دینا جناح: رتی اور جناح کی محبت کا تنہا پھول


رتی اور جناح کی محبت کی ابتدائی داستان کچھ اساطیری سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر اس کا انجام کچھ ایسا دردناک کہ جیسے کسی باد سموم نے الفت کے چمن کو نیست و نابود کر دیا ہو۔ بس اس محبت کی شاخ پہ کھلا ایک تنہا پھول ہی رہ گیا۔ جی ہاں جناح اور رتی کی مکمل طور پہ نہ پنپنے والی محبت کی کہانی کی واحد نشانی ان کی بیٹی دینا تھیں جو اپنی ذات میں بھرپور، ماں کی طرح شوخ و چنچل، زندگی سے بھرپور اور والد کی طرح عزائم میں پختہ ہونے کے باوجود خاص کر پاکستانیوں کے لیے، ایک معمہ اور موت کے بعد بھی متنازعہ شخصیت رہیں ہیں۔

بہت سوں کی نظر میں ایک غیر مسلم پارسی نژاد عیسائی شخص سے شادی کرنے اور نافرمانی کی وجہ سے انہیں ان کے باپ نے عاق کرنے اور ترک تعلق کی سزا دی۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ دینا نے اپنے والد کو صرف مرنے کے بعد ہی دیکھا۔ یہ مضمون کچھ ایسی ہی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی کیا عجب اتفاق ہے کہ جناح کی ذات سے وابستہ دینا اور پاکستان دو اہم تخلیقات ہیں۔ دونوں ہی ماہ اگست میں ایک ہی تاریخ کو عمل میں آئیں۔ پاکستان چودہ اگست 1947ء کو وجود میں آیا اور جناح ”بابائے قوم“ یعنی قوم کے باپ کہلائے۔ لیکن اس سے عین 28 سال قبل ان کو ”پاپا“ پکارنے والی ایک بچی نے بھی چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب 1919ء میں اپنی پہلی سانس لی تھی۔ بچی کی پیدائش لندن میں اس وقت ہوئی جب رتی اور جناح تفریح کی غرض سے کسی تھیٹر میں تھے۔ 13 اگست کی رات رتی کو درد زہ محسوس ہوا۔ بچی متوقع تو تھی مگر وہ تو وقت سے پہلے ہی دنیا میں آ گئی تھی۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اکثر تاریخ دان ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی آفرینش کے فیصلہ کو بھی عجلت میں کیا گیا فیصلہ گردانتے ہیں۔

Ruttie Jinnah

جناح کی پہلی شادی سولہ سال کی عمر میں ان کی ماں کی پسند سے اس وقت ہوئی تھی جب وہ بزنس اعلی تعلیم کے لیے برطانیہ جا رہے تھے۔ بہت سی ماؤں کی طرح ان کی والدہ نے بھی چاہا کہ جانے سے پہلے وہ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں لہٰذا لندن رخصتی سے قبل ان کی شادی چودہ سالہ کاٹھیا واڑی کزن ایمی بائی سے 1892ء میں کر دی گئی۔ بدقسمتی سے جناح کی بیوی کا انتقال ایک سال کے اندر ہی ہو گیا تھا۔ اس وقت جناح لندن میں تھے۔ بیوی اور بعد میں ماں کی موت اور ایک نئے ملک کے سخت تجربات نے انہیں اپنے خول میں بند، اظہار کے تکلف سے آزاد، سرد مزاج اور تنہا انسان بنا دیا۔

گو وہ لندن بزنس کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے مگر اس وقت کی سیاسی صورتحال اور ہندوستان پہ سامراجی تسلط نے انہیں قانون کی تعلیم پہ مائل کیا۔ اس طرح وہ ایک نامی گرامی وکیل کے طور پہ پہچانے گئے۔ ان کی پہچان سچ اور اصولوں پہ نہ جھکنے والے وکیل کی طور پہ تھی۔ قانون کی کامیاب پریکٹس نے انہیں دولت مند اور آنے والے وقت نے مسلمانوں کا مقبول لیڈر بھی بنا دیا۔ باوجود والد کی خواہش کے انہوں نے واپس کراچی جانے کے بجائے بمبئی جانے کا فیصلہ کر لیا۔

جناح کی دوسری شادی بیس سال بعد اپریل 1918ء میں بمبئی کی پارسی خوبرو اور عمر میں ان سے چوبیس برس چھوٹی، رتی بائی سے ہوئی۔ یقیناً جناح کی بظاہر جذبات سے عاری، سرد شخصیت کو زندگی سے بھرپور، پر مذاق، حسین اور پرکشش رتی ہی جھنجھوڑ سکتی تھیں۔ ان کو اپنانے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ عمر، مذہب اور اقدار کی تفریق کے باوجود جناح نے رتی سے شادی کے فیصلہ کو متزلزل نہ ہونے دیا۔ وہ ہر صورت میں بمبئی کے اس پھول کو اپنی تنہا زندگی میں سجانے میں ثابت قدم رہے۔

مذہب اور عمر کے فرق کی وجہ سے رتی کا ان کے والدین ہی نہیں پوری پارسی کمیونٹی نے بھرپور سماجی بائیکاٹ کیا۔ اور نکاح کے دن، انیس اپریل 1918 ء کو ”بلیک فرائیڈے“ قرار دیا۔

شادی کے تقریباً سوا سال بعد بچی کی دنیا میں آمد ایک اہم دن تھا۔ دینا کی پیدائش کے وقت انیس سالہ کم سن زچہ رتی بائی کا کوئی عزیز و اقارب موجود نہیں تھا۔ عموماً پہلی اولاد کے وقت مائیں بیٹی کا جذباتی سہارا ہوتی ہیں لیکن پارسی کمیونٹی کے بائیکاٹ اور دباؤ کی وجہ رتی اور جناح اس اہم سہارے سے محروم تھے۔

نئے والدین اپنی نومولود بیٹی کو اسٹیمر میں لے کر ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پہ واقع بمبئی کے مینشن میں وطن واپس آئے۔ بڑے سے اس گھر میں ایک علیحدہ حصہ بچی کی نرسری کے لیے مختص تھا جہاں کئی نوکر چاکر بچی کی دیکھ بھال پہ مامور تھے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خارج نہ ہوگی کہ والدین بچی کے کسی نام پہ متفق نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے ”صوفیہ“ نام تجویز کیا تھا جو رتی کو قبول نہیں تھا۔ کئی تحقیقی ذرائع کے مطابق نو سال کی عمر میں بچی نے خود اپنا نام ”دینا“ اسکول میں داخلہ کے وقت منتخب کیا۔

رتی کے انتقال کے وقت دینا کی عمر نو سال برس تھی۔ باوجود اس کے کہ رتی اپنی موت کے وقت جناح سے الگ تھیں۔ وہ ان کی مصروفیت اور بے اعتنائی سے شاکی اور افسردہ ہونے کے باوجود آخری ساعتوں تک اپنے محبوب شوہر کی توجہ کی متمنی رہیں۔ اس بات کا اندازہ ان کے جناح کو لکھے اس آخری خط سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے پیرس جاتے ہوئے ایک بحری جہاز کے سفر کے دوران لکھا۔ (اس شاعرانہ خط کا ترجمہ شاعرہ شاہدہ حسن نے کیا جو شکریہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ )

ایس۔ راجپوتانہ
5 اکتوبر 1928، مارسیلیز
ڈارلنگ!
بہت بہت شکریہ ہر اس بات کا جو تم نے میری خاطر کی ہے۔

اگر کبھی بھی میرے اور تمہارے اس تعلق میں، میری جانب سے کوئی بھی بد مزاجی یا ناخوشگواری تم نے محسوس کی ہو تو یقین رکھنا میرے دل میں تمہارے لئے صرف اور صرف اک بے حد نرم و ملائم جذبہ اور گہرا احساس درد موجود تھا۔ اے میری جان! تمہارے لئے احساس درد، تمہیں کوئی بھی دکھ دیے بغیر۔

میرے پیارے، جب کوئی انسان زندگی کی اتنی بڑی حقیقت (جو یقیناً موت ہے) کا سامنا کر رہا ہو جیسا کہ میں کر رہی ہوں، تو اسے زندگی کے صرف خوبصورت اور لطیف لمحات یاد رہ جاتے ہیں۔ باقی ساری باتیں اس کے تصورات و خیالات کی ہلکی ہلکی دھند کے پردے میں کہیں اوجھل سی لگنے لگتی ہیں۔

کوشش کرنا جانی کہ تم مجھے یوں یاد رکھو جیسے تم نے شاخ پر کھلا کوئی پھول توڑ لیا تھا۔ یوں نہیں جیسے تم نے کسی شگوفے کو اپنے قدموں تلے روندا ہو۔

میرے محبوب وجود! میں نے بہت دکھ اٹھا لئے کیونکہ میں نے تمہیں ٹوٹ کر چاہا ہے میری ساری اذیت، میرے عشق کی انتہاؤں کے مطابق ہی تو ہے۔

میرے پیارے! میں تمہیں بہت زیادہ چاہتی ہوں، حد سے سوا پیار کرتی ہوں تم سے۔ اگر میں نے تم سے ذرا بھی کم پیار کیا ہوتا تو میں تمہارے ساتھ ہی رہتی کیونکہ جب کوئی اک خوبصورت و حسین پھول تخلیق کرتا ہے تو وہ اسے کیچڑ اور مٹی میں نہیں ملنے دیتا۔

آپ اپنی آرزوؤں کو جتنا بلند کرلیتے ہیں وہ اتنی ہی بلندی سے نیچے گرتی ہیں۔
جانی!
میں نے تم سے اس قدر پیار کیا ہے کہ ایسا پیار بہت ہی کم مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب تم سے صرف اتنی التجا ہے کہ ہماری محبت کو جو المیہ اس وقت درپیش ہے، اس کا اختتام بھی اسی احساس محبت پر ہونا چاہیے۔

شب بخیر، ڈارلنگ
اور خدا حافظ
رتی جناح کی طرف سے

اس خط میں جناح کی بے اعتنائی کا شکوہ اور بے مہری کا دکھ نمایاں ہے۔ اور ان کی یاسیت اور موت کی چاپ صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ یہ متاثر کن شاہکار تحریر ہے۔ جس کو پڑھ کے کسی کا بھی دل پگھل سکتا ہے۔ لیکن جناح نے غالباً اپنی سیاسی مصروفیت کی وجہ سے جوابی خط نہیں لکھا۔ ویسے بھی اس وقت دونوں علیحدگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ حتی کہ رتی نے اپنی انتیسویں سالگرہ والے دن موت کو گلے لگا لیا۔ ان کے والد نے شادی کے بعد پہلی دفعہ جناح سے فون پہ رتی کی نازک حالت کی خبر دی۔ شاید موت کی خبر سنانے کا یارا نہ رہا ہو۔ خبر سن کر جناح ٹرین کے سفر میں سوار ہوئے۔ سفر میں وقت لگنے کی وجہ سے سرد خانے میں پڑے رتی کے جسد خاکی نے دو دن تک مٹی میں ملنے کا انتظار کیا۔ جناح نے شوہر کی حیثیت سے دفن و کفن اسلامی طریقے سے کیا۔

رتی کی اس جوان مرگ دردناک موت کا سبب آخر کیا ہو سکتا ہے۔ پارسی کمیونیٹی کہ جس نے کمسن رتی کا مسلمان مرد سے شادی کی پاداش پہ مکمل سماجی بائیکاٹ کیا، یا جناح کی سیاسی مصروفیت کی وجہ سے ان کی بے اعتنائی یا ذہنی ہم آہنگی کا فقدان؟ یقیناً ان سب کے ملاپ نے ہی اس شدید اسٹریس کو جنم دیا جسے جدید طب میں بیماریوں کی سب سے جڑ گردانا جاتا ہے۔

فروری 1929ء میں اپنی ماں رتی کے انتقال کے بعد جناح کی ان سے سترہ سال چھوٹی بہن فاطمہ جناح بھتیجی کی تربیت اور دیکھ بھال کے خیال سے بھائی کے گھر منتقل ہو گئیں تھیں۔ جناح کے شوفر کے مطابق جناح چاہتے تھے کہ فاطمہ جناح بچی کو اسلامی تربیت اور قرآن کی تعلیم بھی دیں۔ بمبئی میں ایک سال تک دینا ایک بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ 1930 ء میں قائد اعظم اپنی بیٹی دینا اور بہن فاطمہ جناح کو اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلم لیگ میں اندرونی انتشار کی وجہ سے جناح نے عارضی طور پہ سیاست تیاگ کر لندن بسنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

لندن میں ان کا ایک عالیشان گھر تھا۔ دینا ایک پرائیویٹ بورڈنگ اسکول بھیجی گئیں۔ یہاں جناح نے اپنی اولاد کی ہر خواہش کو پورا کیا۔ وہ بچی کو تھیٹر میں مشہور کھیل اور سینما دکھانے لے جاتے۔ اور جس خواہش کا اظہار کرتیں بلا تامل پوری ہو جاتی۔ ڈینا کے مطابق ان کے والد کو ترکی مشہور لیڈر کمال آتا ترک کی سوانح ”گرے وولف“ جو ایچ سی آرمسٹرانگ نے لکھی، بہت پسند تھی جس کا وہ اپنی گفتگو میں بارہا اس کتاب کا ذکر کرتے۔ جس پر تیرہ سالہ دینا نے ان کو پیار سے چھیڑتے ہوئے ”گرے وولف“ ہی کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ ان کی اس قدر پسندیدگی سے لگتا ہے جیسے وہ کمال آتا ترک کی حکمت عملی کو اپنانا چاہتے تھے۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ سیکولر ترکی کے صدر کمال اتا ترک کی شخصیت کے اس قدر معترف بانی پاکستان جناح کے ذہن میں کیا ایسی اسلامی مملکت پاکستان کا تصور بھی کہیں تھا جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں؟

لندن میں ساتھ گزارا دورانیہ یقیناً دونوں باپ بیٹی کے لیے جذباتی آسودگی کا بہترین وقت رہا ہو گا۔ گو دینا بورڈنگ اسکول میں تھیں مگر جب گھر آتیں تو باپ کے ساتھ وقت گزارتیں۔ اور لاڈ اٹھواتیں۔ صبح کی چائے وہ جناح کے ساتھ ان کے بستر کے ایک کونہ پہ بیٹھے ہوئے پیتیں۔ ناشتہ نو بجے ہوتا اور ہفتہ اور اتوار کو وہ دونوں چہل قدمی کو ساتھ نکلتے۔

دینا مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتیں تھیں اور ان کی خواہشات اور اخراجات بھی ویسے ہی شاہانہ تھے۔ جناح بھی بلا تامل بیٹی کی ہر خواہش پوری کرتے۔ دینا زندہ مزاج اور تفریحات کی شوقین تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ پانچ سال اسکول میں داخل رہنے سے باوجود اسکول میں کامیابی کی سند نہ حاصل کر سکیں۔ لندن میں ساتھ گزارا جانے والا یہ وہ سنہرا وقت تھا جس کی کمی کا شکوہ جناح سے رتی کو تادم مرگ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ رتی کی موت کے بعد جناح کو اپنی بے اعتنائی کا احساس ہوا ہو اور سیاست کو تیاگ کر دینا کے ساتھ لندن میں گزارے تین سال اس ندامت کو مٹانے کی کوشش ہو۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو اس دوران باپ اور بیٹی کا مضبوط ناتا جڑا جو آخری سانسوں تک قائم رہا۔ دینا نے مختلف انٹرویوز میں اپنے والد کو ”گرم جوش، محبتی اور سویٹ انسان“ قرار دیا۔

Dina on her wedding day

باپ بیٹی کے ساتھ گزرے فرصت کے لمحات وقت کی مٹھی سے ریت کی طرح نکل گئے۔ انڈیا سے مسلم لیگ کے حامیوں کا جماعت کو منظم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ چکا تھا۔ اور ان کی غیر موجودگی میں ہی انہیں مجلس قانون ساز اسمبلی کا تاحیات رکن منتخب کر لیا تھا۔ بالآخر جناح نے 1934 ء میں بمبئی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ دینا کا اپنے پاپا کے ساتھ گزارا وقت خوشگوار یادیں بن گیا۔ جبکہ آنے والے وقت میں جناح ”بابائے قوم“ کہلائے۔ اس طرح دینا سے ان کی ماں کو بیماری نے اور باپ کو سیاست نے چھین لیا۔

ہندوستان واپس آنے کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کی مالک رہیں۔ اس سلسلے میں جناح کے ڈرائیور سید عبدالحئی کا کہنا ہے کہ ”محمد علی جناح کے پاس پانچ گاڑیاں تھیں دینا جناح کو کار چلانے کا بہت شوق تھا۔ جناح صاحب مجھے منع کرتے کہ دینا کو کار چلانے کے لیے مت دیا کرو۔ لیکن دینا اکثر مجھ سے ضد کر کے کار لے لیتی تھیں اور بمبئی کے مضافات کی سڑکوں پہ بہت تیز ڈرائیونگ کرتی تھیں۔ ان کو موسیقی اور عمدہ کپڑوں کا بھی بہت شوق تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح دینا کے بارے میں سوال کرتیں کہ وہ کہاں گئی تھیں اور انہوں نے کیا خریدا؟ جناح صاحب بھی اکثر مجھ سے پوچھتے کہ کیا دینا نے گاڑی چلائی تھی؟ مگر میں ہمیشہ جھوٹ بول دیتا تھا۔“

سیاست بھی ایک نشہ کی طرح ہوتی ہے۔ پھر اس زمانے میں کہ جب انگریزوں کے تسلط کے خلاف ہندوستان میں آزادی کا مطالبہ نعرہ سے بڑھ کے عملی سیاست میں داخل ہو چکا ہو۔ دو قومی نظریہ کے تحت مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مقدمہ قانون کے ماہر وکیل محمد علی جناح سے بہتر کون لڑ سکتا تھا۔

1936ء میں دینا بھی واپس والد کے پاس بمبئی لوٹ آئیں۔ اور یہ وہ وقت تھا کہ جناح نے اپنی سیاسی سرگرمیوں اور عدیم الفرصتی کی وجہ سے دینا کو ننہال کی سرپرستی میں دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ گھرانا جس سے جناح کا تعلق کئی سالوں منقطع رہنے کے بعد رتی کی موت نے جوڑا۔ ننہال میں دینا کو بھرپور محبت کے ساتھ اس گھرانے کی ثقافت اور اقدار بھی ملیں۔ مغربی اقدار اور پارسی مذہب پہ عمل پیرا، یہ گھرانا بمبئی کا با اثر، متمول اور جناح کے خاندانی اقدار سے مختلف تھا۔ عمر کے تفاوت کے علاوہ مذہب کا فرق جناح اور رتی کی شادی میں اہم تنازعہ کی وجہ بنا تھا۔

لیکن جناح کو نہیں معلوم تھا کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے والی ہے۔ اس دفعہ وقت نے انہیں اسی دوراہے پہ کھڑا کر دیا تھا جہاں بیس سال قبل رتی اور ان کے والد ڈنشا پٹیٹ کھڑے تھے۔ کہ جب پارسی گھرانے کی بیٹی اپنے سے چوبیس سال بڑے ایک مسلمان وکیل سے شادی کرنے کے لیے خاندانی بندھن توڑنے کو تیار تھی۔ اس نے محبوب کی محبت میں مذہب اور والدین کو چھوڑ دیا۔ آج اسی باغی مزاج، مرضی کی مالک رتی کی بیٹی دینا اپنے باپ کے مد مقابل تھیں۔ وہ بھی اپنے باپ کی طرح اپنے عزائم میں مضبوط تھیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اپنے سے آٹھ سال بڑے پارسی نژاد عیسائی، متمول اور خوبرو نوجوان نیول واڈیا کی محبت میں گرفتار اور اپنے والد سے اس شادی کی اجازت کی طلب گار تھیں۔ محبت کے طوفان کی شدت کہاں تک لے جا سکتی ہے اس کا اندازہ خود جناح کو اچھی طرح ہو گا۔ دو دہائی قبل اسی وارفتگی کے عالم سے وہ خود گزرے تھے۔

لیکن بیس سال میں سیاست اپنے پینترے بدل چکی تھی۔ وقت آگے بڑھ گیا تھا اور رتی کی موت اور ان کی خانگی زندگی کے خاتمے کے بعد جناح کی توانائی کا محور مسلم لیگ کی رہنمائی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا حصول بن چکا تھا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کردار کی ادائیگی کے لیے لباس کے انتخاب میں بھی رد و بدل کیا۔ اب ان کی وارڈ روب میں برطانوی لباس کوٹ اور پینٹ کے ساتھ شیروانی، شلوار اور پاجامے اور مخصوص جناح کیپ کا اضافہ ہو چکا تھا۔ جسے انہوں نے پہلی بار لکھنو میں ہونے والی انڈین مسلم کانفرنس میں 1937 ء میں اسلامی شناخت اور یکجہتی کے اظہار کے طور پہ پہننا شروع کیا تھا۔

جناح کو بخوبی اندازہ تھا کہ ان کی بیٹی کا کسی غیر مسلمان سے شادی کا فیصلہ اور ان کا اس کی اجازت دینا ان کے سیاسی کیریر میں تہلکہ مچا سکتا تھا۔ اسلامی شرع میں مسلمان لڑکی کا غیر مسلمان سے رشتہ جائز نہیں۔ اس سلسلے میں محمد علی جناح کے ماتحت جسٹس محمد علی کریم چھاگلہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ ”جناح نے پوچھا انڈیا میں لاکھوں مسلمان لڑکے ہیں کیا ایک وہی تمھارا منتظر تھا؟ اور دینا نے جواب دیا“ انڈیا میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں تھیں۔ آپ نے میری ماں سے ہی کیوں شادی کی؟ ”جس پر جناح کا کہنا یہ تھا کہ“ رتی نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ”لہٰذا دینا کو شادی کی اجازت اسی صورت میں مل سکتی ہے اگر نیول واڈیا اسلام قبول کر لیں۔ تاکہ بیٹی کا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہو سکے۔ دینا نے نیول کے سامنے اپنے والد کی شرط رکھی جو انہوں نے مسترد کردی۔ انہوں نے پہلے ہی پارسی باپ کے مذہب کو چھوڑ کے ماں کے عیسائی مذہب کو قبول کیا تھا۔

Ruttie Grave

اس معاملہ کو سلجھانے کے لیے جناح نے مولانا شوکت علی کو ذمہ داری دی کہ وہ دینا سے گفتگو کر کے انہیں اسلام اور شریعت کے متعلق سمجھانے کی کوشش کریں تاکہ وہ اس فیصلہ پہ نظرثانی کر سکیں۔ مگر دینا اپنے فیصلے میں اٹل تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ دینا کا خیال یہ ہو کہ شادی کے بعد باپ کو تو منایا جاسکتا ہے لیکن کھوئے ہوئے محبوب کو پانا مشکل ہے۔ شاید یہی سوچ کے انہوں نے والد کو اپنی نیول واڈیا سے شادی کے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ جس کے بعد باپ اور بیٹی کے راستے بدل گئے۔ بقول دینا کہ جناح سے ان کے واحد اختلاف کی وجہ ان کی شادی کا انتخاب تھا۔

جناح کے لیے دینا رتی کی نشانی، ان کی واحد اولاد اور زندگی کا محور تھیں۔ انہوں نے انہوں نے دینا کو اپنی محبت کا یقین دلاتے شادی شدہ زندگی میں مذہبی تفریق کی وجہ سے حائل اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے بیٹی کو اپنے فیصلہ سے آگاہ کر دیا کہ ”اگر تم نے جان بوجھ کر برضا و رغبت ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو تم شرع محمدی کے مطابق مسلمان نہیں رہ سکتیں۔ تم مرتد قرار پاؤ گی۔ اسلام خون کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اس لیے اس کے بعد تم میری اصطلاحی بیٹی تو شاید کہلا سکو۔ لیکن درحقیقت تم میری بیٹی اور میں تمہارا باپ نہیں رہ سکتا“ ۔ باپ کے فیصلہ نے بیٹی کو آبدیدہ کر دیا۔ اور وہ سسکیاں سے رو پڑیں۔ جناح خاموشی سے کمرے سے نکل گئے۔

جناح لاکھ جذبات پہ قابو رکھنے والے سرد مزاج انسان سہی اس فیصلہ نے انہیں جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ منٹو کی مشہور کتاب گنجے فرشتے میں ان کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد کے مطابق انہوں نے دو ہفتوں کے لیے خود کو کمرے میں قید کر لیا۔ لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دیا۔ اس دوران وہ سگار پھونکتے، اور پریشانی میں ٹہلتے ہوئے سیکڑوں میل چلتے رہے۔ لیکن جب دو ہفتے بعد وہ کمرے سے باہر آئے تو ان کا چہرے کے تاثرات معمول کے مطابق نارمل تھے۔ یقیناً نوجوانی میں کالج میں شیکسپئیر کے ہیرو کا کردار کامیابی سے ادا کرنے والے جناح کو اپنے جذبات کو چھپانے پہ ملکہ حاصل تھا۔ جب پندرہ نومبر 1938 ء میں بیٹی کی شادی ایک چرچ میں ہوئی تو باپ نے اس موقع پہ اپنے ڈرائیور کے ہاتھ پھولوں کا گلدستہ بھجوایا۔

یہ کہنا درست نہیں کہ انہوں نے اس شادی کی وجہ سے بیٹی کو جائیداد سے عاق کر دیا تھا۔ اور پھر کبھی نہ ملے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی آخری اور حتمی وصیت (تیس مئی 1939ء) کے مطابق انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک حصہ (دو لاکھ) اپنی بیٹی کے لیے مختص کیا۔ جس کی چھ فی صد کے حساب سے ہونے والی ہزار روپے کی آمدنی ماہانہ کی تاحیات ادائیگی کی ہدایت کی۔

جہاں تک جناح اور دینا کے درمیان ترک تعلق کی بات ہے تو یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔ جناح نے کچھ سال بیٹی سے تعلقات میں ضرور اجتناب کیا۔ وہ مسلم لیگ کی تحریک کے مصروف ترین سال تھے۔ باپ کے فطری محبت کے جذبات، سیاسی مصلحتوں اور تحفظات پہ غالب رہے۔ تاہم یہی وہ وقت تھا کہ جب دینا کی شادی میں دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ ایسے میں نانا ڈنشا پٹیٹ کے مرنے کے بعد رتی کی سامنے ایک باپ ہی تھا جو لاکھ خفا سہی مگر چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ دینا کی جانب سے جناح کو بارہا کی جانے والی ٹرنک کالز کے پیغامات اور خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی۔

مثلاً رتی نے اپریل 1941 ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران بیماری کا سنکر والد کو ٹیلی گرام کیا۔ پھر جولائی 1943ء میں جناح پہ ایک مسلمان کے چاقو سے قاتلانہ حملہ کی خبر سنکر انہوں نے فکر مندی سے فون کیا اور پوچھا کہ کیا وہ محفوظ ہیں اور یہ کہ وہ انہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ جس پر جناح نے آنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا ”آف کورس“ ۔ جس کے بعد دینا ان سے فوراً ملنے گئیں۔

شادی کے چھ سال بعد دینا کی شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی۔ اس وقت دینا کے دو بچے ڈائنا واڈیا اور نصلی واڈیا تھیں۔ دونوں بہت کم عمر تھے۔ جون 1946ء میں جب جناح مذاکرات میں شرکت کے لیے بمبئی آئے تو انہوں نے بیٹی کو چائے کی دعوت دی۔ دینا کی بیٹی ڈائنا کی عمر اس وقت پانچ سال اور بیٹا دو سال کا۔ اس ملاقات میں جناح کی گفتگو کا محور پاکستان اور دینا کے بچے تھا۔

چلتے وقت جب وہ نصلی کو پیار کرنے کے لیے جھکے تو ان کی مشہور زمانہ جناح کیپ نواسے کے ہاتھ میں آ گئی۔ انہوں نے بہت محبت سے کہا میرے بیٹے! یہ تمھاری ہوئی۔ یہ جناح کی اپنی بیٹی اور ان کی اولاد سے آخری ملاقات تھی۔

پاکستان کی آزادی کی خبر جناح نے بیٹی کو فون پہ دی۔ بقول دینا انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا۔ ”ہمیں مل گیا۔“ میں نے کہا ”کیا مل گیا؟“ انہوں نے کہا ”پاکستان“ ۔ میں نے کہا ”آپ نے اس کے لیے بہت محنت کی ہے۔“ ”چودہ اور پندرہ اگست کی شب دینا کی سالگرہ تھی اس دن انہوں نے اپنے گھر دو جھنڈے لہرائے تھے۔ ایک انڈیا اور دوسرا پاکستان کا جھنڈا۔

چونکہ تقسیم کے بعد دینا نے پاکستان جانے کے بجائے انڈیا میں ہی رہائش کو ترجیح دی تھی لہٰذا اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انہیں اپنے والد کی زندگی میں پاکستان آنے کی اجازت نہ ملی۔ لیکن جناح کی وفات پہ 12 ستمبر 1948ء کو ایک خصوصی ہیلی کاپٹر سے وہ پاکستان آئیں اور اپنی پھوپھی کے ساتھ آخری رسومات میں شرکت کی۔ دوسری بار وہ 2004 ء میں پاکستان آئیں۔ اس دورے میں انہوں نے والد کی قبر پہ کچھ دیر تنہائی کے کچھ لمحات گزارے۔ اور اپنے تاثرات رقم کرتے جناح کے خوابوں کے پاکستان کی دعا کی۔

ڈینا ساری عمر پاکستان اور انڈیا کی سیاست اور میڈیا کا سامنا کرنے سے گریز کرتی تھیں۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ پورے طور نہ انہیں پاکستان نے اپنایا اور نہ ہندوستان نے۔ ہندوستان کے حکومت کے لیے وہ باوجود انڈیا میں پیدا ہونے کے ایک مسلمان لیڈر محمد علی جناح کی بیٹی تھیں۔ جسے ہندوستانی اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ اور پاکستانیوں نے انہیں عیسائی سے شادی کرنے اور بابائے قوم کی حکم عدولی کی پاداش میں پورے طور معاف نہ کیا۔ یوں جناح اور رتی کی محبت کے واحد پھول نے نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں تنہا زندگی گزارتے ہوئے دو نومبر 2017ء کو اٹھانوے برسکی عمر میں اپنی آخری سانسیں لیں اور یوں دیار غیر نے ان کے وجود کو ہمیشہ کے لئے اپنا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments