بے معنی نوحہ


’افراہیم ماموں! افراہیم ماموں! نانا کو کچھ ہو گیا، جلدی آؤ بھاگ کر ”پچھلے آٹھ مہینوں سے روز ڈان صبح سویرے پڑھنے کی عادت تھی، اس صبح جاوید نقوی صاحب کا مضمون پڑھ رہا تھا کہ بھانجی کی پکار سن کر بستر سے بیٹھک کی طرف پھرتی سے بھاگا تو دیکھا کہ والد صاحب کی سانسیں پھول رہی ہیں۔ انہیں لٹایا، ٹانگیں سیدھی کیں، بہن اور بھانجی کو ان کے پیروں کو مساج دینے کا کہا۔ میں ہاتھ کو مساج دیے جا رہا ہوں تو کہیں سینے کو زور زور سے دبا رہا ہوں۔

سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میرے والد صاحب کو ہو کیا گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کزنز اور چچا آ گئے۔ والد کو آوازیں دیتا رہا، پکارتا رہا بابا، بابا، بابا، ۔ جواب نہیں آ رہا تھا، کپکپی طاری تھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ساتھ ایک امید تھی کہ بلھا چاچا (میرا والد کو کبھی کبھی پکارنے کا نام) جواب ضرور دیں گے۔ شدید بارش میں ایمبولینس پہنچی تو پورے راستے میں انہیں آوازیں دیتا رہا، جواب نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ روح پرواز چکی ہے۔

نہیں ڈاکٹر صاحب ہو ہی سکتا اپنے سے سینئر کو بلاؤ۔ وہ آئے چیک اپ کیا کمپاؤنڈر کو پیر اور تھوڑی پر سفید پٹی باندھ کا کہا۔ میں اپنی کائنات کھو چکا تھا۔ بھانجی نے 9:15 پہ بلایا اور 9:45 پہ میرے بابا، پیارے بابا کوچ کر چکے تھے۔ میں کہ ان تیس منٹس میں مالک کو پکارتا رہا پر بقول فریحہ نقوی خدا اتنا فارغ نہیں تھا کہ سب چھوڑ کر صرف ہم کو ملانے کی خاطر زمانے میں کن کی صدائیں لگاتا پھرے۔

یہ واقعہ 19 جنوری 2022 کا ہے اور آج 19 جنوری 2023 ہے۔ 7 جون 2021 سے لے کر 18 جنوری 2022 تک نئے گھر کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی۔ کہاں کہاں سے بھائی نے قرض لیا۔ والد 18 جنوری کو کزنز کے بچوں کے ساتھ لکڑیاں چیرنے میں مصروف تھے تو کلہاڑی ٹوٹ گئی۔ کام رکنے پر میرے بازو میں کھڑے ہو کر اپنی شہتیر نظروں سے مجھے دیکھتے رہے۔ ان کے دیکھنے کا یہ انداز میں نے پہلی مرتبہ نوٹس کیا۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے۔

میں کہ جس نے پچھلے دو دن سے ان سے بات نہیں کی، اس وقت بھی نہیں کی۔ یہ پچھتاوا اب عمر بھر کا ساتھی رہے گا۔ ان کی رحلت کے بعد سے 365 ہزار سال اس طرح سے گزرے کہ بقول فراز کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم، موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں، پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم۔ نئے گھر سے مجھے نفرت سی ہو گئی وہاں سانسیں پھولنے لگتیں ہیں۔ گھر چھوڑ کر اسلام آباد ریڈزون میں کام شروع کیا تو سوچا سانسیں بحال ہو جائیں گی، کچھ نہیں بدلا۔

دوستوں کے ساتھ محفل میں بیٹھتا ہوں، سیاست پہ بات ہوتی ہے، مہنگائی کا ذکر ہوتا ہے، پیزا کھانے جاؤں یا سینٹورس، آفس میں کام کروں یا میٹنگ میں ہوں، ہر روز ہر لمحہ، ہر جگہ ہر دن ان کی یاد ایک ناقابل برداشت قوت سے موجزن ہو کر ذہن کی کنارے سے ہو کر دل کے دریچے سے ٹکراتی ہے، رلاتی ہے، روز آنکھ نم ہوتی ہے روز ہی چھپاتا ہوں۔

میں غم چھپانے میں بہت اچھا اداکار واقع ہوا ہوں، غم سہنے میں نہیں۔ اس مفارقت نے مجھے ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ میں کچھ لکھ، پڑھ، بول اور سن نہیں سکا۔ بس پڑھا تو نطشے، ڈاکنز یا ہچنز کو۔ مرض مزید بڑھتا گیا اور ویسے بھی کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں۔ یہ کہنا بھی شاید درست ہو کہ کئی دفعہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو والد کے پاس جانے سے روکا کہ زندگی تلخ سہی ساتھ رہے، پر ایک بات کہ بابا سے جب بھی ملاقات ہوئی تو کبھی بھی انہیں ان کے جانے کا غم، کرب و تکلیف نہیں بتاؤں گا کہ مرے پاس یہ تحفہ امانت ہے، ان کی یاد پچھتاوے اور بے بسی سے مزین یاد میرا کل اثاثہ ہے۔ تقریباً 23 کی عمر میں والد کی اچانک جدائی گردش ارض و سماوات اور خدشات سے بڑھ کر حادثات کا موجب بنی۔

میں نے ہمیشہ ان کی غصے میں چھپی شفقت کو جیا۔ پڑوسیوں سے محبت، حد درجہ حساسیت اور پیشہ بے ضرر رہنے کی تربیت ان کا خاصہ تھی۔ رکیے، ایک منٹ رکیے کال پہ بات کرتے ہیں : ”ہیلو بابا جی! میں اسلام آباد میں ہوں نوکری لگی ہوئی ہے وزیراعظم کے دفتر کے ساتھ کچھ مسافت پہ۔ جی جی، یہ جو زمینیں بیچتے خریدتے ہیں گھر وغیرہ۔ ہاں میرٹ ہوٹل کے ساتھ متروکہ املاک ٹرسٹ میں۔ ہاں اسی ہوٹل میں دھماکے ہوئے تھے۔ نہیں سردی میں اپنی حفاظت کرتا ہوں بالکل۔

ہاں، بلڈنگ کا نام اویکیوئی ٹرسٹ ہے، ہاں چھوٹی بہن آپ کو نام سکھا دے گی اس کا میں کہہ دوں گا انہیں۔ چلو ٹھیک ٹھیک، آپ ویکیو ٹرس کہیں۔ ہاہا۔ اچھی ہے تنخواہ گزارا ہو جاتا ہے۔ اچھا ادھر جب آپ چکر لگانے آئیں گے نا تو آپ کو ژوب اور موسیٰ خیل کے مزے بھول جائیں گے۔ فیصل مسجد، صاف وسیع کشادہ روڈ، صاف ستھرا ماحول۔ اچھا، آپ نے ابھی ادھر آنا ہے یا نہیں؟ چلو ٹھیک، سردی ذرا کم ہو تو میں آپ کو اتنا گھماؤں گا کہ واپس ٹانک جاکر لوگوں کو یہاں کے قصے سناؤ گے۔“

اگر وہ حیات ہوتے تو بالکل اسی طرح کال پہ بات ہوتی پر کیا ہوا اس تنہا مسافت میں ان کی یاد میری پرچھائیں ہے خوشبو ہے۔

کوئی آواز جب تنہا مسافت میں میرے ہم راہ چلتی ہے
کوئی پرچھائیں جب مری بجھی آنکھوں میں چبھتے اشک چنتی ہے
تو لمحہ بھر کو رک کے سوچتا ہوں میں، کہ اس تنہا مسافت میں
کسی صحرا میں بانٹتے اشجار کی خوشبو یا تم ہو
سفر جاری رکھو اپنا
تمہیں آتا ہے گرد روز و شب سے ماورا رہنا

محسن نقوی کی نظم ”سفر جاری رکھو اپنا“ کے اس بندھ کے ساتھ سلیس زبان میں لکھی یہ تحریر خاطر انجام کرنے سے پہلے آپ تمام لوگوں سے گزارش کہ ہر وہ رشتہ جسے ہم فار گرانٹڈ لیتے یا سمجھتے ہیں، نہ سمجھیں کہ اس تحریر کا اصل کارن ہی یہی ہے۔ میری کائنات لٹنے کے بعد میں روز روتا ہوں، پچھتاتا ہوں، سانسیں پھولتی ہیں، بچہ سا بن جاتا ہوں، پر ہر لمحہ مسکراتا ہوں۔

والد کی برسی آج صبح اتنے کرب میں تھا کہ کب دوست نعمان کمرے سے جائیں گے کہ کچھ تحریر کر سکوں۔

اچھا ہاں بابا سے تو اجازت لے لوں : ”بابا میرے، پیارے بابا! آپ کی یاد میری روح ہے اور میرا کرب میں ہونا اور رہنا آپ کے ہونے اور رہنے کا بین ثبوت ہے۔ آپ کی یاد نے دل کے رخسار پہ اس شفقت سے ہاتھ رکھا کہ آپ کی عدم موجودگی ہی آ پکی موجودگی ہے۔ بابا آپ کو انگریزی نہیں آتی نا پھر بھی میری طرف سے ’آئی لو یو“ ہو گیا مطلب وہاں دادا دادی میں سے کسی کو آتا ہو گا۔ و سلام ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments