مسیحی خاتون افسر پر بلاسفیمی کا جھوٹا الزام


پچھلے دنوں کراچی سول ایوی ایشن کی ایک سکیورٹی افسر کی کارگو پارکنگ سے گاڑی لے جانے پر تکرار مذہبی شکل اختیار کر گئی جس میں ایک سلیم نامی شخص اس خاتون کو شدید دھمکی آمیز لہجے میں الزام لگا رہا تھا کہ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں تم پر توہین مذہب لگا دوں گا اور مولویوں سے تمھیں قتل کروا دوں گا۔ اس وائرل وڈیو میں صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ شخص محض اپنی بات منوانے کے لیے اس خاتون جو کہ مسیحی برادری سے تھی ہراساں کر رہا تھا لیکن خوش قسمتی سے اس دلیر خاتون نے اس کی اس مذموم حرکت کی وڈیو بنالی اور اپنے متعلقہ لوگوں سمیت سینئر افسران کو بھی بھیج دی۔

اس بہادر یا خوش قسمت خاتون کو دونوں ہاتھوں سے سلام، کیونکہ اگر وہ یہ کام بروقت نہ کرتی تو خدانخواستہ اس واقعہ کی شکل مختلف ہو سکتی تھی۔ بہرحال سندھ حکومت بالخصوص زرداری صاحب کے بر وقت نوٹس لینے سے معاملہ انڈر کنٹرول ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس منافق شخص کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہو گا۔ اس پر کوئی محکمانہ کارروائی ہوئی ہے یا نہیں۔

ایسے واقعات پاکستان میں کوئی پہلے دفعہ نہیں ہوئے اس سے پہلے درجنوں واقعات ہو چکے ہے جب چند شر پسند عناصر نے معصوم لوگوں کو بھڑکا کر بے گناہ لوگوں کو قتل کر وا دیا۔ یہاں تک کی بستیوں کی بستیاں جلا ڈالی۔ جیسے گوجرہ، شانتی نگر اور سانحہ بادامی باغ واضح ہیں۔

ٓآج ملک واقعی ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں بھوک، ننگ، مصیبت، سیلاب، بارشیں، سردی، مہنگائی، قرض اور کرپشن ایک لعنت کی طرح ہمارے ملک میں ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے۔ حکمران ہیں کہ انہیں اپنی سیٹوں اور ایک دوسرے کے خلاف ننگے الزام اور اقتدار کی دوڑ سے ہی فرصت نہیں۔ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام، ایک دوسرے کو چور چور، ڈاکو ڈاکو اور پھر اگلے ہی لمحے اپنی پارٹی کا حصہ بناتے، یوٹرن لیتے، کلیجہ چیر کو پیسہ وصول کرتے پیسے اور پھر انہی کے ساتھ کولیشن سرکار بناتے، ایک دوسرے پر غلیظ الزام لگا کر چارٹر آف ڈیمو کریسی پر سائن کرنے اور نا جانے کیا کچھ کہنے اور بعد میں مکر جانے سے فرصت نہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی افرادی قوت، زرعی ملک، اسلام کا قلعہ ہونے کے باوجود ساری دنیا کا مقروض، بے اعتباری ایسی کہ ہم سے معاشی طور کمزور ملک بھی ویزہ دیتے ہچکچائیں ایسی صورت حال پر تو بحیثیت قوم ہمیں ڈوب مر جانا چاہیے۔ پشاور سے کراچی تک کوئی دکان ایسی جہاں پر یہ نہ لکھا ہو کہ یہاں ”خالص دودھ ملتا ہے“ لیکن بے ایمانی عروج پر، جہاں پورے پیسے لے کر خراب فروٹ نہ ملتا ہو، اور ریڑے والے سے لیکن ملک کے سربراہ تک تبلیغ نہ کرتا ہے۔

وہاں ایک شخص کا ایک اقلیتی ایماندار لیڈی سیکیورٹی افسر کو توہین مذہب کا الزام لگانا کچھ بھی بعید نہیں یعنی یہاں مذہب کی خاطر ایک دوسرے کے گلے کاٹنا کوئی عجیب بات نہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہماری قوم پر خدا تعالی کا عذاب نازل ہو جائے گا بھیا عذاب نازل ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں جب کسی قوم پر برے دن آتے ہیں تو سب سے پہلے اس قوم کی مت ”عقل“ ماری جاتی ہے اور ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جن کو دن رات بد دعائیں اور گالیاں دیتے ہیں پھر انہیں کے پاس پیسے مانگنے چلے جاتے ہیں ہم وہ بندر ہیں جو اب گندی گاجریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہماری زمین خوراک اگلتی ہے اور ہم گندم باہر سے لیتے ہیں۔ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے جن کے پاس نہ گیس ہے نہ بجلی حالانکہ بمطابق بچوں کی معاشرتی علوم کے ہمارے پاس قدرتی وسائل اور معدنیات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

ہم جھوٹ فریب، بہتان اور الزام تراشی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں خدا کی پناہ۔ اس قوم کو ہاف سلیو پہننے پر عورت میں فحاشی نظر آتی ہے اور خود بیگانی عورتوں کو دیکھ شلوار میں ہاتھ ڈالا ہوتا ہے۔ ہم معاشی طور پر ہی نہیں اخلاقی طور بھی دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اقلیت تو اقلیت یہاں اکثریت بھی محفوظ نہیں۔ منافقت کے اس جنگل میں کس کی باری کب آ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔

سال دو ہزار بائیس میں ایک اندازے کی مطابق سات لاکھ پینسٹھ ہزار لوگوں نے پاکستان چھوڑ دیا اور ان میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی۔ پھر بھی حکمرانوں نے اس پر کوئی ہنگامی پالیسی مرتب نہیں کہ ان سب لوگوں کا ملک چھوڑنے کا ایک مقصد تھا کہ زندگی آسان ہو جائے۔ اب ملک چھوڑنے والوں اور کراچی کی لیڈی سیکورٹی آفیسر میں کیا فرق ہے۔ جہاں موت اتنی آسانی سے ملتی ہو وہاں زندگی کیسے پنپ سکتی ہے بھلا کوئی موت کی وادی میں کتنے دن گزار سکتا ہے۔ لیکن حکومتوں کو اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں۔

یہ سب کچھ درست ہو سکتا ہے اگر ہم تھوڑا حقیقت پسندی سے کام لیں اور سارے مکتبہ فکر لوگ ایک پیج پر اکٹھے ہوں اور ملک میں امن آئینی طور پر بحال کر کے مذہب کو ذاتی حیثیت تک محدود کریں اور مذہبی قوانین کے غلط استعمال پر فوری اور سخت سزا دیں۔ ہراسمنٹ کے قوانین عملی طور پر لاگو کریں۔ فتووں کو سرکاری حیثیت دیں اور کسی پرائیویٹ شخص کو سزا و جزا کے اختیار مت دیں۔ تو میرا اور آپ کا ملک امن کا گہوارہ ہو سکتا۔ دعا کریں کہ ملک میں وافر اناج ہو، وافر امن، لوگ عملی طور خدا سے ڈرنے والے ہوں، ایک دوسرے کے عقیدہ اور مذہب کا احترام ہو۔ ریاستی کے نزدیک سب شہری عملی طور برابر ہو۔ اکثریت اور اقلیت کا فرق ختم ہو جائے۔ اقلیتی ونگز بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ تاکہ کوئی میرے پیارے وطن کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے باہر کے ممالک جاکر دوسرے، تیسرے یا چوتھے نمبر کو شہر نہ بنیں۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments