ڈرامہ سیریل بخت آور: معاشرے میں عورت سے سلوک کا عکاس


پاکستانی ڈرامہ سیریل ”بخت۔ آور“ اپنے پلاٹ کی انفرادیت اور تلخ سچائی کی وجہ سے ان دنوں ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی بختاور نامی لڑکی کے گرد گھومتی ہے۔ جس کو حالات کے تھپیڑے اپنی لڑکی کی شناخت سے لڑکے کا روپ دھار کر اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

بختاور جس گھر میں آنکھ کھولتی ہے۔ وہاں گھر کی دہلیز پر غربت، جوئے و نشے کی لت میں مبتلا باپ، جو اپنی بڑی بیٹی ایک جوئے میں ہار جاتا ہے۔ قسمت سے ہاری ماں، جیسے کردار و حالات بختاور کا استقبال کرتے ہیں۔ بدقسمت مگر بہادر بختاور کا باپ جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ تو ان کا ماموں ان کی پرورش کرتا ہے۔ لیکن وہ بختاور کی شادی اپنے اکلوتے پاگل بیٹے سے کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ بختاور شادی سے انکار کر دیتی ہے۔

کیونکہ وہ کامیاب زندگی کے خواب دیکھتی ہے۔ اور پڑھ لکھ کر معاشرے میں ایک مقام بنانا چاہتی ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں اپنی سہیلی کے بھائی کی مدد سے گاؤں چھوڑ کر شہر میں پناہ لینے کے لئے نکل جاتی ہے۔

جہاں وہ ماں کے کزن کے گھر ٹھہرتی ہے۔ وہاں پر بختاور ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ہوسٹس کی جاب کر لیتی ہے۔ لیکن مسافروں کی غلیظ نظریں اور مینجر کے ناپاک ارادے اسے جاب چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

دوسری طرف ماں کا کزن اور اس کی بیوی بھی لالچ میں آ جاتے ہیں۔ اور وہ گاؤں میں بختاور کے ماموں سے پیسے بٹور کر اسے اس کی بہن اور بھانجی کے بارے بتانے پر رضا مند ہو جاتے ہیں۔ بختاور کو ان کی نیت پر شک ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنی ماں کے ساتھ دوسرے محلے میں مکان کرائے پر لے لیتے ہیں۔ اوباش محلے کے لڑکے اور تنہا لڑکی کو چیرتی غلیظ نگاہیں بختاور کو مجبور کرتے ہیں۔ اور وہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ لڑکے کا روپ ڈھال کر اپنے گھر کا نظام چلائے گی۔

یوں وہ بختاور سے ”بختو“ کا مردانہ ٹھپا لگا کر سماج میں جینے کی آرزو لیے نکلتی ہے۔ جہاں وہ ایک چائے کے ڈھابے پر ویٹر کی نوکری شروع کر دیتی ہے۔ مگر حسین جوان بختو بھی ہوس زدہ نگاہوں کو کھٹکتا ہے۔ چائے پینے آنے والے کچھ اوباش بختو کو تنگ کرتے ہیں۔ ہوس زدہ معاشرے میں جوان حسین لڑکا ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا نوجوان لڑکی ہونا۔

بختو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرتا ہے۔ مگر وہ باہمت اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ ایک دن چوہدری دلاور اسی چائے ڈھابے پر چائے نوش کرنے آتا ہے۔ کچھ شرپسند اس پر حملہ کرتے ہیں۔ بختو اپنی سمجھداری اور ہوشیاری سے دلاور کو گولی لگنے سے بچا لیتا ہے۔ بختو کو اس احسان کے بدلے، دلاور کے پاس جاب مل جاتی ہے۔ اور بختو ایک بہتر جگہ پر کام کرنے لگتا ہے۔

مگر یہاں پر کہانی میں کئی twists and turns یعنی بدلاؤ آتے ہیں۔ اور بختو جو مردوں کے معاشرے میں لڑکی سے لڑکے کا روپ اپنا کر اپنے بہتر گزر بسر کے لیے تلاش معاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ اسے یہاں بھی بہت سے کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈرامہ سیریل کی کہانی اور کردار اپنی جگہ منفرد اور اچھوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مشرقی معاشرے میں جو بظاہر عورت کو عزت دینے کا دعوے دار ہے، ہر دوسری عورت ویسے ہی سلوک کی حق دار ٹھہرائی جاتی ہے، جیسے اس سیریل میں بختاور کا کردار ہے۔

”بخت آور“ ڈرامہ سیریل کی مصنفہ نادیہ احمد کہتی ہیں۔

”اس ڈرامے کی کہانی سچے واقعات پر مشتمل ہے۔“ جبکہ ڈرامے کے ڈائریکٹر شاہد شفاعت نے کہا ہے کہ ہمارے لیے بڑا چیلنج یہ تھا کہ لڑکی کو کاؤ بوائے کے کردار میں سامنے لایا جائے یا ٹین ایجر لڑکے کے۔

ڈرامے کی کاسٹ میں یمنی زیدی نے بختاور/بختو کے کردار کو جس احسن طریقہ سے نبھایا ہے۔ ہم تو یمنی کی اداکاری کے فین ہو گئے ہیں۔ جو پہلے ایک شاہکار ڈرامہ ”پری زاد“ میں آر جے عینی کے رول میں ہمیں متاثر کر چکی ہیں۔ جبکہ زاویار نعمان جو ملک دلاور کا رول پلے کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے کریکٹر سے گرویدہ بنایا ہے۔ جو ڈرامہ سیریل ”سنگ ماہ“ میں حکمت خان کا کردار بھی احسن انداز سے ادا کر چکے ہیں۔

بخت آور سیریل کی کہانی ہمارے سماج کی کہانی ہے۔ ہماری کہانی ہے۔ ہمارے کردار کا بھانڈا پھوڑا گیا ہے۔ وہی کردار وہی سوچ جو عورت کو ایک ”sexual object“ کی نظر سے سوچتی اور پرکھتی ہے۔ بخت آور میں ایک پدرسری معاشرے میں ایک عورت کے کردار کو جس انداز سے سیریل میں ڈرامایا گیا ہے، یہ ایک قابل داد اور قابل دید ہے۔ اور یہ ایک آئینہ بھی ہے جس سے ہم اپنے مکروہ چہرے دیکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments