کسی نئے ”بندوبست“ کا انتظار


جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء نے کامل آٹھ برسوں تک نفسیاتی جنگ کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے ہم ”ذلتوں کے ماروں“ کو ریاستی بیانیے کی بابت سوالات اٹھانے کے ناقابل بنا دیا تو 1985ء میں ”غیر جماعتی“ بنیادوں پر انتخاب کا انعقاد ہوا۔اس کی بدولت ”جمہوری بندوبست“ کا جھانسہ دیتے سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں جیسے ادارے بحال کردیے گئے۔ ان کی بحالی سے قبل مگر جنرل صاحب نے قوم سے براہِ راست خطاب کیا۔ اس کے دوران واضح الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار ”منتقل“ نہیں کر رہے۔ اسمبلیوں تک پہنچے افراد ”عوامی مسائل“ حل کرنے کے عمل میں ”میرے اور میرے رفقا“ کے فقط ”شراکت دار“ ہوں گے۔ دو ٹکے کا جوان رپورٹر اس فقرے کی اہمیت سمجھ نہ پایا۔

نو منتخب قومی اسمبلی کی حلف برداری کی تقریب میں پیشہ ورانہ ذمہ داری کی وجہ سے شریک ہوا تو پہلی بار کسی منتخب ایوان کا رکن بنے نسبتاًجواں افراد کی اکثریت سے تعارف اور گفتگو کے بعد محسوس ہوا کہ وہ اپنی ”خودمختاری“ دکھانے کو مچل رہے ہیں۔ سپیکر کے انتخاب نے انہیں اس خواہش کے بھرپور اظہار کی سہولت فراہم کر دی۔

منتخب پارلیمان کے احیا سے قبل جنرل صاحب کئی برسوں تک اپنے نامزد کردہ ”صاف ستھرے“ سیاست دانوں پر مشتمل ”مجلس شوریٰ“ کے ذریعے ”مشاورت“ کی فضا بنائے ہوئے تھے۔ خواجہ آصف کے والد صفدر مرحوم اس ادارے کے چیئرمین تھے۔جنرل صاحب کا حکم تھا کہ انہیں نو منتخب اسمبلی کا سپیکر بھی منتخب کیا جائے۔ ”خودمختاری“ کومچلتے اراکین اسمبلی نے مگر سید فخر امام کو ان کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ بالآخر ان کی جیت نے ہمیں اس گماں میں مبتلا کردیا کہ ”گیم“ جنرل ضیاءکی گرفت سے نکلنا شروع ہو گئی ہے۔

بعدازاں جنرل صاحب ہی کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی کئی حیران کن پیش قدمیوں کی بدولت مذکورہ گماں کو حقیقت کی صورت فراہم کرنا شروع کردی۔”خود مختاری“ کی فضا مگر تین برس بھی قائم نہ رہ پائی۔مئی 1988ء میں جنرل ضیا نے اپنے ہی تشکیل کردہ بندوبست کو ”نااہل اور بدعنوان“ قرا ر دیتے ہوئے سلیٹ پر چاک سے لکھے حرف کی طرح مٹادیا۔مذکورہ بندوبست سے نجات کے بعد وہ وطن عزیز میں ”حقیقی اسلام“ نافذ کرنا چاہ رہے تھے۔ اگست 1988ء کے فضائی حادثے نے مگر اس کی مہلت نہ دی۔

”آنے والی تھاں“ پر واپس آتے ہوئے پرانے بندوبست ہی کو بحال کرنا پڑا۔ نئے انتخاب ہوئے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ”مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم“منتخب کروانے کا سبب ہوئے۔ ”اختیار“ مگر انہیں بھی نصیب نہیں ہوا۔ان کی ”نگرانی“ کے لئے افسر شاہی سے ابھرے غلام اسحاق خان کو ایوان صدر پہنچا دیا گیا۔ آئینی اعتبا ر سے وہ جنرل ضیائ الحق جیسے ہی بااختیار تھے۔ فوجی وردی پہنے بغیر بھی منتخب اسمبلیاں توڑنے کا حق رکھتے تھے۔ اس حق کو انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی پہلی حکومتوں کو فارغ کرنے کے لئے بے رحمی سے استعمال کیا۔

نواز شریف کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو وہ ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا“ کا عہد باندھتے ہوئے عوامی حمایت کی تلاش میں متحرک ہو گئے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے انہیں اس ضمن میں آئینی اور قانونی کمک فراہم کی۔ غلام اسحاق خان کی فارغ کردہ قومی اسمبلی بحال کردی گئی۔ نواز شریف مگر اس کے باوجود اپنی ”آئینی مدت“ مکمل نہ کر پائے۔”کاکڑ فارمولے“ کو بروئے کار لانا پڑا جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئیں۔ اس کے بعد جو ہوتا رہا وہ حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔ لمبی تمہید کے بعد مکدی گل کی جانب بڑھنے کو ترجیح دوں گا۔

گزشتہ تیس برسوں کے دوران حکومتی بندوست کے حوالے سے جو تماشے دیکھے ہیں ان کی بدولت دریافت ہوئے چند اسباق اب میری جبلت کا حصہ بن چکے ہیں۔ جو سیکھا اس میں اہم ترین یہ حقیقت بھی ہے کہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کا حکومتی تبدیلیوں میں رتی بھر حصہ بھی نہیں ہوتا۔روایتی اور سوشل میڈیا میں ”ذہن ساز“تصور ہوتے ”عوام میں مقبول ترین“ صحافی بھی اس ضمن میں موثر کردار ادا نہیں کرتے۔ لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود خواہشات اور تعصبات ہی کو ”دلیری“ سے بیان کرتے ہوئے ”سٹار“ بن جاتے ہیں۔ ریاست کے دائمی اداروں کی رائے پر سب سے زیادہ اثرانداز میرے تجربے کے مطابق مختلف دھندوں کے اجارہ دا رسیٹھ ہوتے ہیں۔ سیاسی زائچے تیار کرتے ہوئے ان کی ”آنیوں جانیوں“ پر نگاہ رکھنا لازمی ہے۔

گزشتہ مہینوں سے اجارہ دار سیٹھوں کا مخصوص گروہ اسلام آباد کے طاقت ور تصور ہوتے ڈرائنگ روموں میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع ہو گیا تھا۔ ”دیوالیہ-دیوالیہ“ کی دہائی در حقیقت ان کی سرگوشیوں میں ہوئی گفتگو کی بدولت نمودار ہونا شروع ہوئی تھی۔ اپنے خیالات کا اب وہ برملا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ حال ہی میں ان کی جو ملاقات ہوئی ہے اس کی تفصیلات اخبارات میں آ چکی ہیں۔

میری آپ سے التجا ہے کہ وقت نکال کر ان پر سنجیدگی سے غور کریں۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ”بازار میں رونق“ لگانے کے کلیدی کردار تصور ہوتے اجارہ دار سیٹھ حکومت پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کو مزید اڑی نہ دکھائے۔ پاکستانی روپے کی قدر کو بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو اطمینان دلایا جائے۔ وہ مطمئن ہوگیا تو ہمارے ساتھ 2019ء میں طے ہوئے بندوبست کو بحال کر دے گا۔ ہماری ”امداد“ کے لئے روکی رقم کا اجرا ہوجائے گا۔ وہ رقم جاری ہو گئی تو دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی مہربان ہونا شروع ہو جائیں گے۔”برادر ممالک“ بھی اس کی بدولت پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کے وعدوں کو عملی صورت فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات لیتے نظر آئیں گے۔

جو فضا بنائی جا رہی ہے شہباز حکومت اس کا موثر توڑ ڈھونڈنے میں قطعاََ ناکام ہے۔ عمران حکومت کو ہٹانے کے بعد اقتدار سنبھالنے اور اس سے چپکے رہنے کی ضد نے مسلم لیگ (نون) کا ووٹ بینک پہلے ہی غارت کردیا ہے۔حکومت سے مگر اب بھی تقاضہ ہو رہا ہے کہ وہ ”منی بجٹ“لائے اور اس کے ذریعے مزید محاصل کا حصول یقینی بنائے۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا بھی لازمی تصور ہورہا ہے۔میں ہرگز سمجھ نہیں پا رہا کہ ”منی بجٹ“ شہباز حکومت موجودہ قومی اسمبلی سے کیسے منظور کروا پائے گی۔ عمران خان صاحب نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان دو صوبوں میں انتخابی عمل کا اپریل میں ہونا ”تقریباََ یقینی بنا دیا ہے۔ مہنگائی کا ایک اور سیلاب یقینی بنانے والے ”منی بجٹ“ پر انگوٹھے لگانے کے بعد حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکین قومی اسمبلی کس منہ سے اپنی جماعتوں کے نامزد کردہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لئے ووٹ مانگنے جائیں گے۔ ”منی بجٹ“سے مفر بھی لیکن اب ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ”گیم“ یقینا شہباز شریف کی قیادت میں کھڑے کئے حکومتی بندوبست کے ہاتھ سے پھسلنا شروع ہو گئی ہے۔ اسی باعث میں کسی نئے ”بندوبست“ کا سنجیدگی سے منتظر ہوں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments