دادی الینا، چاند کے تمنائی اور پشمینے کی رات


گیارہ اگست یعنی صاحب کی سالگرہ تو ایڈوانس میں منائی جا چکی تھی تو سوچا کہ پھر اب کیا کیا جائے، فیصلہ ہوا کہ کھانا لیتے ہیں اور کسی جھیل کنارے جا بیٹھتے ہیں۔ یوں بھی دنیا کے جس خطے کو اللہ نے دنیا کی باسٹھ فیصد جھیلیں دان دی ہوں وہاں شہر میں ہی کوئی پانی کا کنارا ڈھونڈنا مشکل نہیں سو ہم نے اپنی پکنک کی ٹوکری میں پلیٹیں اور چمچے پیک کیے، پانی کی بوتلیں ڈالیں کھانا اٹھایا اور جھیل کنارا ڈھونڈتے ہوئے پورٹ کریڈٹ پہنچ گئے۔

موسم بڑا ہی خوبصورت تھا، دھوپ آہستہ سے سمٹ رہی تھی نہ ہی گرمی میں حدت تھی اور نہ ہی ہوا میں خنکی، گلابی ہوتی شام میں جھیل کنارے کئی رنگ مل رہے تھے۔

کنارے پہ اکا دکا لوگ چہل قدمی کر رہے تھے، بھوک جاگ چکی تھی اور گرما گرم چکن چلی اور چاول کی اشتہا انگیز خوشبو نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا، ہم نے ٹوکری میں سے کھانا نکالا اور پلیٹوں میں ڈال کے بچوں کو دیا، یحییٰ کو ہم کھلا رہے تھے۔ جھیل کنارے بنے مضبوط چھپر کے نیچے آمنے سامنے پڑی بینچوں پہ بس ہمارا ہی راج تھا کہ ایک طرف سے انگوری کوٹ میں ملبوس لاٹھی ٹیکتے ہوئے خراماں خراماں ایک قدرے نحیف لیکن مہربان سا وجود ہمارے سامنے آ بیٹھا۔

سر کے مبہم سے اشارے سے ہیلو ہائے ہوئی، سنہرے سے بال اور جیکٹ کا ہڈ سر تک اوڑھے دبلی پتلی سی وہ ستر کے پیٹے میں تو ہوں گی، غالباً ٹانگوں کی کمزوری کی بنا پر وہ دو چھڑیوں کا سہارا لیتے ہوئے آئی تھیں، جس چیز نے ہماری توجہ ان کی طرف کھینچ لی تھی وہ تھا ان کا نائیکون کا کیمرہ اور اس کہ ساتھ ٹرائی پوڈ۔

ہم منظروں کے دل دادہ ہیں، ہمیں فوٹوگرافی کا بے حد شوق ہے، ہر حسین فریم اپنی طرف توجہ مرکوز کروا لیتا ہے لیکن بھاری بھرکم چیزوں کو ساتھ لے کے چلنا ہمیں ہمیشہ ایک چیلنج لگتا ہے، اور یہاں یہ ایک ضعیف خاتون تھیں جو شوق کے ہاتھوں یوں کیمرہ لیے لاٹھی ٹیکتے ہوئے جھیل کنارے چلی آئی تھیں۔

یحییٰ کو رغبت سے کھاتے دیکھا تو کہنے لگیں، باہر آ کے بچوں کی بھوک کھل جاتی ہے، ہم نے انہیں ساتھ کھانے کی پیشکش کی جو انہونے نے شکریہ کے ساتھ رد کے دی کہ وہ ”سپر“ چھ بجے ہی کر لیتی ہیں، یہاں ڈنر کے بجائے سپر کیا جاتا ہے جو شام کے وقت نمٹ جاتا ہے اور اکثریت نو دس بجے تک سو جاتی ہے۔

بات چیت شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کا نام ”الینا“ ہے، پیشے کے اعتبار سے ٹیچر رہی ہیں، تین بچے ہیں جو الگ الگ جگہ آباد ہیں، اور بچوں کے بچے ہمارے بچوں کے برابر ہیں۔

مزید بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ آج پندرہویں کا چاند ہے اور وہ چاند دیکھنے یہاں آئی ہیں، پورٹ کے اس کنارے سے چاند کے طلوع کا منظر یقیناً جادوئی ہو گا جس کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے وہ اس وقت یہاں موجود تھیں۔ ”میرے پاس بہت سارے لینسز ہیں لیکن بڑے کیمرے کو سنبھالنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے، وہ گھر میں میرے کاوچ کے نیچے رکھا ہے، یہ کیمرہ بھی اچھا کیپچر کرتا ہے بس ٹرائی پوڈ ضروری ہے“

سچ ہے اپنے شوق زندہ رکھنے چاہئیں یہ آپ کو جیتا رکھتے ہیں، ہمیں ان کے شوق اور اس سے جڑی محنت نے بے حد متاثر کیا۔

کتنی عجیب سی بات تھی کہ ہم نے کئی بار غروب آفتاب دیکھا تھا، طلوع آفتاب کے لیے بھی کئی بار جاگے تھے لیکن آج تک کبھی طلوع مہتاب کا خیال نہیں آیا تھا۔ ہاں چودھویں کا چاند، پہلی کا چاند، رمضان اور عید کے چاند ہمیشہ بڑے شوق اور خوشی سے دیکھے اور محسوس کیے تھے لیکن یوں کبھی چاند کا طلوع دیکھنے کہ اتفاق نہیں ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ خضر سے مخاطب ہوئیں، ”تمہاری آنکھیں مجھ سے کہیں بہتر ہوں گی، تم چاند پہ نظر رکھنا“ ، ہم سب مسکرا دیے، یہ بلا شبہ ایک نیا اور منفرد تجربہ تھا۔

گفتگو مزید بڑھی تو پتہ چلا بچے دوسرے ملکوں اور شہروں میں رہتے ہیں، فون پہ رابطہ رہتا ہے۔ آپ ویڈیو کال کیوں نہیں کرتیں اور آپ اسمارٹ فون کے ذریعے بھی تو چاند کی سمت پتہ کر سکتی ہیں، صاحب نے انہیں بتانے کی کوشش کی،

وہ ٹیکنالوجی سے بڑی نالاں اور خوف زدہ تھیں، میرے شوہر کی طبیعت خراب تھی، کسی کا فون آیا اور پھر پتہ ہی نہیں چلا میرا فون ہیک ہو گیا اور میرے بینک کی معلومات بھی چلی گئی، یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔

ہمیں بڑا افسوس ہوا کیسے کیسے فضول لوگ بستے ہیں، ایک خراب تجربے نے انہیں ٹیکنالوجی سے ہی متنفر کے دیا تھا جس کے ذریعے وہ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں سے کنکٹ رہ سکتی تھیں۔

میرا پوتا بھی مجھ سے کہتا ہے لیکن میں اسے کہتی ہوں کہ میں اس دن کے انتظار میں ہوں جب بجلی بند ہو جائے پھر تمہارا انٹرنیٹ اور سب کچھ غائب ہو جائے گا، ہم بہت ڈپینڈنٹ ہو گئے ہیں۔

ٹھیک کہا آپ نے، ہم نے ہنس کے ان کو لطیفہ سنایا کہ کیسے ہم نے ایک دن بچوں سے ذکر کیا کہ ہمارے بچپن میں انٹرنیٹ نہیں ہوتا تھا تو بیٹی نے معصومیت سے پوچھا کہ کیا آپ مٹی کے گھروں میں رہتے تھے؟

بالکل تم نے دیکھا لندن میں ایک دن بجلی بند ہوئی تو کیا حال ہوا، وہ سب آہستہ آہستہ یہاں بھی ہو گا تو پھر ہم کیا کریں گے؟

ہم بس سر ہلا کے رہ گئے، وہ ٹیکنالوجی سے خائف تھیں، جیسے ہر پچھلی پیڑھی اپنے دور کو بہتر گردانتی ہے اور نئی نسل اور انداز سے خائف رہتی ہے وہ بھی ایسی ہی تھیں لیکن ان کے ہاتھ میں کیمرہ، ٹرائی پوڈ اور لینس ان کے شوق کی تسکین کا بھی باعث تھا۔

تھوڑی دیر میں ایک اور سینئر جوڑا بھی چلا آیا اور پتہ چلا انہیں بھی پندرہویں کے چاند کی تمنا یہاں کھینچ لائی ہے، یعنی بقول ابن انشاء

شہر دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی!

وہاں چاند کے تمنائیوں کی ایک ٹیم تشکیل پاتی جا رہی تھی۔ ہمارا اگرچہ یوں چاند کے انتظار میں رکنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ان چاند کی ”چاہ“ رکھنے والوں نے اب ہمارا اشتیاق بڑھا دیا تھا۔

دوسرا جوڑا وقت دیکھ کے نکلا تھا، اب الینا اور وہ لوگ اسی بارے میں محو گفتگو تھے، سبک ہوا ہمارے چہروں سے ٹکرا رہی تھی۔ چاند نکلنے کا متوقع وقت آٹھ بچ کے پچاس منٹ تھا۔

”پہلے اخبار اچھے ہوتے تھے، ان میں سورج اور چاند کے اوقات چھپا کرتے تھے“ ، انہوں نے کہا تو ہمیں ایک لمحے کے لیے اپنے بچپن کے اخبار یاد آ گئے، ہم بچوں کو خبروں میں تو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی تھی لیکن، نمازوں کے اوقات، ٹی وی پروگرام اور موسم کے حال والا حصہ ضرور پڑھا کرتے تھے، اسی میں کہیں طلوع آفتاب، غروب آفتاب اور شاید چاند کی تاریخیں بھی ہوا کرتی تھیں، یعنی مشرق اور مغرب میں ایک وقت میں اخباروں کا مزاج بھی ایک جیسا ہوا کرتا تھا۔

، الینا پھر گویا ہوئیں، ”وہ سب آنا بند ہو گیا پھر میں نے اخبار بھی بند کروا دیا، میں نے آخر اخبار قتل اور غارت گری کی خبریں پڑھنے کے لیے تھوڑی لگوایا ہوا تھا“ ، وہ شکوہ کناں تھیں۔ باقی دونوں بزرگوں نے بھی ان کی تائید کی۔ برف جیسے سفید بالوں والا یہ جوڑا نامعلوم کس قوم سے تھا لیکن زندہ دل اور پر امنگ تھا اور اپنا سیل فون اسٹینڈ پہ لگا کے چاند کا انتظار کرتا تھا۔

یہ لوگ ہمارے لیے سب چیزیں ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک جیسی عمر والے لوگوں کے غم بھی مشترک ہوتے ہیں، ہم نے سوچا۔ الینا پھر گویا ہوئیں، ”میں شاپر ڈرگ مارٹ گئی، میں نے کچھ چیزیں خریدیں، کچھ پوچھا تو انہونے کہا کہ آپ ہماری ویب سائٹ پہ چیک کر لیں، میں نے سب چیزیں وہیں چھوڑ دیں کہ مجھے میرا کام کر کے دو ورنہ میں کچھ بھی نہیں خریدوں گی۔ ان لوگوں کو سینئرز کا کوئی خیال نہیں۔ ہماری ضرورت کوئی نہیں دیکھتا“ ۔

ایک لمحے کو تھوڑا افسوس بھی ہوا، جو چیز ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے آسان ترین ہے کیسے ہمارے بڑے اسی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، شاید اسے ہی جنریشن گیپ کہتے ہیں۔

اتنے میں ایک صاحب اپنا کتا لے کر آن موجود ہوئے اور ستم یہ کہ اسے کھلا بھی چھوڑ دیا، ہمیں کتا بس ”کتا“ ہی لگتا ہے اس سے کوئی محبت اور رغبت نہیں محسوس ہوتی خاص کر اگر وہ بڑا سارا ہو، ہو سکتا ہے مستقبل میں کبھی ہم ان سے انسیت محسوس کریں لیکن ابھی تو بالکل بھی نہیں تھی، بچے بھی تھوڑا ہمارے پیچھے دبکے جاتے تھے، تھوڑی دیر پہلے الینا بھی ہمیں بتا چکی تھیں کہ انہونے نے انیس برس اپنے بچوں کے پالے ہوئے کتے کا دھیان رکھا ہے اور پھر جب وہ بالکل زندگی کی بازی ہارنے لگا تو اسے انجکشن لگوانے کا بہت مشکل فیصلہ کیا۔

وہ صاحب اپنے کتے کے بارے میں بہت خوش گمان تھے ایسے ہی جیسے بیشتر لوگ ہوا کرتے ہیں، ہمیں یہ ڈر کہ یہ اب اپنی تھوتھنی ہمارے کپڑوں سے نہ رگڑ لے، الینا ہمارا اور بچوں کا ڈر بھانپ گئیں، ”بہتر ہو گا کہ تم اس کی لیش لگا دو یہاں چھوٹے بچے بھی ہیں“ الینا ان ہیپی گو لکی قسم کے صاحب سے گویا ہوئیں، اور ہمیں دادی الینا پہ پیار آ گیا۔ لیکن وہ صاحب بھی کچھ ٹیڑھے تھے، یہ کچھ نہیں کرتا اور میرا خیال ہے کہ بچوں کو جانوروں کے ساتھ محبت کرنا سکھانا چاہیے، جواب آیا، دل میں تو آئی کہ کہیں بھائی کوئی بہتر موقع دیکھ کے ہم خود سکھا دیں گے لیکن ہم نے الینا کو بولنے دیا، یوں بھی ان کے کتے ان کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ الینا اپنے موقف پہ قائم تھیں، ”ہاں لیکن میں خود انیس سال اپنے ڈاگ کی دیکھ بھال کر چکی ہوں احتیاط اچھی چیز ہوتی ہے“ ۔ ہماری دعا بر آئی اور وہ صاحب کتے سمیت دوسری جانب چل دیے، سب نے سکون کا سانس لیا۔

چاند کے تمنائی اب مشتاق اور تیار تھے، پانی پہ شفق بکھرتی جا رہی تھی، آسمان شام کی کرنوں سے رنگین تھا اور اب ہمارا بھی اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ کیسا ہو گا طلوع کا منظر؟ ہو گا بھی یا یہ سب بزرگ کسی غلط سمت کھڑے اسے ڈھونڈ رہے ہیں اور ہم انہیں دیکھ کے خواہ مخواہ شوق میں مبتلا ہیں کہ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا۔

ابھی اسی سوچ میں تھے کہ خضر کی آواز آئی، اس نے دادی الینا کی سونپی ڈیوٹی خوش اسلوبی سے انجام دے دی تھی اور اب پر جوش ہو کے دور لہروں کے سرے پہ ابھرتی نارنجی لکیر کی طرف اشارہ کر رہا تھا، ہم سب کی نظریں اس طرف جم گئیں۔

منظر تو منجمد نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا لیکن ہم کچھ کچھ ہو گئے تھے، شفاف آسمان پہ پرندے تیر رہے تھے، نیلی جھیل پہ پھیلی لہریں دور تک ایک موسیقی تخلیق کر رہی تھیں، آسمان رنگوں سے بھرا ہوا تھا اور ان سے پرے ایک نارنجی لکیر ہولے ہولے پانی سے ابھر رہی تھی، یہ پندرہ کے چاند کا جنم تھا۔

کیسا جادوئی منظر تھا جو آنکھوں کے لیے بالکل نئی نکور سجی بنی کنواری دلہن کی مانند تھا، بے حد حسین اور ان چھوا۔ ہماری آنکھیں اسے جذب تو کر سکتی تھیں لیکن ہماری کوئی ڈیوائس اسے بالکل اسی طور محفوظ کرنے کے قابل نہ تھی جیسے کائنات کے اس لمحے میں وہ وقوع پذیر ہو رہا تھا۔

دادی الینا کا پروفیشنل کیمرہ ہم سب سے بہتر تھا، ہم سب باؤلوں کی طرح اس منظر کو طرح طرح سے اپنے فونوں میں ڈھالنا چاہتے تھے لیکن یہ تو بس اس رنگریز کے رنگ تھے یہ کسی کیمرے کسی فون کے بس کی بات نہیں تھی۔

شاید پندرہ بیس منٹ کا قصہ ہو گا، نارنجی ہیولا آہستہ آہستہ آدھا ابھرا پھر پانی کی پوشاک اتار کر پورے دائرے کی شکل اختیار کر گیا، نارنجی رنگ گہرا ہوا، رنگریزہ۔ رنگریزہ۔ جیسے لہریں، آسمان اور رنگ سب گنگنا رہے تھے، دائرہ زرد ہوا اور پھر شباب پہ آ کے اونچا ہو کے پورے چاند میں ڈھل گیا، یوں معلوم ہوا جیسے چند منٹوں میں بچپن، لڑکپن اور جوانی کی ساری منزلیں نظروں سے گزر گئی ہوں۔ شام بھی اجالے سے ہولے ہولے تیرگی میں ڈھلتے ہوئے گہری ہو گئی، چاند کی کرنیں پوری آب و تاب سے جھیل کے پانی پہ جگمگانے لگیں، یہ کیسا منظر تھا، کیسا تحفہ تھا جو قدرت نے ایک حسین سرپرائز کی طرح آج ہماری جھولی میں ڈال دیا تھا۔ تشکر کا ایک اور لمحہ۔

منظروں کو جذب کرنے اور محسوس کرنے کے لئے بھی ذوق، احساس اور تمنا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ شاید ملتے تو سب کو ہیں لیکن ہر کوئی انہیں اس طرح محسوس نہیں کر پاتا۔

ادھر چاند کے تمنائی موجود تھے اور سیر ہوتے جاتے تھے، آنکھوں کو چاند کی کرنوں سے خیرہ کرتے تھے اور امیر ہوتے جاتے تھے ہمیں گلزار صاحب بھی یاد آئے

”چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی“

تو بس یہ بھی ایسی ہی پشمینے کی رات تھی جس سے الگ ہونے کا دل نہیں چاہتا تھا، نیلے نیلے امبر پر چاند جب آئے، لہروں اور ہوا کی موسیقیت میں چاند کے کتنے نغمے تھے جو یاد آ رہے تھے۔ ہوا بھی رات سے گلے مل کے اب خنک ہوئی جاتی تھی۔

کیا تم چاند کو تھام سکتی ہو؟ میں تمہاری تصویر لے سکتی ہوں؟ دادی الینا نے فاطمہ سے سوال کیا، چاند کے ساتھ کوئی اور بھی ہو تو تصویر اور اچھی ہو جاتی ہے۔ یہ تصویریں بس میرے لیے ہیں، انہوں نے اجازت چاہی اور کچھ تصویریں لے لیں، کچھ ہم نے بھی لے لیں۔

اب جھیل کنارا ان لوگوں سے آباد ہو رہا تھا جو جھیل کو چاندنی میں نہاتا دیکھنے آ رہے تھے، کچھ جوڑے جو ایک دوسرے کے ساتھ اس کا رومان محسوس کرنے کے متمنی تھے، کچھ دوست اور کچھ منچلے۔ رات گہری ہو رہی تھی، یوں بھی گرمیوں میں یہاں شام ہوتے ہی رات ہو جاتی ہے، ہمارے جانے کا وقت تھا۔ سب نے اپنے اپنے کیمرے اور سامان سمیٹا، الینا اپنی اسٹک ٹیکتے اور کیمرہ سنبھالتے ہوئے گاڑی کی سمت چل دیں، ہم نے سب کو بائی کہا اور پکھراج کے چاند اور پشمینے کی جگمگاتی رات کی یادیں لیے گھر کو چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments