عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں


دنیا ارتقاء کا گھر ہے۔ عالم فانی میں بسنے والا ہر شخص چاہے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہوں، خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتا ہے بقول ولی دکنی:

راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھولا ہے باب سخن

تخلیق کائنات کے وقت آدم خاکی کے عروج کو دیکھ کر عزازیل خوفزدہ ہو کر نافرمانی کر سکتا ہے تو حال ہی میں ولید نامی شخص کا میڈیکل کی تعلیم میں انتیس گولڈ میڈل حاصل کرنا، فیصل آباد کی طالبہ ”مروہ بصرہ“ کو میٹرک میں اچھے مارکس حاصل کرنے پر ایک دن کا ڈپٹی کمشنر بنانا، سکول میں جھاڑو دینے والی ماں کی بیٹی کا بورڈ ٹاپ کرنا، ایک عام آدمی کا پانی سے چلنی والی گاڑی کو بنانا ایسے کارنامے ہیں جن سے معاشرے میں موجود اشرافیہ (انجم) خوفزدہ ہو کر رہ گے ہیں۔ بقول جلیل عالی:

کچھ ایسے برہم ہیں ہم پہ سب صاحبان دنیا
کہ جیسے ہم نے زمیں کو الٹا گھما دیا ہے

در حقیقت آدم خاکی ہی فطرت کے عظیم مقاصد کی نگہبانی کی استعداد رکھتا ہے۔ جب اس خاک کے تودے یعنی انگارہ خاکی میں یقیں پیدا ہو جاتا ہے تو یہ روح الامین کے بال و پر کی صلاحیتوں سے متمتع ہو کر سر حد ادراک سے بھی آگے بلند پروازی پر قادر ہو جاتا ہے اور پورا گردوں عالم بشریت کی زد میں آ جاتا ہے۔ عروس جہاں کی تزئین کے لیے قبائے گل کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن انسان نے اپنی محنت شاقہ سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے ذہن و ذکاوت کے تابع کر کے ہر شعبہ زندگی میں محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آدم خاکی کا عروج دراصل توحید کی عظمت اور خالق کائنات کی قدرت و حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور نوع انساں کا زوال بقول اقبال خالق کو کبھی قبول نہیں۔

اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا

انسان کی ایک جست زمین و آسمان کی بے کرانی کا قصہ تمام کر دیتی ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے اور عقل آج تک محو تماشائے لب بام دکھائی دیتی ہے۔ قدیم تاریخ کو دیکھا جائے تو آدم خاکی کے عروج کی درخشاں مثالیں صدق خلیل، صبر حسین، معرکہ وجود خندق، خیبر اور بدر حنین میں دیکھی جا سکتی ہے اور اگر جدید حالات میں دیکھا جائے تو انسان ستاروں پر کمند ڈال چکا ہے اور سورج کی شعاعوں کو اپنا تابع بنا کر زندگی کے تیرہ و تار شبستان کی سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ آدم خاکی کے اس فقید المثال عروج کو دیکھ کر افلاک کی وسعت میں ہر طرف انسان کی شان اور جاہ و جلال کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں“
(المومنون)

مختصر آج ہرطرف انسان کی عظمت اور قوت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ انسان کے افکار کی مہک نے بلند فضاؤں میں بادلوں کا ہاتھ تھام کر گردش حالات کے مسموم بگولوں اور آلام روزگار کے مہیب طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی صلاحیتوں سے متمتع انسان کی ہیبت سے دریاؤں کا دل دہل جاتا ہے اور آدم خاکی کے اس عروج کو دیکھ کر آسمان کے ستارے بھی خوف سے لرزاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments