دانش اور دھوکے- دوسرا حصہ


اس بار کی آتش بازی لوگوں کے لئے بہت بڑا سرپرائز ہو گی۔ جوں ہی گھڑیال کی سوئی، سوئی پہ چڑھے گی آسمان رنگ و نور میں نہا جائے گا۔ یہ سن کر سب کی باچھیں کھل اٹھیں اور لوگ بیتابی سے بارہ بجنے کا انتظار کرنے لگے۔ باسط نے بھی میری طرف دیکھ کر اندھیرے میں دندیاں چمکائیں۔ اب کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا تھا۔ لوگ یک آواز ہو کر بیتابی سے الٹی گنتی گننے لگے۔

دس، نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ یہاں پہنچ کر آوازوں کا بم اپنی انتہا کو چھونے لگا۔ اب اس سے اگلی گنتی میں کھلنڈروں کا شور، عورتوں اور بچوں کی جوش و خروش سے بھری چیخیں بھی شامل ہو گئیں۔ پانچ، چار، تین، دو، ایک، ۔ کوئی شرنائی چلی نہ ہی کوئی پٹاخہ پھوٹا۔ ٹھٹھرتی سردی میں بحریہ والوں کا ”کھمبا“ گھپ اندھیرے میں لوگوں کے سامنے ویسے ہی کھڑا تھا جیسے پچھلے پورے گھنٹے سے، جس کی طرف لوگوں کا جم غفیر للچائی نظروں سے مسلسل دیکھ رہا تھا۔

کچھ نے ملک ریاض کو اور کچھ نے باجوے کو جی بھر کے گالیاں دیں اور دس منٹ میں وہاں سے تتر بتر ہو گئے۔ کھمبے کے نیچے صرف دو پردیسی باقی بچے، میں اور باسط۔ باسط کی آنکھوں سے اشق جاری تھے اور میری ناک سے۔ باسط نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، جس ملک میں سال کے آغاز پہ، پہلے ہی منٹ اتنے بڑے پیمانے پہ اتنے سارے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہو جائے اس ملک میں کسی کا کیا مستقبل۔

مجھے احسان اللہ دانش کے بیس سال قبل کہے گئے الفاظ شدت سے یاد آئے۔ ”میں ہر روز یہ سمجھتا ہوں کہ دھوکے کھا کھا کے اب میں سیانا ہو گیا ہوں مگر ہر روز ایک نئے طریقے سے، اس ملک میں میرے ساتھ نیا دھوکہ ہو جاتا ہے،“ ۔ میں اس بات پہ حیران تھا کہ کیا بحریہ ٹاؤن والوں کی طرف سے بھی کسی کے ساتھ دھوکہ ہو سکتا اور وہ بھی نئے سال کی آمد پر۔ میں نے چشم تصور میں مرشد دانش کے چرن چھوئے اور اسی کھمبے سے لپٹ کر بلند آواز میں یہ اعترافی بیان ریکارڈ کروایا، جسے اس روز بحریہ ٹاؤن کے سارے باسیوں نے اپنے اپنے گھروں میں سنا، ”کہ میری عمر اب 40 کے قریب ہے، میں ہر روز یہ سمجھتا ہوں کہ دھوکے کھا کھا کے اب میں سیانا ہو گیا مگر ہر روز ایک نئے طریقے سے میرے ساتھ دھوکہ ہو جاتا ہے“ ۔

اگر آپ یہ سمجھ کے دل ہی دل میں شاد ہو رہے ہیں کہ ہم سائیں ہیں جو ہمارے ساتھ بار بار دھوکے ہو جاتے ہیں تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہماری 75 سالہ قومی تاریخ میں کل دو ہی کردار پائے جاتے ایک دھوکہ دینے والے، دوسرے دھوکہ کھانے والے۔ ہم اگر دھوکہ خور نہ ہوتے تو دھوکے باز ہوتے۔ تاریخ کی اس بات پہ گواہی ہے کہ دھوکہ ذہانت کے بڑے بڑے میناروں کے ساتھ بھی ہو جایا کرتا ہے۔

ماؤنٹ بیٹن تقسیم کے وقت ٹیڑھی میڑھی لکیر لگا کے قائداعظم کے ساتھ دھوکا کر گیا۔ نہرو ہمارے پیسے مار گیا۔ چلو یہ مثالیں اگر آپ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور سے پہلے کی اور پرانی لگتی ہیں تو دور حاضر میں آ جائیے۔ ابھی چند دن پہلے ہی دنیا کے ذہین ترین بزنس مین ایلون مسک کی باں باں نکل گئی یہ کہتے ہوئے کہ ٹویٹر کی خریداری میں میرے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔ پاکستان سے میچ جیتنے کے بعد زمبابوے کا صدر اپنی ٹویٹ میں پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا کہ اگلی بار اصلی مسٹر بین بھیجنا، پہلے آپ نے نقلی مسٹر بین سے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔

ترکی کا ارطغرل جس نے سلطنتوں کی سلطنتیں الٹ ڈالی، ایک پاکستانی ٹک ٹاک سے دھوکہ کھا گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم اتنے سادہ بھی نہیں جو شاعر ہم پہ ایسے الزام لگاتا ہے، کہ تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں، ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہی۔ ہم تو انتہائی محتاط رہتے ہیں پر اگلے ہر بار ہی چال بدل دیتے ہیں جس کے لئے ہم چنداں تیار نہیں ہوتے۔

خیر بات لمبی ہو گئی گزارش یہ ہے ”دھوکوں کی ڈکشنری“ مرتب کرنے کا جو عظیم المرتبت کام ہم نے اپنے نازک کندھوں پہ لیا ہے اس کی تکمیل میں ہماری معاونت فرمائیں اور سنہ 22 میں کھائے گئے، اپنے دھوکوں کی تفصیلات، کمنٹ سیکشن میں ہماری اس ڈکشنری کو عطیہ کریں تاکہ جلد شائع ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments