اب یہ قوت عاملہ کا کردار اداکرتے ہوئے اس کے ضابطہ کار کا تعین بھی یہی کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج انسانی زندگی کے لیے غیر مادی اور غیر افادی اشیا کی ضرورت و اہمیت کا احساس تو ایک طرف، اب تو ان کا تصور بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کی اعلا اخلاقی اقدار میں بہت کچھ غیر مادی ہوتا ہے اور یہ سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔

”وبا تے وسیب“ میں نین سکھ نے Urbanizationکے مسئلے کو بھی ناول کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ موجودہ دور میں آبادی دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہو رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ شہری زندگی کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بھاگتی دوڑتی زندگی کا یہ سلسلہ مشینوں کی ایجاد سے پہلے کم تھا اور لوگ دیہاتوں کی صاف ستھری فضا میں جیون بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ پھر آدمی ترقی کرتا گیا، گاؤں کی آبادی معدوم ہوتی چلی گئی اور شہر بستے چلے گئے۔

نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز یا رئیل اسٹیٹ کے کاروبار نے اسے اور ہوا دی جس کے نتیجے میں ہمارے مقامی وسیب کی اقدار، روایات، رواج اور طرز زندگی بدل کر رہ گیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے شہری زندگی کو جتنا پر کشش اور پر آسائش بنایا ہے اتنا ہی اس میں مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ تازہ ہوا، ناقص غذا اور آلودہ پانی کے مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذیابیطس، دل کے امراض، بلند فشار خون، ذہنی تناؤ اور کمپیوٹر آئی سنڈروم جیسے عوارض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

یہ تمام بیماریاں چالیس سے پینتالیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ناول میں موجود گلزار ولاز کے رہائشی ان میں سے اکثر بیماریوں کا شکار ہیں جن سے بچنے کے لیے انھوں نے مارننگ واک (صبح کی سیر) کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جو جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ شہری زندگی کی تنہائی کو بھی کم کرنے کے کام آ رہا ہے۔ اسی دوران کرونا کی وبا پھوٹ پڑتی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے جسمانی فاصلہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

وقت کاٹنے اور تنہائی کے عذاب سے نجات پانے کے لیے سوشل ایپلی کیشنز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ وٹس ایپ میں مارننگز واکز کا گروپ بنتا ہے اور یوں گلزار ولاز کے رہائشی سوشلستان پر ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ اسی طرح اکرم جنجوعہ نے خاندان کے ارکان میں ربط قائم رکھنے کے لیے ”میرے اپنے“ کے نام سے بھی ایک گروپ بنا رکھا ہے۔ شہری زندگی میں ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، کیبل اور انٹرنیٹ کے انسانی زندگیوں پر اثرات کو اس ناول میں آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

بنیادی طور پر تو یہ ناول، کرونا کی وبا کے، انسانی زندگی پر اثرات کو موضوع بناتا ہے لیکن اس کی ذیل میں جدیدیت، کارپوریٹ کلچر، شہری زندگی کے مسائل، دیہی وسیب میں اقدار کی شکست و ریخت اور آبادی کا دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہونے کے عمل، زیریں طبقے کے لوگوں کی محنت اور اس کے نتیجے میں خوش حالی اور پھر سماج میں ان کی قبولیت جیسے موضوعات بھی اس ناول میں موجود ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments