بتاؤ گھاس کھاؤ گے؟


اپنڈکس یا زائدہ دودیہ ایک ارتقائی دور سے مبدل عضو ہے۔ یعنی یہ اپنا اصلی استعمال کھو چکا ہے۔ یہ پہلے جانداروں میں نظام انہضام کے لیے ہوتا تھا اور کافی بڑا ہوتا تھا۔ یہ معدے میں موجود مواد کی فرمیٹیشن کے لیے استعمال ہوتا تھا مگر ارتقائی سفر میں نظام انہظام میں یہ اپنا کردار کھو چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب کشور حسین میں اس عالیشان عضو ( اپنڈکس یا زائدہ دودیہ) کا استعمال ایک مرتبہ پھر ڈھونڈ لیا گیا۔ قوم کی صحت اور وسیع مفاد میں اور اس پارینہ عضو کا استعمال ناگزیر ٹھہرایا گیا۔ اس زائدہ دودیہ (اپنڈکس) کا استعمال کیا سوچا گیا یہ جاننے کے لیے میرے ساتھ نتھی رہیں۔

ملکی سیاسی معاملات تیزی اگلے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے بعد اگلا پڑاؤ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی ہو گا۔ پنجاب کے بعد (کے پی کے ) اسمبلی کے قبل از وقت خاتمے سے عام انتخابات کو زیادہ دیر تک ٹالنا عملاً ممکن نظر نہیں آتا۔ وفاقی حکومت بدستور اپنی کج ادائیوں کو اپنے ساتھ لیے وقت پر سر کھجانے اور دسمبر، جنوری میں سر منڈوا کر اولے کھانے پر کاربند رہی اور کھائے بھی۔

جوں جوں سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے اسی طرح سیاسی قائدین نئی بوتلوں میں پرانی شراب بھرنے میں متحرک نظر آتے ہیں۔ شب انتظار آخر کب ہوگی مختصر؟ عوام یہ سوال پوچھتے پوچھتے قوت گویائی سے قریب ترین محروم ہونے کو ہے۔ موجودہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی کا جواز تحریک انصاف کی طولانی معاشی کوتاہیوں اور بد عنوانیوں کی نظر کر کے، عوام سے ایک مرتبہ پھر سوختنی قربانی کا تقاضا لیے بیٹھی ہے۔

ایسے گھمسان کے رن میں تاجر بھی پھر رہے ہیں تو کہیں رہزن بھی، جوت جگانے والے بھی تو کہیں کالک بھرنے والے بھی۔ دیکھنے اور سننے کو ہر آواز اور ہر عکس ہے ماسوائے بہتری اور بحالی عوام۔

زیادہ دور کیا جانا ابھی پچھلی حکومت کا تذکرہ ہی کافی ہے کے ماضی قریب میں جب مہنگائی سے بلکتے عوام کی چیخیں نکلیں تو (تب) کی حکومت سے استفسار ہوتا اور مہنگائی کی وجہ پوچھی جاتی تو نامہ بر جواب لیے آتا کہ ”امریکا کو دیکھو، یورپ دیکھو، برطانیہ دیکھو، کیا وہاں مہنگائی نہیں ہے؟“ جب عوام مزید پشیمانی کے عالم میں ہاتھ جوڑ کر عرض گزار ہوتے کہ جہاں پناہ! وہ تو امریکہ ہے، یورپ ہے، برطانیہ ہے وہاں کے شہری کا ہم سے کیا جوڑ؟

جواب آتا اچھا یہ بتاؤ اس سال اتنے لوگوں نے نئی گاڑیاں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ لیں، بتاؤ اگر مہنگائی ہے تو کیسے لیں؟ بتاؤ! مومنو تکا لگاؤ۔ ایسے منطقی دلائل پر عوام ہمیشہ محو حیرت رہتے اور اپنی الم رسیدگی کا محرک خود کو کھوج کر ایک خود سوزی کی عطا کردہ کیفیت میں دن گزار، ہفتہ گزار، ماہ و سال گزار گویا یوں عمر گزار کا ہنر آزماتے۔ حکومت کی طرف سے ایسے ٹھوس اور منطقی دلائل موجودہ حکومت یا ماضی قریب کی حکومت کا ہی امتیاز نہیں رہا بلکہ اس موج میں جو بھی آیا تیراک ہی آیا، یاور ہی آیا۔

ایک وقت تھا ملک آزاد ہوا، عوام نے خواب دیکھے ان خوابوں کی تعبیر چاہی۔ تعبیر کے لیے مقتدرہ نے سوختنی قربانی مانگی، تب کا سبق تھا بتاؤ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنا ہے؟ جواب تھا جی بچنا تو ہے۔ تب ارشاد ہوا کہ ایک رنگ برنگی چھتری ہے، ہم اس کی چھاؤں میں رہ کر مال بھی بنا لیں گے، حال بھی اور مستقبل کی تو گارنٹی ہے۔ مگر سنو اس سفر میں ہمسفر رہنے کی سہولت کا خراج بھی ہے اور وہ ہے خاموشی۔ سنو! سفر لمبا ہے کٹھن ہے، گھٹن ہوگی، بھوک رہے گی مگر سوال مت کرنا، بہتر دن آئیں گے، ہم ہی لائیں گے بس تم لب سی لو۔ بولنا مت!

اس خواب کی تعبیر کے لیے کہ وقت اچھا بھی آئے گا، جانے کتنے ناصر پیٹ کی بھوک سے لاچار، زندگی ابھی پڑی تھی کے گزر گئے۔

پھر وقت بدلا، جذبات بدلے خواب بدلے، بوتل بدلی بس شراب پھر وہی تھی۔ اب کی بار سوال تھا بتاؤ گھاس کھاؤ گے؟ اس سوال کی تشریح اور منطقی مجادلے کے لیے تب کچھ گوہر کچھ نایاب اور کچھ ممتاز خرد مند حکومتی آڑھت پر حکومتی ڈھیلے پر ہانک لگانے بلائے گئے۔ حکومت کا مقصد تھا، جہل بیچنا، اور وہ بیچا گیا۔ حکومت کا مقصد تھا مزاحمت کی آواز میں کوئلہ بھرنا، سلگتا کوئلہ ہر مزاحمت کی آواز کا حکومتی حکمت کا تریاق ٹھہرا۔

منطق کو جلا بخشنے کو سرکار نے کارندے بھیجے۔ یہ کارندے سرکاری ہرکارے بجاتے عوام کے لیے گھاس کھانے اور گھاس کھاتے رہنے کی فضیلت سے آگاہی کی مہمات گرماتے رہے۔ عوام کو منوایا اور بتایا گیا کے گھاس کھانا جاری رکھا گیا تو جراحی کے عمل سے فرار مل جائے گی۔ وضاحت کی گئی کے گھاس کھانے سے زائدہ دودیہ حرکت میں رہے گا اور اگر اس کی حرکت روک دی گئی تو قومی سطح پر جراحی کرنا ضروری ہو جائے گا۔ لہٰذا فیصلہ کر لیجیے کیا گھاس کھاؤ گے؟ ایلیائی زبان میں بات کو ذرا مروڑ دیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کے ان کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کے آپ، پاگل بنا دیجیئے پاگل بنا دیے گئے۔ چاک گریباں والے پیٹ چاک ہونے سے ڈر گئے اور گھاس تناول کی اور ابھی تک گھاس ہی جاری ہے۔ جانے کب تک اس ہریالی چرنے کی رسم سے راہ رہے گی یہاں؟

اگر تہذیبی نرگسیت کا غوغا کچھ لمحے بھلا دیا جائے تو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ کشور حسین میں مہنگائی، بیروزگاری، افراتفری، بد عنوانی اور عدم استحکام سے ہر جاں، جاں بلب ہے اور صدا ہے غم کے ماروں کی کے آ اجل ہم سے مل ہم تجھے ہنسائیں تو ہمیں ہنسا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی آئندہ چند سال میں ساڑھے آٹھ ارب ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے بجائے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو ہے اور یہ اضافہ ایسے ممالک میں معاشی اور رہائشی حوالے سے سنگین نتائج کا اعلان کر رہا ہے۔ پاکستان تیری سے آبادی میں اضافہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اپنی پوزیشن بدستور برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 23 کروڑ 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے یوں پاکستان آبادی کے لحاظ سے ایشیا میں چوتھے نمبر جبکہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔

آبادی کے اس بے تحاشا اضافے سے آئندہ ہمیں فوڈ سیکیورٹی کا سنگین مسئلہ بھی درپیش ہے۔ کیا حکومتی ترجیحات میں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی تیار کی گئی ہے؟ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ حکومت گھاس اگانے میں خاصی دلچسپی لے رہی ہے اور فوڈ سیکورٹی جیسے مسئلے سے نبرد آزما ہونے کو اچھی نسل کی گھاس عالمی اشتراک سے کم نرخوں پر درآمد کی جائے گی۔ ہور کوئی ساڈے لائق؟

ان تمام مسائل کا تعلق تو ان لوگوں سے ہے جنہوں نے اس ملک میں رہنا ہے۔ ان کا کا کیا اور ان کو کیا کے جن کا کاروبار بچے اور سب کچھ بیرونی ممالک میں ہے وہ تو پاکستان آنے کا کشٹ بھی اس لیے کرتے ہیں کے یہاں رہنے والے خرابوں کے مکینوں کی قسمت کا فیصلہ وزٹ پر کر آئیں۔ ان کے کیے فیصلوں کا خراج تو ادا اس کے مکینوں نے کرنا ہے۔ گزری حکومتوں کا قصیدہ گائیں، موجودہ حکومت یا آنے والی حکومت کا، قصہ مختصر یہی رہا ہے کے، سر اتنے برابر تھے کے سب سر ہیچ غرض ہر ہنر ہیچ۔ جس آگ سے اٹھنا تھا محبت کا حمیر اس آگ کے شرر یہاں گم رہے۔ کل کی خبر رکھنے والے جزو کی خبر سے سے بھی گم رہے۔ آئین و قانون یہاں بیلن کی زد میں رہا۔

موجودہ حکومت اگر مست مے ذوق تن آسانی سے اٹھ کھڑی ہو تو اس ڈوبتی کشتی کو کوئی ڈگر دے۔ وہ راستہ کے جس پر آئندہ کا سفر ہو گا۔ موجودہ صورت حال میں ملک کو ہر سیکٹر میں کم از کم پانچ، پانچ سالہ پالیسی اور اس پر یکسوئی سے عملداری چاہیے۔ مزید پالیسی کا تسلسل درکار ہو گا۔ غیر پیداواری عمل کے بجائے، سرمایہ پیداواری عمل میں لگانا ہو گا۔ خوراک کو روایتی طریقوں سے پورا کرنا اب ناممکن ہے، لہٰذا اس آبادی اور میسر خوراک کے درمیان طلب اور رسد کا فرق کم کرنے کو فصلات کے ترقی دادہ اقسام اور بیجوں پر کام کرنا ضروری وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

بھارت میں بھی زرعی اجناس کی دو اقسام کے ملاپ سے F 1 بیجوں کی مدد سے زائد پیداوار حاصل کی گئی ہے۔ لائیو سٹاک میں جدت کے اصول اپنانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ بلیو معیشت جس میں سمندر میں چھپے بے پایاں خزانے سے استفادہ لے کر اربوں ڈالر کے قرضے ادا کیے جا سکتے ہیں اور وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی معیشت کو جزوی سہارا مل سکتا ہے۔

عوام کو بھی اپنی ذاتی پسند کے سیاسی قائدین کی فین فالونگ چھوڑ کر ان کی پالیسی سازی پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ اگر کچھ وقت کے لیے ہم اپنے پسندیدہ سیاسی قائد کی شان میں ازبر کیا ہوا پیریاڈک ٹیبل بھلا دیں تو کوئی ہیجان برپا نہیں ہو گا۔ موجودہ وقت میں عوام کو ایک دوسرے کو زیر کرنے کی بجائے مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی جیسے مسائل پر یک زبان ہونا ہو گا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں کے گھاس کھلانے کے بعد اگلا سرکاری ارشاد یہ نازل ہو کے آشوب چشم کے لیے آنکھوں میں ریت ڈال کر مساج کریں اور اس نسخے کی تشریح اور تاویل میں ہمارے سروں پر کوئی نئے ریاستی ایڈوائزر مسلط ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments