معروف سندھی شاعر لعل محمد لعل کا صد سالہ یوم پیدائش


تحریر: ڈاکٹر انور ”فگار“ ہکڑو
ترجمہ: یاسر قاضی

اس برس 21 جنوری کا دن سندھی زبان کے مقبول برجستہ شاعر، نثر نویس اور مدیر لعل محمد ”لعل“ احمر کے صد سالہ یوم پیدائش کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ شکارپور کے مشہور شاعر لعل محمد ”لعل“ ولد داد محمد دایو 21 جنوری 1923 ء کو پیدا ہوئے۔ شکارپور ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور سی اینڈ ایس کالج شکارپور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے، جہاں انہوں نے محکمۂ بیراج میں ملازمت شروع کی۔

وہ جلد ہی یہ نوکری چھوڑ کر ”سندھ مدرسۃ الاسلام“ کراچی میں استاد بن گئے۔ اس ملازمت کے دوران وہ پڑھتے بھی رہے اور کراچی کے ایس ایم لاء کالج سے بی اے اور ایل ایل بی کے امتحانات بھی پاس کیے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے سرکاری نوکری چھوڑی اور شکارپور آ کر وکالت شروع کی اور تا دم آخر یہی کام کرتے رہے۔ وہ کچھ عرصہ شکارپور میں ایچ ایم لاء کالج کے پرنسپل بھی رہے۔

لعل محمد ’لعل‘ زمانۂ طالب العلمی سے ہی علم و ادب سے وابستہ رہے۔ کالج میں تعلیم کے حصول کے دوران ان کے تعلقات شیخ ایاز، نارائن ’شیام‘ ، محمد نعیم ’وجدی‘ اور سگن آہوجا سے استوار ہوئے۔ اس زمانے میں ماہنامہ ’سندھو‘ رسالے میں ان کی نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ وہ بہت پختہ شاعری کرتے تھے۔ اور اپنا تخلص ’احمر‘ استعمال کیا کرتے تھے۔ شیخ ایاز اپنی کتاب ’ساہیوال جیل کی ڈائری‘ میں لعل کی اس دور کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں :

”لال محمد ’لال‘ اردو کے کلاسیکی انداز میں غزلیں کہتے تھے اور اردو کے پرانے اساتذہ انشا، مومن، ناسخ وغیرہ ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ وہ بہت پختہ شاعری کرتے تھے اور شاعری میں بندش کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں ان کے نام ’لال‘ اور تخلص ’احمر‘ کے درمیان بھی بندش نظر آتی تھی۔ درحقیقت لال محمد تغزل میں کلاسیکی حقیقت نگاری کے بہت بڑے استاد تھے اور لاڑکانہ کے شعراء ان کے مقابلے میں تک بند لگتے تھے۔“

شیخ ایاز اسی کتاب کے صفحہ 59 اور 60 پر لال محمد کے بارے میں مزید لکھتے ہیں :

”نعیم (صدیقی) اور مجھ پر اردو شاعری کا بہت اثر تھا۔ اور ہم روز ایک نئی غزل، قطعہ یا نظم کہا کرتے تھے۔ شام کو ہم لکھی در سے سندھ واہ تک دو تین میل پیدل چل کر جاتے تھے۔ جہاں نہر کے کنارے بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنی تازہ تخلیقات سناتے تھے۔ کبھی لال محمد احمر اور مرحوم احسان بدوی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ لعل محمد اب شکارپور میں وکالت کرتے ہیں اور احسان بدوی، جو ڈی۔ جے۔ سندھ کالج میں پروفیسر بن گئے تھے، چند برس قبل ایک کار حادثے میں انتقال کر گئے ہیں۔ لال محمد نے شکارپور سے ’آفتاب‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ جس میں اس نے میری بھی ایک غزل شائع کی تھی۔ ایک دفعہ اس نے اپنی ایک غزل ہمیں سنائی جو بعد میں ’آفتاب‘ میں بھی شائع کی۔ غزل کا مطلع تھا۔

فلک پہ برق ہے ظاہر؟ کہ پیچ و تاب میں سانپ
کہ لڑ رہے ہیں مبادا کہیں سحاب میں سانپ

اس غزل میں ’آفتاب میں سانپ‘ ، ’عتاب میں سانپ‘ ، ’کتاب میں سانپ‘ وغیرہ قافیے اور ردیف تھے۔ اگلے دن نعیم نے لال محمد سے کہا ”میں نے تمہارے اتباع میں ایک غزل کہی ہے۔“ لال محمد وہ غزل سننے کے لیے بہت بیتاب ہوا۔ نعیم کافی دیر تک ہچکچاتا رہا، لیکن پھر دوستوں کے اصرار پر اس نے یہ غزل بالآخر سنا ہی دی۔ مجھے اس کی غزل تو یاد نہیں، البتہ اس کے قوافی اور ردیف ’آفتاب میں گوہ (درختی چھپکلی)‘ ، ’پیچ و تاب میں گوہ‘ ، ’شراب میں گوہ‘ ، ’کتاب میں گوہ‘ وغیرہ تھے۔

جب اس نے اپنا مقطع ’جلاب میں گوہ‘ پڑھا تو لال محمد سخت خفا ہو گیا اور کئی دنوں تک نعیم سے بات تک نہیں کی۔ درحقیقت لال محمد تغزل میں کلاسیکی معاملہ بندی کے بڑے استاد تھے، لیکن چونکہ ہم اس وقت تک معاملہ بندی والی شاعری سے بہت آگے نکل چکے تھے، اور نہ صرف علامہ اقبال کی فارسی اور اردو میں کتابیں پڑھ چکے تھے، بلکہ ن۔ م۔ راشد کی ’ماورا‘ ، فیض احمد فیض کی ’نقش فریادی‘ ، تصدق حسین خالد کی معرا شاعری اور ’ادبی دنیا‘ رسالے میں میرا جی کی دیس دیس کی شاعری کے بے مثال تراجم پڑھ چکے تھے، اس لیے ہمارا ادبی معیار تب تک بہت بدل چکا تھا اور شاعری میں بندش وغیرہ کی اہمیت ہمارے یہاں نہیں رہی تھی۔ ہندوستان کے مشہور سندھی نقاد اور شاعر سگن آہوجا لال محمد احمر کے دوست تھے اور ان کی شاعری سے بہت متاثر تھے۔ مجھے لال محمد کا ایک شعر آج بھی یاد ہے۔

غم زیادہ خوشی قلیل ملی
زندگی جیسے بے دلیل ملی
مجھے لعل کی ایک نظم ’مرے دل کی کرنا وہیں جستجو‘ بھی پسند آئی۔ ”
(نوٹ: ایاز اپنی کتاب میں ’لعل‘ کو ’لال‘ لکھتے ہیں۔ )

جب لعل محمد ’لعل‘ کراچی میں مقیم تھے، تو 1950 ء میں انہوں نے ماہنامہ ’آفتاب‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا، جس کے ادارتی فرائض بھی انہوں نے خود ہی انجام دیے۔ وہ سندھ مدرسے کے میگزین ’سندھ مدرسہ کرانیکل‘ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ کراچی میں ہونے والی ادبی محافل اور مشاعروں میں بھرپور حصہ لیتے تھے اور ادبی حلقوں میں اچھی شہرت کے مالک تھے۔ کراچی سے واپس آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے علمی ذوق اور شاعری کے شوق کو ترک نہیں کیا۔

وہ اپنی شاعری تخلیق کرتے رہے، لیکن اشاعت کے لیے ارسال نہیں کرتے تھے، کیونکہ بطور وکیل ان کے کام نے ان کے شاعرانہ ذوق پر قدرے اثر ڈالا تھا۔ جنوری 1993 ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”گونج“ کے نام سے ان ہی کی قائم کردہ ”اعجاز پبلیکیشن شکارپور“ نے شائع کیا۔ وہ شکارپور کے ایک مشہور علمی، ادبی، تحقیقی اور اشاعتی ادارے ”شکارپور ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل سوسائٹی“ کے صدر بھی رہے۔ وہ کبھی کبھی انگریزی میں شکارپور کی تاریخ پر مضامین بھی لکھتے تھے۔

لعل محمد ’لعل‘ کی شاعری، فن اور فکر کے سنگم کی وجہ سے انتہائی منفرد مقام کی حامل ہے۔ ان کی نظموں میں جہاں روایتی قدریں عام ہیں، وہیں کچھ نئے رجحانات بھی ملتے ہیں۔ ’لعل‘ کے اسلوب پر مراد علی ’کاظم‘ کے اسلوب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ انہوں نے غزل اور نظم میں کثرت سے طبع آزمائی کی ہے۔ لعل محمد ’لعل‘ ، نہ صرف شکارپور کے شعراء میں اپنی بزرگی اور اہم مقام کے مالک ہیں، بلکہ سندھ کے بزرگ شعراء میں بھی اولین حیثیت رکھتے ہیں۔

لعل محمد ’لعل‘ 5 مئی 1997 ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 21 جنوری 2023 ء کو ان کی پیدائش کو ایک صدی مکمل ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments