پاکستان۔ حقیقی اقتدار اور مستقبل


اسلام کے نام پہ قائم کی گئی ایک ایسی ریاست جس کو روز اول سے برطانوی استعمار کی باج گزار عسکری اسٹیبلشمنٹ نے یرغمال بنا لیا تھا۔ پاکستان بنیادی طور پہ ایک Garrison State ہے جس کے ہر شعبہ ہائے زندگی پہ ہیئت مقتدرہ کی مکمل گرفت ہے۔ اس ملک کے فیصلہ کن طاقت کے حامل پالیسی ساز بھی یہی عسکری سیمنٹ و فوجی بناسپتی گھی والے ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی من پسند قومیت سازی Political Nationality کے لئے کام شروع ہوا اس کے لئے نصاب سازی سے لے کر تمام سٹیک ہولڈرز کو ان کے حصے کے سکرپٹ دیے گئے۔

علما کو استعمال کر کے مقننہ سے پہلا باقاعدہ کام کام یہ لیا گیا کہ نوزائیدہ ریاست کو ”قرارداد مقاصد“ کے ذریعے اسلامی چوغہ پہنا کر مملکت خداداد کو کلمہ پڑھا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک کی مقتدرہ جو کہ درحقیقت Military Top Brass ہے نے ملک کے سیاست، معیشت و بالعموم ریاست و سماج کے Power Structure میں اپنے آپ کو متعلق رکھنے کے لئے ہمہ جہت Security State Narrative ترتیب دیا جس کو جواز بخشنے کے لئے اولاً بھارت کو مستقل دشمن بنا کر پیش کیا گیا اور ہندو بنیے کو مسلمانوں کا مستقل دشمن بنا کر پیش کیا گیا اس طرح سے اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کر کے عوام الناس کو بھارت دشمنی پر مبنی سیکیورٹی سٹیٹ بیانئے کو اس قدر تقویت دی گئی کہ عوام میں یہ بات عقیدے کی حد تک راسخ ہو گئی کہ ہماری اصل نجات دہندہ یہی پاک فوج جس نے غزوہ ہند میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل کرنا ہے۔ اس طرح سے ایک آکٹوپس Deep State نے یہاں جڑیں مضبوط کیں۔ خارجہ پالیسی اسی حساب سے ترتیب دی جاتی رہی جس میں جغرافیائی و تزویراتی پوزیشن کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ کاروبار مملکت پہ گرفت مضبوط ہوئی تو Military Industrial Complex کا قیام عمل میں آیا۔

مسئلہ کشمیر پیدا کر کے اسے بطور خاص اس بیانیے کی ترویج کے لئے استعمال کیا گیا۔ آپریشن جبرالٹر کی صورت مس ایڈونچر سے بھارت کو 65 میں حملے کا جواز فراہم کیا اور پھر ملکی دفاع پر فاتح ٹھہرے۔ بنگالیوں کے ساتھ ان کی آبادی کے تناسب کے بر خلاف معیشت، بیوروکریسی و نظم حکومت تک استحصالی سو تیلا سلوک کر کے انہیں اس قدر متنفر کیا گیا کہ انہیں کراچی و اسلام آباد کی سڑکوں کی پٹ سن کی بو آنا شروع ہوئی نتیجتاً آدھا دھڑ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو بھٹو کے ذریعے تھما دیا گیا۔

پھر Geo۔ strategic Curse کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان جہاد میں اشتراکیت کے علمبردار دیسی و بدیسی سرخوں کے قبلہ مقدس سوویت یونین کی گرم پانیوں تک رسائی روکنے کے لئے انکل سام کے چھاپہ خانوں سے جہادی لٹریچر درآمد کر کے ڈالر جہادی تیار کیے گئے جو بعد میں وسیع تر ریاستی مفاد میں دہشتگرد قرار دیے گئے۔ نو گیارہ کے بعد پتھر کر دور میں دھکیل جانے کے ڈر سے روشن خیال ایس ایس جی کمانڈو عالمی طاقت کے آگے بغیر چوں چرا کیے لیٹ گیا اور پھر خدا خدا کر کے ڈالرز کی ترسیل کا دھندا بحال ہوا۔

اسی بیانئے کے پیش نظر جسٹس منیر کے ذریعے نظریہ ضرورت Doctrine of Necessity کی صورت آمریت کا قانونی جواز گھڑا گیا اس طرح فوج اور ریاستی سلامتی لازم و ملزوم ٹھہرے۔ بظاہر اسی مقدس مقصد کے لئے آئین کو بار بار پامال کیا جاتا رہا کہ ملک کی سلامتی سب زیادہ اہم ہے آئینی نظم بھی خطرہ بن جائے تو آئین جیسے ردی کے ٹکڑے کو ”سب سے پہلے پاکستان“ کے نعرے کے ساتھ کوڑے دان کی نذر کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ پھر نجات دہندہ ڈکٹیٹرز کی طرف سے مکے لہرا کر عوام کو ”دیکھا ہماری طاقت“ کے نعروں سے ریاستی رٹ کا نمونہ بھی پیش کیا جاتا رہا اس طرح پاکستان ایک Banana Republic کا درجہ اختیار کر گیا۔ حقیقتاً طوائف الملوکی عام ہو گئی جس کے طفیل روز اول سے یہاں ایک Anarchist Fascist Police State کے عملی مظاہر جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اس سارے کھیل میں جمہوریت کے نام نوزائیدہ ریاست میں مستقل و نادیدہ Military Regime قائم کیا گیا جس کی بدولت جمہوریت حقیقت میں اسٹیبلشمنٹ کے گھر کی لونڈی بن گئی جس میں لبرل و نیولبرل سرمایہ دار، قبائلی سردار، علاقائی نواب، وڈیرے، جاگیردار، سیاسی جج، کاروباری پیرو ملا، پیڈ صحافی، کارپوریٹ لبرل و مذہبی دانشور، تھینک ٹینکس اور انٹیلیجنشیا کی مذکورہ بالا فکر کے تابع باقاعدہ ذہن سازی کی گئی۔ تعلیمی اور ابلاغی اداروں پہ بیٹھے محب وطن لوفروں Super۔ patriots کے ذریعے اسی مخصوص طرز فکر پر رائے عامہ ہموار کی گئی۔

جمہوریت و Civilian Supremacy کے علمبردار کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کو تو صحیح معنوں میں کبھی اقتدار منتقل نہیں ہوا ہی نہیں۔ نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہو یا بقیہ علاقائی و صوبائی جماعتیں ہوں اس ملک کی بظاہر برسراقتدار تمام خاندانی و موروثی ”کارپوریٹ کمپنیوں“ یعنی سیاسی جماعتوں کو حقیقی معنوں میں کبھی حقیقی اقتدار منتقل ہی نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ عسکری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپنے اقتدار میں طے شدہ منصوبوں کے تحت انتخابات کے نام پہ درحقیقت Political Engineering کے ذریعے جس حد تک مناسب سمجھا اقتدار میں شامل کیا۔ ایسے میں بھٹو سے لے کر عمران خان تک تمام جمہوری مہاتما شریک اقتدار ہی رہے۔ حیرت ہے کہ فوج کے سویلینز کے ساتھ طے شدہ ”شراکت اقتدار“ کے فارمولوں کو ہمارے آزاد فکر دانشوران ہمیشہ جمہوریت کا نام دے کر سویلینز کو نا اہلی کا طعنہ دیتے رہے گویا یہ فی الوقعی حقیقی جمہوری حکومتیں رہی ہوں۔

دنیا گلوبل ویلج بن چکی اب تو عالمی حکومت کے قیام کی باتیں ہنری کسنجر جیسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے اور برطانیہ جیسے جمہوریت کے پنگھوڑے کے وزیر اعظم کے ہاں سے بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ عالمی حالات بدل چکے ہیں مگر طاقت کا ارتکاز اب بھی اسی طبقے کے ہاں ہے۔ البتہ حالات کے پیش نظر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی طریقہ واردات بدل چکی پہلے براہ راست آمریت مسلط کرنا آسان سمجھا جاتا تھا اب Soft Image قائم کرنے کے لئے سویلین حکومتوں کی صورت کٹھ پتلی بٹھا کر تماشا بھی ہو جاتا ہے اور مفادات کی تکمیل بھی مرضی کے مطابق ہو جاتی ہے ایسے میں تماش بین تو حسب سابق لطف اٹھا ہی رہے ہیں۔ البتہ ہمارے سیاسی اسلام کے علمبردار اور سوشلسٹ انقلابی عملی سیاست سے دور کہیں نہ کہیں نظریاتی طبع آزمائی میں مصروف عمل ہیں۔

کہیں نہ کہیں نظریاتی تبدیلی کی موہوم امید باقی ہے مگر معروضی حالات ایسے ہیں کہ روایت پرست رجعتی مذہبی طبقہ تابناک ماضی کی افیم پئے ہوئے مست الست ہے اور معجزاتی طور پہ انتہائی تنزلی کے دور میں ”حکومت الہیہ“ کے قیام کا سہانا خواب دیکھ رہا ہے۔ جبکہ ہمارے سوشلسٹ انقلابی کامریڈز یوٹوپیائی کمیونسٹ ریاست (جو کہ میرے نزدیک تاریخی جدلیات کی موت ہے ) کے لازمی قیام پر مصر نظر آتے ہیں۔ البتہ مستقبل قریب میں کسی بڑی تحریک کے برپا ہونے کے آثار و امکان نظر نہیں آ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments