پیرس میں ”جوائے لینڈ“ کی خوشی


صائم صادق کی ہدایت کاری میں بنی پاکستان کی فیچر فلم ”جوائے لینڈ“ کا پیرس، فرانس میں کافی چرچا ہو رہا تھا۔ ابھی یہ فلم یہاں کے سنیما گھروں میں لگی بھی نہیں تھی کہ پاکستانی نژاد کے لوگ اس پر خوب باتیں کر رہے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ فلم پاکستانی تھی۔ دیار غیر میں رہتے ہوئے لوگ اپنے ملک سے آئی ہوئی ہر چھوٹی بڑی چیز کو ایک انمول تحفہ سمجھتے ہیں اور اسے عقیدتا چومتے ہیں۔ اس فلم میں دلچسپی لینے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں اس کی نمائش پر پابندی کا تغلقی فرمان جاری ہو گیا تھا۔

تا دم تحریر ریاست پنجاب میں پابندی کا یہ تغلقی فرمان ہنوز برقرار ہے۔ قدموں میں زنجیر بندھ جائے تو اچانک پیروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آپ کے دل میں غیر ضروری طور پر اچھل کود کرنے کی خواہش جنم لے لیتی ہے۔ فلم کی کہانی کو لے کر لوگ کافی متجسس تھے۔ وہ پہلے دن اور پہلے شو میں فلم دیکھ کر یہ معمہ سلجھا لینا چاہتے تھے کہ فلم کی کہانی کیا ہے اور اسے کیسے فلمایا گیا ہے۔ کچھ لوگ محض پابندی کے احتجاج میں فلم دیکھنا چاہتے تھے۔

لوگ بڑی بے صبری سے 28 دسمبر کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی دن یہاں پیرس، فرانس میں اس فلم کی نمائش ہونا تھی۔ لوگ ایک ایک دن انگلیوں پر گن کر اپنی صبح و شام کر رہے تھے۔ ان کی بے چینی دیکھ کر مجھے غالب کے ایک شعر کا یہ مصرعہ ”صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا“ بے ساختہ میری زبان پر آ جاتا۔ کچھ پاکستانی دوستوں نے مجھے یہ پیشکش کی کہ میں ان کے ہمراہ فلم دیکھنے چلوں۔ فلم دیکھنے کی میری بھی خواہش تھی۔ لیکن چونکہ سال کے آخری ایام تھے۔

میں ان دنوں ذرا مصروف تھا، میں نے دوستوں کی پیشکش ٹھکرا دی اور اپنی خواہش کو تھپ تھپا کر کچھ دنوں کے لیے سلا دیا۔ پروفیسر شاہ زماں صاحب نے بھی ایک مرتبہ اس فلم کا ذکر کیا تھا اور فرصت کے دنوں میں ہم نے فلم ساتھ دیکھنے کا پلان کیا تھا۔ فلم کی نمائش ہونے کے ایک ہفتے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ فلم دیکھ چکے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اکیلے اکیلے چلے گئے، مجھے بتایا تو ہوتا۔ میرے اس شکایتی لہجے سے وہ مسکرا کر رہ گئے اور کہنے لگے کہ اس میں قصور میری ہی مصروفیت کا ہے۔

دو ہفتے بعد مجھے کچھ فرصت ملی۔ میں نے سوچا کہ فلم دیکھ لیتا ہو۔ ان دنوں اس پر بڑی بڑی باتیں ہو رہی تھیں۔ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھ لی تھی وہ اس کی کہانی اور اداکاروں کی اداکاری کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ میں نے پاکستان کے کچھ ڈرامے تو دیکھے ہیں لیکن فلم کبھی نہیں دیکھی۔ ڈراموں میں کی جانے والی اداکاری کا میں پہلے سے معترف تھا۔ فلم پر ہونے والی اتنی بحث سے یہ اندازہ لگانا مشکل تو نہ تھا کہ اس میں کچھ تو الگ بات ہوگی۔

پیرس کے بہت سے سنیما گھروں میں ”جوائے لینڈ“ کی نمائش ہو رہی تھی۔ میں 10 جنوری کی شام کو خالی تھا۔ ایک ہندوستانی دوست کو کال کر کے اس کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا۔ اتفاق سے وہ بھی اس دن مشغول نہ تھا۔ میں نے فلم دیکھنے کی پیشکش کی۔ وہ خوشی خوشی راضی ہو گیا۔ لیکن اب مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اس فلم کی نمائش ختم تو نہیں ہو گئی۔ فلم کو لگے تقریباً دو ہفتے سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔ میں نے انٹرنیٹ کھنگالنا شروع کیا۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشگوار حیرانی ہوئی کہ یہ فلم اب بھی پیرس کے مختلف سنیما گھروں میں دکھائی جا رہی تھی۔

اپنی رہائش گاہ سے متصل باستی (Bastille) کے ایک سنیما گھر ایم کے 2 کے دو ٹکٹ آن لائن بک کیے۔ ایک ٹکٹ تقریباً 12 یورو کا تھا۔ دو ٹکٹ کے لیے 25 یورو لگے۔ شام 6 بجے کا شو تھا۔ ہم لوگ چھٹ پٹے کے وقت کمرے سے نکلے۔ باہر ہلکی پھلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ تیز تیز قدموں سے تھیٹر کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔ ہم وقت سے دس منٹ پہلے پہنچ گئے۔ وہاں بھیڑ بالکل بھی نہیں تھی۔ اکا دکا لوگ نظر آ رہے تھے۔ فلم تقریباً دو گھنٹے کی تھی۔ ہم لوگوں نے چپس اور مشروبات باہر سے لے لیے۔ اندر وقت پر داخل ہوئے۔ وہاں دیکھا کچھ لوگ پہلے سے چھٹ پٹ بیٹھے ہیں۔ ٹکٹ پر سیٹ نمبر درج نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چاہے جہاں بیٹھ جائے۔

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا

اندر روشنی کافی تھی۔ دیوار گیروں سے بسنتی رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس زرد روشنی میں مجھے ہم دو کے علاوہ ایک دو ہی ہند و پاک کے چہرے نظر آئے۔ سارے گورے اور فرانسیسی تھے اور زیادہ تر ادھیڑ عمر کے۔ خلاف توقع نوخیز لڑکے اور لڑکیاں نظر نہیں آئیں۔ میں ادبدا اس جگہ جا کر بیٹھ گیا جہاں کوئی نہ تھا۔ غالب کے شعر میں ذرا ترمیم کر دیں تو میری کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔

”بیٹھیے“ اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

چند لمحے گزرے ہوں گے کہ سنیما گھر کے در و دیوار کی روشنی مدھم کر دی گئی۔ پردے پر تیز آواز کے ساتھ رنگ برنگ کی روشنی ابھری۔ ہندوستان کے سنیما گھروں کی طرح سماعت کو ناگوار گزرنے والی سیٹیاں نہیں بجیں۔ بیس پچیس منٹ تک پرچار و پرسار کی ویڈیوز اور آنے والی فلموں کے ٹریلرز دکھائے گئے۔ مجھے ان ویڈیوز سے بڑی کوفت ہوئی۔ دل بیزار ہو گیا اور باہر نکل جانے کو من کرنے لگا۔ میں نے دل کو سمجھایا اور اسے یاد دلایا کہ یہاں آنے کے لیے پچیس یورو خرچ ہوئے ہیں، ایک ایک یورو وصول کرنا ہے۔ میں جہاں تھا وہیں بیٹھا رہا۔

سیٹ اتنی آرام دہ نہیں تھی۔ پیرس کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ سیٹ بہت لگژری ہوگی۔ یعنی ایسی سیٹ کہ بیٹھو تو کمر سیٹ کے اندر دھنس جائے۔ لیکن سیٹ ایسی تھی کہ آپ بس بیٹھ سکتے ہیں۔ پہلو بدلو تو تکلیف ہوتی۔ سیٹ کی لمبائی اور چوڑائی ایک چھریرے جسم کے دبلے پتلے انسان کے مطابق ہی بنائی گئی ہے۔ ذرا لحیم شحیم انسان اس پر بیٹھ جائے تو اس سے بیٹھے بیٹھے پہلو بھی نہ بدلا جائے۔

فلم شروع ہوئی۔ کرداروں کی گفتگو اردو اور پنجابی میں تھی۔ اس کے سب ٹائٹلز فرانسیسی میں دیے گئے تھے۔ کردار اردو بولتے ہوئے پنجابی اور پنجابی بولتے ہوئے اردو کب بولنا شروع کر دیتے پتا ہی نہ چلتا۔ پنجابی مکالمے میری سمجھ سے بالا تر تھے۔ میں انہیں فرانسیسی سب ٹائٹلز سے سمجھنے کی کوشش کرتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ ایک جملہ مکمل پڑھا بھی نہیں کہ دوسرا جملہ پردے پر ابھر آتا۔ کچھ مکالمے کوشش کے باوجود سمجھ میں نہیں آئے۔ اس کیفیت میں غالب کا یہ شعر بار بار میرے ذہن کے اسکرین پر ابھرا۔

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

میں جس قدر فلم کو سمجھ سکا اس کے مطابق فلم کی کہانی بس اتنی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں کیسے لوگ اپنی اپنی زندگی ایک نہ بیان کر سکنے والے جبر اور دباؤ میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سب ساتھ رہتے ہوئے کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی خوشی پر چھری پھیر رہا ہے یا پھر وہ دوسرے کے جبر کے سامنے اپنی خواہش کو قربان کرنے پر مجبور اور بے بس ہے۔ بے بسی اور لاچارگی کی مثال فیاض (ثانیہ سعید) اور رانا امان اللہ ( سلمان پیر زادہ) کے تعلقات پیش کرتے ہیں۔

سماج کی روایتی سوچ کے آگے رانا امان اللہ جس طرح اپنا سر خم کر دیتا ہے وہ دیکھنے اور سمجھنے والا منظر ہے۔ انسان آج بھی اس سماج کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوا ہے جہاں ہر چیز کے لیے پہلے سے اصول اور ضوابط متعین ہیں۔ اس فلم میں بس اسی کیفیت کو دکھایا گیا ہے کہ انسان کس طرح اپنے جذبات کو مار کر اپنی زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہا ہے۔ اس میں اس کیفیت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بتایا گیا ہے۔ اتنا اشارہ موجود ہے کہ سماج کے اس بنے بنائے طریقے سے گریزاں ہوئے تو انجام اچھا نہ ہو گا اور یہ کہ وہ معاشرہ کسی بھی طور پر صحت مند نہیں ہو سکتا جہاں روز ہی کسی نہ کسی کو اپنی خواہشوں کی قربانی دینا پڑے۔ آپ فلم کی کہانی کا لب لباب اسی فلم کے ہی ایک مکالمے سے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ مکالمہ اس طرح ہے :

”ایک مچھر کو مرغی سے پیار ہو گیا، اس نے اس مرغی کا بوسہ لیا، مرغی ڈینگی سے مر گئی، مچھر برڈ فلو سے کیونکہ محبت کا انجام موت ہوتا ہے“

اس فلم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں سارے اداکاروں نے بھرپور اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ علی جونیجو نے حیدر کے کردار کو نبھانے میں بڑی محنت کی ہے۔ اس کی خوفزدہ شخصیت بہت فطری طور پر سامنے آتی۔ وہ کتنا ڈرا اور سہما ہوا کردار ہے یہ فلم کے آغاز سے واضح ہونے لگتا ہے۔ لیکن چونکہ میں نے شروع سے ہی اس کی شکل میں ہندوستانی اداکار نواز الدین صدیقی کو دیکھنے لگا تو مجھے ایک دو جگہ پر اس کی ایکٹنگ پھیکی نظر آئی۔

ثروت گیلانی جو فلم میں سلیم کی بیوی ہے، اس کو ایک دو بار سگریٹ کا کش لیتے دکھایا گیا ہے جو میری نظر میں غیر فطری اور غیر ضروری ہے۔ اس کے بغیر بھی اس کا کردار اثر انگیز ہو سکتا تھا۔ بیٹے کی للک میں چار بیٹیوں کی پیدائش اس کے کردار کو اہم بنا دیتی ہے۔ اس فلم میں سب سے زیادہ متاثر علینہ خان یعنی بیبا اپنی بولڈ اداکاری سے کرتی ہے۔ حیدر (علی جونیجو) اپنے پورے پریوار کے ساتھ اتنا دیرپا تاثر قائم نہیں کرتا جتنا بیبا (علینہ خان) تن تنہا کرتی ہے۔

اس کی ہیجڑے والی اداکاری میں فطری پن اس لیے بھی ہے کہ وہ اصل زندگی میں بھی ایک زنخا ہی ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑے پردے پر وہ پہلی مرتبہ آئی ہے۔ اس کے کردار سے خواجہ سرا کی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ہم اس کے ذریعے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سماج میں اس طبقہ کے کیا مسائل ہیں اور اس کے اپنے احساس و جذبات کیا ہیں اور کیسے ہیں۔

بہر کیف! اس فلم میں سبھی نے سماجی اور معاشرتی جبر کی میلی اور گندی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اس میں ان کا دم گھٹ رہا ہے لیکن وہ چادر اتار بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ وہ چادر سب سے بڑے ولن سماج نے ڈالی ہے۔ ہاں! سماج ہی اس فلم کا سب سے بڑا ولن ہے۔ ممتاز (راستی فاروقی) کی موت فلم کا نقطۂ اختتام ہے اور اس نے بھی فطری اداکاری کی انتہا ہی کردی۔ فلم میں اس کا رویہ بہت مثبت ہے۔ وہ پریشانی میں آسانی تلاش کرنا جانتی ہے اور گھر گھرہستی کو چلانے میں اپنا پورا پورا تعاون دیتی ہے۔

اس کی موت پر ایک طرح سے فلم ختم ہو جاتی ہے لیکن ناظرین کے دماغ میں بہت سے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ممتاز کی موت یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ روایت کی پاسداری زیادہ اہم ہے یا اپنی خواہشوں کے جانور کو بے لگام چھوڑ دینا زیادہ ضروری ہے۔ کیا اس کی موت کی وجہ حیدر نہیں ہے جو اپنی ضرورت کے پیچھے بھاگ رہا ہے؟

فلمی تکنیکی اعتبار سے بہت سادہ اور سمپل ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے اور ایک منظر کے بعد دوسرا منظر آتا رہتا ہے جس کا ایک دوسرے سے منطقی ربط ہوتا ہے۔ سارے کردار بہت جلد سامنے آ جاتے ہیں اور کہانی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ ایک یا دو جگہ فلیش بیک کی تکنیک سے کام لیا گیا ہے۔ فلم کے اکثر حصے کو ہلکی اور میٹھی روشنی میں تیار کیا گیا ہے لیکن اس کی ویڈیو گرافی کو بہتر کیا جا سکتا تھا۔

یہ ایک کامیاب اور اچھی فلم ہے۔ ہر جگہ اس کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی فلم ہے جسے فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ آسکر کے لیے فیچر فلم کے زمرے میں نامزد کر لیا گیا ہے۔ اس نے اب تک کئی انعامات اپنے نام کر لیے ہیں۔ آگے بھی اس کی جھولی میں مزید انعامات کے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

بہر کیف! فلم کی کہانی اور تکنیک سے ہٹ کر میں فلم کے ٹائٹل ”جوائے لینڈ“ کے اردو ترجمے کے بارے غور و فکر کر رہا تھا کہ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ کیا ہو سکتا ہے۔ اگر بہت محاوراتی ترجمہ کریں تو ”باغ بہشت“ ، جنت ارضی ”یا شادمانی کی مملکت“ کر سکتے ہیں۔ ترجمہ لفظی کرنا چاہتے ہیں تو ”ارض مسرت“ یا خوشی کی سرزمین ”کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).