سیلاب میں ڈوبے بھٹہ مزدوروں کی دکھ بھری داستان


عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پوری سندھ دو ماہ تک برساتی سیلاب اور پانی میں ڈوبی رہی۔ جس کے باعث لاکھوں افراد کو بے گھر ہونا پڑا جس کے تحت ان کو ذریعہ معاش سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ سندھ کے مختلف اضلاع کی طرح حیدرآباد کے گرد و نواح کے نشیبی علاقے بھی سیلاب کے پانی میں ڈوبے رہے، جس میں زیادہ تر حیدرآباد کے دیہات کی تحصیل ٹنڈو جام سے منسلک علاقے متاثر ہوئے ہیں۔

جس میں ٹنڈو حیدر، ہوسڑی، ٹنڈو جھنڈو مری، ٹنڈو عالم مری، شیخ بھرکیو سمیت مختلف دیہات سیلابی پانی میں ڈوبے رہے۔ ان علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں اینٹیں بنانے کے بھٹے ہیں ان بھٹوں کی زمین بھی پانی کی زد میں آ گئی ان بھٹوں پر کام کرنے والے ہزاروں لوگ شدید متاثر ہوئے۔ اس طرح ہالا، سعید آباد، سیہون، دادو، چمپڑ سمیت دیگر شہروں میں بھی سیلاب کے پانی کی وجہ سے بھٹے بند رہے، بارش کے دوران دو ماہ تک ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتحال تھی۔

پانی کی وجہ سے بھٹوں کا کام بند ہو چکا تھا اور تمام بھٹے پانی کی زد میں آچکے تھے، ٹنڈو حیدر میں بھٹوں پر اپنی پوری فیملی کے ساتھ ٹنڈو باگو سے آئے ہوئے مزدور ویرجی کا کہنا ہے کہ بدین میں روزگار بند ہونے کے بعد ہم اس علاقے میں بھٹوں پر مزدوری کرنے آ گئے، مگر بارش کے پانی نے ان سے ان کی مزدوری بھی چھین لی تو ہم پورے چار ماہ بے روزگار بیٹھے رہے۔ بھٹوں پر کام بند ہونے سے بھٹہ مالک سے قرض لے کر اپنا پیٹ پال رہے تھے جو قرض اب لاکھوں روپے میں ہو چکا ہے۔

کام کے دوران ہمیں پورے دن کی محنت کے بعد 7 سو روپے اجرت ملتی ہے جس سے پیٹ پالنا بھی مشکل ہے اور جو بارشوں کے دوران قرضہ لیا وہ بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ بارش سے ویرجی کے ساتھ دیگر بھی سینکڑوں افراد بے یارو مددگار کسی امداد کے منتظر تھے مگر پورے دو ماہ تک ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہا اور اپنی مدد آپ کے تحت مختلف وڈیروں اور بھٹہ مالکان سے قرضہ لے کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بھٹہ مزدوروں کی یونین کے رہنماء و بھٹہ کے منشی گلشیر اوڈ کا کہنا تھا کہ یہاں ان کے اوپر دو سے ڈھائی لاکھ روپے کے قرضی ہوچکے ہیں جو قرضہ سیلاب کے دوران لیا تھا۔

اگست اور ستمبر کے دوران یہاں سینکڑوں بھٹوں میں پانی داخل ہو چکا تھا جس کے باعث کوئی کام کاج نہیں تھا اور فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے تھے، منشی کا کہنا تھا کہ ایک مزدور کو ایک ہزار اینٹ بنانے پر سات سو روپے اجرت ملتی ہے جبکہ وہ ایک ہزار اینٹ ایک بندہ نہیں بلکہ ایک پورا خاندان بناتا ہے، جس میں چار سے پانچ افراد شامل ہوتے ہیں۔ جن کو سات سو روپے تک کی اجرت ملتی ہے جبکہ اب آٹا بھی 160 روپے فی کلو مل رہا ہے اور دیگر اشیاء خرد و نوش بھی انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں۔

جس کی وجہ سے غریب افراد کے لئے اپنا پیٹ پالنا بھی انتہائی مشکل ہو گیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں پر بارشوں کے دوران بھٹہ مالکان نے قرضہ تو دیا مگر اب قرضہ چکانے کے لئے پریشان ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ قرضہ حکومت کی جانب سے معاف کروایا جائے اور بھٹہ مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ ہم سے قرضہ واپس نا لیں۔ اسی طرح یہاں کے سینکڑوں بھٹے اب سیلاب کے پانی میں کمی آنے کے بعد اپنی چمنی جلا کر اینٹیں بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔

بھٹہ مالک اختر خان نے بتایا یہاں پر پہلے پانی کبھی نہیں آیا تھا مگر اس سیلاب میں سینکڑوں کی تعداد میں کشتیاں بھی چلیں تھیں۔ یہاں پر ایک قریب میں نہر ہے جس کے ٹوٹنے کی وجہ سے پانی ہمارے بھٹوں میں داخل ہو گیا جس سے بہت سارے بھٹے تباہ بھی ہوئے ہیں، اختر خان نے بتایا کہ ایک بھٹہ میرا بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے جس سے اب اینٹیں نہیں بن پائیں گی، اس نے مزید بتایا کہ ہمیں چالیس سے پچاس لاکھ کا نقصان بھی ہوا ہے پانی کی وجہ سے مٹی سے بنی اینٹیں مکمل طور پر ختم ہو گئیں اور یہاں پر سیلاب کے پانی کی سیم کی وجہ سے زمین بھی خراب ہو چکی ہے اب بھٹے بھی یہاں پر زیادہ دیر نہیں چل سکتے کیونکہ بھٹوں کے لئے مٹی ہمیں قریب کے علاقوں سے منگوانی پڑتی ہے اور مٹی کی ایک ٹرک ہمیں دس ہزار روپے میں ملتی ہے جو کہ ہماری لئے انتہائی مہنگے ہے، اسی طرح سے کوئلہ، لکڑی اور دیگر چیزیں بھی باہر سے منگوانی پڑتی ہیں۔

بھٹہ مالک منور کھوسو نے بتایا کہ میرے بھٹے میں مکمل پانی تھا جس کے باعث تیار اینٹیں پانی میں ختم ہو گئیں، مجھے چالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا، انہوں نے بتایا کہ یہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کو ہم نے ہی قرضہ دیا باقی حکومت کی جانب سے کوئی امداد یا مدد نہیں کی گئی۔ ان بھٹوں کے قریب گاؤں جھنڈو مری بھی اس پانی سے متاثر ہوا ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے کریم بخش اور دیگر نے بتایا کہ یہاں پانی اتنا تھا کہ ہم پریشان تھے کے اس کو نیکال کیسے کرین گے مگر اپنی مدد آپ کے تحت مٹی کا بند بنا کر پانی کو روکا مگر اس کے باوجود ہمارا قدیمی قبرستان مکمل طور پر ڈوب چکا تھا، سیمنٹ کی فیکٹریز اور بھٹوں کے لئے زمین کی کھدائی اور مٹی اٹھانے کی وجہ سے پانی مزید جمع ہو گیا۔

اس وقت بھی پانی چار سے پانچ فٹ تک موجود ہے جو کسی دریاء کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یاد رہے یہ بھٹے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی رہے ہیں جو کوئلہ جلنے کی وجہ سے زہریلی گیسز اور دھواں خراج کرتے ہیں جبکہ ماحولیات کے بچاؤ کے ادارے کی طرف سے ان کو وارننگ بھی دی جاتی رہے ہے اور چمنی ٹاور کی اونچائی ستر فٹ رکھنے کے احکامات دیے جاتے ہیں مگر اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا، جبکہ کئی بار علاقہ مکین شکایات بھی درج کرواتے رہے ہیں کہ بھٹوں سے نکلنے والی زہریلی گیسز ان کو سانس جیسی بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے، یہاں پر ماضی میں نجی قید خانے ہونے کے انکشافات بھی ہوئے اور لوگوں کو عدالتوں کے ذریعے پولیس نے آزادی دلوائی جس پر رہائی پانے والے افراد کے لئے عارضی کیمپ بھی قائم ہوئے۔

سندھ کمیونٹی فاؤنڈیشن کے سی ای او اور ڈزاسٹر پر کام کرنے والے جاوید سوز ہالائی کا کہنا تھا کہ بھٹہ مزدوروں کو سرکار اور محکمہ لیبر کی جانب سے ای او بی آئی میں شامل کر کے کارڈ جاری کیے گئے ہیں اب یہ ان اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ سیلاب کے دوران متاثرہ افراد کا جو بھی نقصان ہوا ہے یا وہ بے روزگار ہو کر قرضی ہوئے ہیں ان کو کنمپنسیٹ کر کے مالی مدد کی جائے اس نے بتایا کہ مستقبل کے ڈزاسٹر میں بھٹہ مزدوروں کو یا بھٹوں کو مضبوط بنانے کے لئے کوئی جامع ڈرینیج سسٹم کا پلان بنایا جائے جس سے پانی متاثر نا کرے مستقبل میں پاکستان میں مجموعی طور پر رجیلینس ہاؤسنگ اسٹرکچر بنانا پڑے گا۔

بھٹہ مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہیں نا تو سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر کیا گیا ہے اور نا ہی محکمہ لیبر کی جانب سے رجسٹر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کو حکومتی سطح پر کوئی امداد فراہم کی جاتی۔ حیدرآباد کے نہری نظام کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ یہ بھٹے ہوسڑی شاخ کی وجہ سے ڈوبے ہیں اب اس نہر کو پکا کر کے مضبوط کر دیا گیا ہے اسی طرح مستقبل میں یہ علاقے سیلاب کے پانی سے ڈوبنے سے محفوظ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments