ہجوم کی تنہائی


انسان، جو کہ ازلی و ابدی تنہائی کا شکار ہیں، بھلے ہی وہ مذہب، ریاست، سیاست، ثقافت، زمین، زبان، رنگ، نسل، نظریہ یا سماجی و معاشی ضروریات کے تحت ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں مگر وہ اپنی سوچ، فکر اپروچ اور محسوس کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے ہر دوسرے انسان سے مختلف ہیں۔ ہم ایک ہی جگہ صدیوں سے رہنے کے باوجود اپنی یہ انفرادیت ختم نہیں کر سکتے۔ انسان کی یہی انفرادیت اسے ہجوم سے ہٹ کر چلنے اور نئی نئی راہیں کھوجنے پر اکساتی ہے اور یہی اسے اکیلے ہونے کا بھی احساس دلاتی ہے۔

نئے انسان کے مسائل گزشتہ انسانی نسلوں سے بالکل مختلف ہیں۔ خصوصاً جنوبی ایشیا کے باشندے جن کو سامراجیت نے اپنی اصل سے کاٹ کر رکھ دیا، وہ کئی طرح کے نفسیاتی، جذباتی، معاشرتی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور شناختی الجھاؤ کا شکار ہیں۔ چونکہ آرٹ کا تعلق براہ راست ہماری سماجی زندگی سے ہوتا ہے، اس لیے ہمارے خطے کے ادب میں یہ تمام مسائل لا محالہ در آئے ہیں۔ اردو ادب ان بنیادی مسائل کی کہیں مبہم تو کہیں واضح انداز میں نشاندہی کرتا ہے۔

اردو کی تاریخ میں دو ایسے اہم واقعات ہیں جنھوں نے ادب کو بہت بڑے پیمانے پر تبدیل کیا ہے۔ پہلا واقعہ جنگ آزادی کا اور دوسرا تقسیم ہندوستان کا۔ جنگ آزادی کے بعد بیسویں صدی کے آغاز تک کا ادب ایک طرح سے گزشتہ ادب کو ریفائن کرنے کا عمل نظر آتا ہے جس نے جدید ادب کو بنیاد فراہم کی ہے۔ بیسویں صدی کا فکشن، شاعری اور تنقید اس کا واضح ثبوت ہے۔ تقسیم ہندوستان نے بھی اردو افسانے اور غزل کو اسی سطح پر ہی تبدیل کیا ہے۔ آزاری کے بعد منظر عام پر آنے والی شاعری اور افسانوی ادب پر اس کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔

اردو شاعری کو موضوعاتی سطح پر دیکھیں تو اس میں ایک غالب موضوع اس تہذیبی انسان کا نوحہ اور تلاش ہے جس کو سامراجی، صنعتی اور سرمایہ داری طاقتوں نے اپنی اصل سے جدا کر کے شناختی دھندلکوں میں گم کر دیا ہے۔ اس انسان کو کبھی میر خاک کے پردے سے نکالتے ہیں تو کبھی غالب کاغذی پیرہن میں دکھاتے ہیں، کبھی ماضی کی راکھ سے چنگاری کی طرح ٹٹولتے ہوئے اقبال نظر آتے ہیں تو کبھی اس سادہ دل سے اجل کی ملاقات کرواتے ہوئے ن۔ م راشد۔

جب ہم سعید راجہ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بھی ہمیں اسی کھوئے ہوئے انسان کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اس جستجو نے انھیں تھکا دیا ہے پھر بھی کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ سالہا سال سے خاموش اور کھوئے ہوئے انسان کو انھوں نے تلاش کر لیا ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے۔

مدار عشق میں آ کر کلام کرنے لگا
ازل سے چپ تھا جو فر فر کلام کرنے لگا
تمام ہونے لگی تھی سماعتوں کی طلب
پھر ایک روز وہ پتھر کلام کرنے لگا

کسی بھی ادبی فن پارے کو جانچنے کے لیے اس کا موضوع اور ہیئت بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان سے ہٹ کر کسی تخلیق پارے پر تنقیدی رائے قائم کرنا اور اس کا مقام متعین کرنا نا ممکن ہے۔ اردو غزل میں اگرچہ ہیئتی سطح پر چند تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی بھی گئی یہ مگر غزل کے مزاج اور اس کی کو ملتا نے ان کوششوں کو قبول نہیں کیا۔ ہاں موضوع کی سطح پر دیکھیں تو غزل ہر بدلتے عہد کے پہلو بہ پہلو چلتی نظر آتی ہے۔ آج غزل اپنی ٹھوس ہیئت کے باوجود بھی اتنی وسعت رکھتی ہے کہ ہر طرح کا مضمون آسانی سے اپنے اندر سمو لے۔

سعید راجہ نے غزل کی اس وسعت کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے کلاسیکی مضامین کو بھی باندھا ہے اور جدید سماجی موضوعات کو بھی اپنی غزل میں جگہ دی ہے۔ کلاسیکی مضامین ان کے ہاں کلیشے کی صورت میں نہیں بلکہ ایک نئے زاویے کے ساتھ معنی کی تفہیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ذرا ان کے یہ شعر ملاحظہ کریں۔
اس شخص کو کب میں نے جتایا ہے کہ میں ہوں
لیکن وہ مجھے روز بتاتا ہے کہ میں ہوں
میں خود کو مٹاتا ہوں تو کہتا ہے کہ تو یہ
ہونے کا خیال آئے تو کہتا ہے کہ میں ہوں
اسی طرح یہ شعر بھی دیکھیے۔
اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر جا سکتے ہیں
جانے والے آنکھ بچا کر جا سکتے ہیں
دشت میں رہنا آپ کے بس کی بات نہیں
آپ ذرا سی خاک اڑا کر جا سکتے ہیں

ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک شاعری محض مشغلہ نہیں بلکہ نہاں خانے کی کوئی واردات ہے۔ ایک شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ وہ محسوس کرنے پر آتا ہے تو کلی کے چٹخنے اور گھاس کے بڑھنے تک کی آواز کو سنتا ہے۔ وہ سماجی ناہمواریوں اور نا انصافیوں سے آنکھ نہیں چرا سکتا۔ وہ اگر گزشتہ کا قصہ سنا سکتا ہے تو آئندہ کی خبر بھی دے سکتا ہے۔ سعید راجہ جب اسی بات کا دعویٰ کرتے ہیں تو کوئی اچنبھا نہیں ہوتا بلکہ اطمینان بخش یقین ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے من میں جھانکنا اور ان کے احساس کی تال کے ساتھ تال ملانا جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔

وقت کی نبض پہ جب ہاتھ دھرا ہے میں نے
شور آتے ہوئے طوفاں کا سنا ہے میں نے
اپنے احساس کو الفاظ میں ڈھالا ہے سعید
سطح قرطاس پہ جو کچھ بھی لکھا ہے میں نے

یہ اور ایسے کئی اشعار اس کتاب میں موجود ہیں، جو اپنے اسلوب اور پیشکش کے لحاظ سے دل میں فورا جگہ بنا لیتے ہیں۔ یہ کتاب اول تا آخر شعری ریاضت اور گہرے احساس کا پتا دیتی ہے۔ قاری جب اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے جو اس کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جس سے وہ مانوس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ احساس اور حظ کی منزل کو پا لیتا ہے۔ یہی اس کتاب کی شاعری کا کمال ہے۔

آخر میں قارئین کے لیے مختصر سا شعری انتخاب۔
تمام شہر ہی اندھا دکھائی دیتا ہے
کسی کسی کو ہی رستہ دکھائی دیتا ہے
میں ایک پل میں زمانوں کو دیکھ سکتا ہوں
ابھی تو مجھ کو ذرا سا دکھائی دیتا ہے
۔
روز اک شام کی چادر میں لپیٹا خود کو
پھر نئی صبح کی خواہش میں جگایا خود کو
یہ کوئی تجھ سے بہت خاص تعلق ہے مرا
میں نے جب جان لیا تجھ کو تو جانا خود کو
۔
درد کا ضبط کا اور نمی کا سفر
میرے ہونٹوں پہ آئی ہنسی کا سفر
شور تو اب مرا مسئلہ ہی نہیں
مجھ کو درپیش ہے خامشی کا سفر
۔
اپنے آپ سے لپٹا رویا
کس نے کہا میں تنہا رویا
بول نہیں سکتا تھا کچھ بھی
پھر اندر کا بچہ رویا
رات اسے بھی دیکھا میں نے
تنہا تنہا رویا رویا
۔
چراغوں کو بجھایا جا چکا ہے
سو اب ہر طاق میں دھوکا دھرا ہے
بدن میرا کبھی ایسا نہیں تھا
تری قربت میں نیلا پڑ گیا ہے
۔
جو جہاں تھا وہ وہاں ہوتا نہ تھا
آنکھ پر لیکن عیاں ہوتا نہ تھا
آنکھ میں حیرت اترتی بھی نہ تھی
اشک بھی کوئی رواں ہوتا نہ تھا
۔
دیدہ و دل میں سرایت نہیں کرنے والا
عشق بے وجہ کرامت نہیں کرنے والا
اشک آنکھوں سے بہے جاتے ہیں چپ چاپ سعید
اور میں کوئی وضاحت نہیں کرنے والا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments