وہ موت پر جھپٹ پڑا


نو جنوری صبح پانچ بجے میرے دروازے کی گھنٹی بجی۔ میرا چھوٹا بھائی ظفر بالائی منزل پر موجود تھا، اس بے وقت گھنٹی بجنے پر حیران ہوتے ہوئے اس نے موبائل پر نظر ڈالی تو 05:02 بجے تھے، وہ اٹھا اور ٹیرس پر آیا تو سامنے گلی کا گارڈ دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ ظفر نے پوچھا ”کیا بات ہے؟“ اس نے وضو کے لئے پانی مانگا۔ وہ میرے سامنے والے گھر میں ہی مقیم ہے اور اس نے چند روز قبل ظفر کو بتایا تھا کہ اس کو پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔

ظفر نیچے آیا اور چھوٹا دروازہ کھول کر جیسے ہی قدم باہر نکالا تو اسے احساس ہوا کہ گیٹ کے ساتھ لگ کر کچھ اور لوگ بھی کھڑے ہیں۔ وہ ایک دو تین نہیں بلکہ زیادہ تھے اور لائن بنا کر کھڑے تھے، سیاہ لباس، سیاہ نقاب اور ہاتھوں میں ہتھیار۔ ظفر کے دروازے سے نکلنے سے قبل ہی ایک نے پسٹل سیدھا کیا ہوا تھا، میرا بھائی باہر نکلا تو اس نے پسٹل کا رخ اس کے ماتھے کی طرف کرتے ہوئے پسٹل کا چیمبر چڑھایا اور اسی لمحے ظفر نے اس کے پسٹل پر ہاتھ ڈال دیا۔

شاید نہیں یقینی طور پر ڈاکوؤں کے لئے یہ انتہائی غیر متوقع ہو گا کہ اتنی ساری بندوقوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان پر نہتا ہی جھپٹ پڑے گا، ظفر ان سے گتھم گتھا ہو گیا اور اس سے پستول چھیننے کی کوشش کرنے لگا، اس کو اپنی گرفت میں بھی لے لیا، دیگر ڈاکو اس کو چھڑانے کے لئے ظفر کے سر پر اور بازوؤں پر بٹ مارنا شروع ہو گئے، وہ گولی کیوں نہ چلا سکے ما سوائے رحمت خدا کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ظفر بٹ کھانے کے باوجود اس کو دھکیلتا ہوا سامنے والے گھر کے دروازے تک لے گیا جہاں پر انہوں نے ظفر کو بٹ مارتے ہوئے پوری طاقت سے دھکا دیا، ان کا ساتھی ظفر کی گرفت سے نکل گیا اور ظفر زمین پر گر گیا، اس مڈبھیڑ میں گارڈ جس کو انہوں نے قابو کر کے اس کے ہاتھ باندھ دیے تھے، وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

ایک ہمسائے کو شور سنائی دیا، اس نے کھڑکی سے دیکھنا چاہا مگر دھند کے سبب کچھ دکھائی نہ دیا البتہ ظفر کی گرجدار آواز سنائی دی تو انہوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا اور پولیس ایمرجنسی پر کال بھی کردی۔ ان کے شور سے میں بھی جاگ گیا تو میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ظفر دروازہ کھول کر باہر گیا ہے۔ دروازے کھولتے ہوئے میں گیٹ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ظفر سامنے والوں کے دروازے کے پاس زمین سے کھڑا ہو رہا ہے۔

اس نے مجھے کہا کہ باہر مت آؤ لیکن میں باہر آ چکا تھا، تب اس نے بتایا کہ ڈاکو آ گئے تھے۔ ظفر کے خیال کے مطابق جب انہوں نے میرے گھرکا دروازے کھلنے کی آواز سنی تو ایک نے کہا کہ بھاگو اور وہ خالی پلاٹ میں سے ہوتے ہوئے میرے باہر آنے سے قبل ہی بھاگ نکلے، مجھے صرف چند گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ظفر کے سر سے خون بہت تیزی سے بہہ رہا تھا۔ اتنی دیر میں سیکورٹی گارڈ جو دوسری گلی میں بھاگ گیا تھا، واپس پہنچ گیا، دیگر محلے دار بھی اکٹھے ہو گئے۔

گارڈ میرے بھائی کی ڈاکوؤں سے گتھم گتھا ہونے کی روداد بتانے لگا۔ شیر شاہ چوکی کی پولیس پہنچ گئی اور پھر دیگر پولیس موبائل گاڑیاں بھی آ گئیں۔ عمومی طور پر ایسے واقعات میں پولیس کے دیر سے پہنچنے کی شکایت کی جاتی ہے مگر یہاں پولیس دس پندرہ منٹ میں پہنچ گئی۔ چوکی کا فاصلہ میرے گھر سے عمومی موسم میں بھی کوئی سات آٹھ منٹ کاہو گا، اب تو زبردست دھند بھی تھی۔ ظفر زندہ بچ گیا۔ پولیس، محلے دار سب نے اس کے یوں بچ جانے کو قدرت کا کرشمہ ہی قرار دیا۔

اس واقعے کے حوالے سے مجھ سے سی سی پی او لاہور اور ڈی آئی جی نے رابطہ کیا تو میں نے ان کو بتایا کہ ایل ڈی اے ایونیو ون میں وارداتوں کی وجہ سے میں نے چار پانچ روز قبل ایس پی صدر سے رابطہ بھی کیا تھا اور انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی تھی کہ پولیس گشت شروع کر دیا جائے گا مگر پولیس بیچاری نے کیا گشت کرنا ہے؟ جس موبائل پر شیر شاہ پولیس پہنچی، جب واپس جانے لگے تو اس کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا گیا، پولیس والوں نے بتایا کہ چار ماہ سے لاہور پولیس کا تو پٹرول ہی بند ہے۔

شیر شاہ چوکی جو نوے ہزار لوگوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، اس کی کل نفری محض 17 اہلکار ہیں۔ میرے کیس کے حوالے سے ایس پی انویسٹی گیشن صدر کو معلومات ہی نہیں۔ ایل ڈی اے نے ایل ڈی اے ایونیو ون کے نام پر 160 گارڈز بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ متعلقہ پولیس نے بتایا کہ ہم نے ان گارڈز سے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے رابطہ کیا تو ایل ڈی اے نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ایل ڈی اے اس سوسائٹی کے تمام پلاٹ بیچ چکی، رقم وصول کر چکی مگر اپنا وعدہ کہ اس سوسائٹی کے گرد چاردیواری ہوگی، گیٹ تعمیر ہوں گے ، پانی کے کنکشن ہوں گے ، وفا نہ کر سکی۔

اس واقعے کے میڈیا پر آنے کے بعد محترم نواز شریف، مختلف سفرا، سفارت کاروں اور دوست احباب نے خیریت دریافت کی۔ میڈیا اور تمام احباب کا شکر گزار ہوں۔ میں نے یہ سب کیوں بیان کیا؟ میں تو خوش نصیب ہوں کہ اپنے بھائی کو مقتول نہیں دیکھا مگر کتنے گھر روز ایسی وارداتوں میں اجڑ جاتے ہیں، کتنے گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ پولیس نے ایک ڈکیت گینگ پر شک ظاہر کیا کہ وہ حال ہی میں جیل سے رہا ہوا ہے اور یہ سب کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ موثر قانون سازی کون کرے گا؟ دھکا اسٹارٹ موبائل اور ساتھ میں پٹرول بھی بند، سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ لاہور کی بات ہے اور پھر ایل ڈی اے کی وعدہ خلافی، بات صرف ایل ڈی اے کی نہیں، دیکھنا یہ چاہیے کہ جو رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز سیکورٹی کے وعدے کرتے ہیں، وہ پورے بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ ریاستی ادارہ تو وعدہ پورا نہیں کر سکا۔ اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی گئی تو گھر اجڑتے رہیں گے اور بے گناہوں کا خون کس کی گردن پر ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments