مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیاں


زندگی کے معاملات میں تنوع کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی خیالات اور افکار کا تنوع اور تغیر سامنے آتا جا ر ہا ہے۔ ویسے تغیر اور تبدیلی تو زندگی کا لازمی اور ناگزیر جزو ہے۔ انسان جہاں اور جس ماحول میں اپنی آنکھ کھولتا ہے اسی سے اس کی حیات کی ابتدائی ذہن سازی کا عمل شروع ہوتا ہے، بلکہ تاحیات جاری رہتا ہے الا یہ کہ اس کا کسی اور نظم زندگی سے واسطہ نہ پڑے۔ لہذا اس ماحول میں سب سے زیادہ جو شے انسان کے وجود اور خیال پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ مجموعی عقیدہ، اجتماعی معاملات اور کلی نظم زندگی ہے۔ ان سے انسان کا اپنے آپ کو الگ اور پاک رکھنا، جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔

لیکن جدید دور نے اس ماحول سازی کے عمل میں ایک انقلاب کا کردار ادا کیا ہے۔ جہاں خیالات اور افکار کی تبدیلی ناقابل تغیر سمجھی جاتی تھیں اور کہیں اب بھی قدامت پرستی کی وجہ سے سمجھی جاتی ہیں، وہاں زمانہ حال نے اس طرز عمل اور کردار پر ایسا وار کیا ہے کہ اس پر بندھ باندھنا اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ جو ابھی اور حالیہ ایام میں نظر آ رہی وہ دنیا کا آپس میں قریب سے اقرب ہونا ہے۔ کیونکہ ٹیکنالوجی کے جادو کا ایسا مثبت اثر ہے کہ آپ کے لیے کچھ بھی پڑھنا اور جاننا مشکل نہیں رہا۔

اور ہاں ویسے بھی (مغربی) دنیا والوں نے آزادی کے اظہار رائے کا ایسا غلغلہ اور طوفان کھڑا کیا ہے کہ اب محض علمی، اخلاقی اور سیاسی و معاشرتی دباؤ سے ان تغیرات اور تبدیلیوں کا دبانا اور ختم کرنا ناممکن ہے۔ علمی اور اخلاقی کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ جو علم اور اخلاق ہمارے معاشرے میں پنپ چکا ہے اس میں حکمت اور دانائی ازکار رفتہ ہو چکی ہیں، اور اجتماعی اور انفرادی اخلاق کا حال ہی بے حال ہے، اب اس سے زمانہ حال میں آنے والے تصورات پر کیسے بند باندھا جا سکتا ہے۔ یا یہ کہ کیسے اس کے جوابات تخلیق کیے جا سکتے ہیں، اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو صرف فتوی سے کام چل سکتا ہے کیا؟

عصر حاضر میں افکار جدیدہ کا تعلق بھی اسی اظہار رائے کی آزادی کا مظہر ہے اور دنیاوی ترقیاں بھی انہی افکارات اور خیالات کے اثر سے وجود میں آئی ہیں مثلاً مشینی دنیا نے انسان کے کام میں جو آسانیاں پیدا کی ہیں، اس کا فائدہ ہم سبھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر اٹھا رہے ہیں۔ بہر حال اظہار رائے کی آزادی کے جو ثمرات ہیں ان سے کماحقہ فائدہ مسلم دنیا نہیں اٹھا سکے، اگر فی الواقع مسلم دنیا کے ہاں اس کا اظہار نمایاں ہوتا تو مسلم دنیا کی موجودہ شکل نہ ہوتی بلکہ یہ ایسی نئی علمی اور عملی تہذیب کی بنیاد فراہم کرتی جو موجودہ اور مستقبل کی تاریخ کا ایک نیا باب ہوتا۔ کیونکہ اسلام کے پاس جو آئیڈیالوجی اور عقیدہ ہے وہ اتنا مستحکم اور علمی ہے کہ جس کے آگے سوفسطائیت اور دنیاوی نظریات بے دلیل اور من گھڑت ثابت ہوتی رہی ہیں۔

ہمارے ہاں آج بھی دین کو جو شعوری سطح پر جگہ نہیں مل سکی وہ کسی حد تک اسی اظہار رائے کی آزادی پر لگائی گئی معاشرتی اور مذہبی نمائندوں کی اپنی خود ساختہ پابندیاں ہیں، اگر مذہبی نمائندے اصلا دین کی تمام جہتوں کو من حیث الکل سمجھتے تو بجائے قدغن اور پابندی لگانے کے مکالمے اور مباحثے کے لیے علمی مواقع فراہم کرتے جو آج بھی مشرقی دنیا میں بام عروج تک نہیں پہنچ سکا۔ حالانکہ سب سے زیادہ دین اسلام ہی مجادلہ احسن (النحل : 128 ) کی دعوت دیتا ہے۔ ظاہر ہے مجادلہ احسن اسی وقت درست رہے گا جب اظہار رائے کی آزادی ہو (یہاں اظہار رائے کی آزادی کا مطلب دین اسلام کے حدود کو مد نظر رکھ کر پیدا ہونے والا فکر و خیال اور اس کی تشہیر ہے ) ۔

لہذا جب ہمارے یہاں اس عمل کو فروغ نہیں ملتا تو جو لوگ پہلے پہل اپنے معاشرتی اور اجتماعی عمل کو دیکھ کر متاثر ہوتے تھے اب ان کا رویہ بدل رہا ہے۔ اب وہ حضرات نئے ماحول اور دنیا کے افکار اور خیالات کے اقرب ہونے کی وجہ سے اپنے اندر تغیر و تبدیل محسوس کر رہے ہیں، وہ ایسے جوابات کی تلاش میں ہیں جو حکمت و دانائی پر مبنی ہوں۔ ان ہونے والی تبدیلیوں اور احساسات کا ابھی ہمارے معاشرے میں جواب دینے کی بجائے دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جا رہی ہے، ظاہر ہے اس کے منفی اثرات زیادہ ہی ہوں گے جو بغاوت کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔ اور ہاں یہ فکری اور ماحولی بغاوت صرف ٹھوس علمی اور اخلاقی بنیادوں پر ہی روکی جا سکتی ہیں اور ان کے جوابات تراشے جا سکتے ہیں، مگر رسوماتی اور عرفی جوابات ناقابل تلافی ہیں۔

چنانچہ اگر کچھ نئی علمی روایات (new epistemology) ، چاہے وہ دینی و مذہبی ہوں یا دنیاوی اگر ہمارے معاشرے میں صحیح جگہ بنا سکیں تو اس کے فوائد زیادہ ہوں گے اور ایسا غیر علمی اور رسومی (ritual environment) ماحول سے ہم خلاصی پا سکیں گے۔ اور ہاں جتنے بھی سماجی، سیاسی اور مذہبی نمائندے ہیں وہ ایسے بدلتے ہوئے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں نہ کہ بے جا مخالفت کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ کیونکہ ہمیشہ یاد رکھیں! علمی، ذہنی اور فکری تبدیلی اگر درست اسلامی نہج پر ہوں تو دین اسلام کو ہی تقویت ملتی ہیں اور اسلام تو خود ایمان میں جدت اور بڑھاؤ کے قائل ہے اور زیادتی ایمان کے لیے اختیار کرنے والا ہر نیا فکر اسلام کی نظر میں مستحسن اور قابل ستائش ہے۔

اس لیے تبدیلی کو قبول کریں اور ہاں اگر قبول کرنی کی ہمت و سکت نہیں تو جوابات کی تلاش میں اپنی زندگی گزاریں، ان شاء اللہ دارین کی سعادتیں ملیں گی۔ لہذا تبدیلی تو فی نفسہ مستحسن عمل ہے، اس لیے ایسی فکری، اخلاقی اور علمی تبدیلی جس کی بنیاد قرآن اور سیرت رسول اکرم ﷺ پر ہو اور وہ شعوری اور حاضر دماغی کے ساتھ دینی مزاج سازی کام دیتا ہو، چاہے جس اور جہاں سے بھی ان افکار کی شمع پھوٹی ہوں تو ایسے گروہوں، جماعتوں اور درسگاہوں کو تقویت دیں کیونکہ یہ کام مسلمان اور اسلام میں جو دوری، مسلمانوں نے ازخود قائم کیے ہیں ان کو دور کریں گے۔

ایک جہت ثقافتی تبدیلی بھی ہے۔ دنیا کے آپس میں قریب ہونے سے، جو نئے حالات و واقعات سے ہماری علاقائی تہذیب میں، آنے والے تبدیلیوں کا مثبت طریقے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نہ فقط انکاری ذہن اور دھتکارانہ رویہ اختیار کر کے انہیں روکا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اپنے علاقے خپلو گلگت بلتستان میں دریا کے کنارے کنارے جو شیوک خزاں ثقافتی میلہ سجا، اس کا بھی اسی زاویہ نگاہ سے تجزیہ کریں (جہاں کنیڈین ہائی کمشنر لیسلی کینلوں مہمان خصوصی تھی) ۔

اسی ثقافتی میلہ کے قریب کہیں آپ بین الاقوامی معیار کی اسلامی کتابیں اور دعوتی لٹریچر، پمفلٹ پرامن ماحول اور رویہ کے ساتھ کچھ علم دوست دوستوں کے ذریعے رکھواتے تو ضرور فائدہ ہی ہوتا یا کہ ضلعی انتظامیہ سے اس سلسلے میں مدد طلب کرتے۔ حالیہ 2022 کے فیفا فٹ بال ورلڈ کپ میں بھی دنیا نے اس کے مختلف مظاہر دیکھے ہیں۔ عربوں نے جہاں اپنی ثقافت پیش کیں وہیں پر مختلف انداز سے قرآن کی آیات اور نبی اکرم پیغمبر انقلاب ﷺ کے اقوال بھی انگریزی ترجمہ کے ساتھ آویزاں کیے تھے تاکہ پڑھنے والے پڑھیں اور غور کرنے والے سمجھ سے کام لیں کہ یہ کلمات تو انسان کو اندر ہی اندر سے فکر و احساسات جھنجھوڑتی ہیں۔ یہ کلام قرآن اور اقوال رسول اللہ کا ہی اپنا الگ الگ اعجاز اور منفرد بیاں ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یاد رہے کہ عربوں کے میلہ عکاظ میں اللہ کے نبی ﷺ کا دعوت و تبلیغ کے لیے جانا بھی سیرت کی کتابوں سے ثابت ہے۔

بہرحال ہر ایک کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری تو ہر لمحہ باقی رہتی ہے کہ وہ دعوت دیں کا کام جاری و ساری رکھیں لیکن آج کے بدلتے ہوئے حالات میں جدید تقاضوں کو سیکھتے اور سمجھتے ہوئے مدعو بالخصوص غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرائیں اور اس کے لیے اپنے آس پاس کے ماحول سے مثبت فائدہ اٹھانے کے لیے ذہن کو اور اپنی فکر کو آمادہ کریں اور ہر بدلتی ہوئی تبدیلی کو فتوی سے روکنے کی بجائے حکمت اور دانائی اور دلیل سے سامنا کرنے کا معاشرتی اور سماجی حوصلہ پیدا کریں اور اس سلسلے میں پورے معاشرے کا رکھ رکھاؤ اس انداز سے ترتیب دیں کہ ہر فرد واحد ان حالات و واقعات کو درست اور مثبت انداز سے دعوت دین کے لیے استعمال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments