بوسنیا کی چشم دید کیانی (27)


چار اکتوبر کی رات کو مٹکووچ سے زغرب جانے والی بس پکڑی اور علی الصبح زغرب آمد ہوئی۔ بس اسٹیشن پر ناشتہ کرنے کے بعد قریب ہی کوئی ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ریلوے اسٹیشن پہنچ کر محافظ خانے میں اپنا سفری بیگ جمع کروایا۔ پھر ہنگری کے سفارت خانے کی راہ لی۔ سفارت خانہ ابھی کھلا ہی تھا کہ میں وہاں پہنچ گیا۔ استقبالیہ پر موجود ایک ماٹھی سی کروایشین لڑکی سے رو برو یترو (صبح بخیر) کہتے ہی اپنی آمد کا مدعا بیان کیا۔

وہ ویزا فارم بڑھاتے ہوئے بولی کہ اسے پر کر کے پاسپورٹ اور 15 ڈالر بطور فیس کے ہمراہ واپس جمع کروا دیں۔ میں نے اس ہدایت پر عمل کیا۔ پھر استقبالیہ کاؤنٹر کے سامنے رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر ویزے کے حصول کا انتظار کرنے لگا۔ ویزا لگا کر تقریباً ایک گھنٹہ بعد پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا گیا۔ میں لڑکی کو ”حوالہ پونوں“ (بہت شکریہ) کہتے ہوئے سفارت خانے سے باہر نکل آیا۔

اس سفر کے دوسرے مرحلے میں بڈاپسٹ سے پراگ جانے کا ارادہ تھا۔ اس بارے میں اگرچہ کچھ ساتھیوں نے بتایا تھا کہ سرکاری پاسپورٹ کے ساتھ جمہوریہ چیک کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی یہ ضروری سمجھا کہ اس کی تصدیق کر لی جائے۔ چنانچہ قریبی PCO سے جمہوریہ چیک کے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور کونسلر سے بات کی۔ اس نے ان معلومات کی تصدیق کی اور پراگ کے خوش گوار دورے کے لیے نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ یہ تاکید کی کہ وہاں جا کر بئیر سے لطف اندوز ہونا نہ بھولیے کہ یہ وہاں کا خاصہ (Specialty) ہے۔ میں نے عرض کی۔ میں معذرت خواہ ہوں آپ کی اس خواہش کی تکمیل میرے لیے ممکن نہ ہو گی کیوں کہ کم از کم اس حوالے سے پکا مسلمان ہوں۔ بولے تو پھر خیال کیجیے گا، پراگ میں آپ کی مسلمانی کے امتحان کے اور بھی سامان ہیں۔

زغرب سے بڈاپسٹ کا سفر بذریعہ ریل گاڑی اندازہً سات گھنٹے کا تھا۔ دن کے وقت پونے دو بجے ایک گاڑی بڈاپسٹ کے لیے روانہ ہوتی تھی۔ اس کے چھوٹنے کا وقت بس قریب ہی تھا۔ میں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع پر رونق زیر زمین مارکیٹ کے ایک ریستوران سے نان چواپی اور ایک کوک کا ٹن خریدا۔ پھر ٹکٹ گھر سے بڈاپسٹ کا دو طرفہ ٹکٹ اور محافظ خانے سے اپنا بیگ حاصل کر کے پلیٹ فارم نمبر 4 کی طرف بڑھا۔ یہاں بڈاپسٹ جانے والی گاڑی تیار کھڑی تھی۔

ریل گاڑی نے وقت مقررہ پر سیٹی بجاتے ہوئے حرکت کی۔ یہ زغرب کو پہلے آہستہ آہستہ اور پھر تیزی سے پیچھے چھوڑنے لگی۔ زغرب کی ریل گاڑیوں کے ڈبے چھوٹے چھوٹے کیبنز میں تقسیم ہوتے تھے۔ ان میں فی کیبن چھے مسافروں کے بیٹھنے یا تین کے سونے کی گنجائش ہوتی تھی۔ ریل گاڑی میں مسافروں کی تعداد برائے نام تھی لہٰذا میں جس کیبن میں بیٹھا تھا اس میں کسی اور مسافر کا اضافہ نہ ہوا۔ بڈاپسٹ تک سفر یوں ہی تنہا کٹا۔ ریل جلد ہی ہنگری کی سرحد میں داخل ہو گئی۔

اس کے ساتھ ہی کروایشیا کے امیگریشن کے عملے کی جگہ ہنگری کے عملے نے لے لی۔ پاسپورٹ اور ویزا کی پڑتال کا مرحلہ پھرتی سے طے ہو گیا۔ میں نے پوری توجہ کے ساتھ کھڑکی کے باہر بدلتے مناظر پر نظریں جما دیں۔ ریل گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں تھی کہ میرے سامنے تاحد نگاہ پھیلا ہوا پانی ابھرا۔ ایسا لگا کہ یہ کسی سمندر کا کوئی حصہ ہے۔ میں نے جلدی سے زغرب میں ہنگری کے سفارت خانے سے حاصل کردہ تعارفی کتابچۂ سیاحت نکالا اور اس مقام کی نشان دہی کی۔

یہ مرکزی یورپ کی سب سے بڑی جھیل بلاٹن (Balaton) تھی جو یورپ کی مقبول سیر گاہوں میں سے ایک تھی۔ جھیل کے کنارے انتہائی خوب صورت گھر، ہوٹل، مارکیٹیں اور باغ آباد تھے، جو منظر کو بے حد دل کش بنا رہے تھے۔ یہ دل کش مناظر بھاگتی ہوئی گاڑی کے ساتھ ساتھ ایک گھنٹہ تک موجود رہے۔ میں ان مناظر سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ مجھے یاد آیا بعض محققین کی یہ رائے ہے کہ مسلمانوں کے فن تعمیر میں فواروں اور آبی روشوں سے آراستہ باغات کے نمایاں پن کا محرک ان کا تصور جنت ہے۔ میں نے سوچا اگر یہ سچ ہے تو اس جھیل کے کنارے کو یہ روپ دینے والوں کا محرک بھی ضرور کوئی ایسا ہی بے نظیر تصور ہو گا۔

ریل گاڑی کوئی آٹھ بجے کے قریب بڈاپسٹ کے کلیٹی پو (Keleti Pu) اسٹیشن پر پہنچی۔ ہمارے کئی ساتھی مجھ سے قبل اس شہر کی سیر کر چکے تھے۔ ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق بڈاپسٹ ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی آپ کو طالب علموں کی مختلف ٹولیاں گھیر لیتی ہیں جو مختلف ہاسٹلوں میں کسی رہائش کی ترغیب دیتی ہیں۔ میں ان معلومات کی روشنی میں رہائش کے حوالے سے مکمل طور پر بے فکر تھا۔ لیکن اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی بہت تلاش کے باوجود طالب علموں کی کوئی ٹولی تو کیا کوئی واحد نوجوان بھی ایسا نظر نہ آیا جو رہائش کے حصول میں معاونت کا وسیلہ بنتا۔

اس صورت حال نے کچھ پریشان کر دیا۔ جلدی سے ٹورسٹ آفس کی راہ لی۔ ان سے اپنی باوثوق معلومات کے غیر مصدقہ ہونے کی وجہ پوچھی۔ پتا چلا کہ جس منظر کی نقشہ کشی میرے ساتھیوں نے کی تھی وہ بڈاپسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر صرف اور صرف موسم گرما کی تعطیلات کے دوران دیکھنے کو ملتا ہے، جب کالج اور یونیورسٹیاں بند ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کی انتظامیہ اضافی آمدنی کے حصول کی خاطر ہاسٹلوں کو کرائے پر چڑھا دیتی ہے۔ میں نے کہا۔ میرا بجٹ تو مجھے ایسے ہاسٹلوں کے علاوہ کہیں اور ٹھہرنے کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا میری مدد کریں۔ چنانچہ ڈینیوب کے مشرقی کنارے پر واقع ایک علاقے کی نشان دہی کی گئی۔ بتایا گیا کہ تمام ہاسٹل یہیں پر واقع ہیں۔ میں قسمت آزما لوں۔

میں اب جلدی سے تبادلہ زر کے کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ وہاں پر ایک بھرے بھرے جسم والی لمبی تڑنگی، خوش شکل اور خوش پوش خاتون نے مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا اور حسب روایت پوچھا۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں۔ اب اگر مجھے جلدی سے رہائش حاصل کرنے کی فکر نہ ہوتی تو میں روبرواز گلادش (آپ اچھی لگ رہی ہیں) کہتے ہوئے اپنے اور اس کے درمیان حائل شیشے کی دیوار کے ساتھ تھوڑی دیر ضرور چمٹا رہنے کی کوشش کرتا لیکن یہ موقع عقل کو ابھی محو تماشائے لب بام رکھنے کا نہیں تھا، اس لیے کچھ ڈالروں کو مقامی کرنسی میں تبدیل کروایا اور پھر پلیٹ فارم سے سیڑھیاں اتر کر زیر زمین ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑھ گیا۔

دریائے ڈینیوب کے مغربی کنارے سے کچھ ادھر تک زیر زمین ریل میں سفر کیا۔ اس کے بعد ٹرام میں بیٹھ کر دریائے ڈینیوب عبور کر کے نشان زدہ علاقے میں پہنچ گیا۔ اس دوران رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے۔ سردی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بھی کم کم تھی۔ میں نے اس علاقے میں موجود کالجوں اور یونیورسٹیوں کے چار پانچ ہاسٹلوں میں جا کر بات کی لیکن ہر جگہ سے جواب نفی میں ملا۔ مزید ایک گھنٹہ تلاش کی نذر ہو گیا۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال تھی۔

جتنے ہاسٹل مجھے نظر آئے میں نے سب چھان مارے تھے لیکن کہیں سے بھی مثبت جواب نہ ملا تھا۔ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اندرون شہر واپس جا کر کسی ہوٹل میں رہائش اختیار کی جائے۔ چنانچہ میں بس سٹاپ پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہاں پر پہلے سے کچھ مسافر موجود تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا میری طرف بڑھا اور سگریٹ سلگانے کے لیے لائٹر کی درخواست کی۔ میں نے اسے لائٹر پیش کیا۔ اس دوران جب میں نے اسے غور سے دیکھا تو چہرے مہرے اور رنگت سے اپنے جیسا لگا۔

میں نے اس سے پوچھا آپ پاکستانی یا انڈین تو نہیں۔ اس کا نام یوسف تھا اور وہ راولپنڈی کا رہنے والا تھا۔ یہاں یونی ورسٹی میں انجنیئرنگ کا طالب علم تھا۔ ایک تو پاکستانی اور پھر شہر یاراں راولپنڈی کا باسی، اس پریشانی کے وقت اسے اپنے سامنے پا کر ذہن کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ میں نے جب اسے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تو اس نے پوچھا کہ کیا میں نے پروفیسر ہاسٹل کو بھی چیک کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ نہیں۔ اس نے مجھے پروفیسر ہاسٹل کا پتا سمجھایا جو کہ قریب ہی واقع تھا۔

ساتھ ہی اس نے مجھے اپنا پتا بھی دیا کہ اگر مجھے وہاں بھی کمرہ نہ ملے تو میں کوئی ایک گھنٹہ بعد اس کے پاس آ جاؤں، وہ کم از کم ایک رات کے لیے مجھے اپنے پاس ٹھہرا لے گا۔ اس دوران بس آ گئی۔ یوسف خدا حافظ کہتے ہوئے اس میں سوار ہو گیا۔ یوسف سے ملاقات کے بعد میری پریشانی اب کافی حد تک دور ہو چکی تھی۔ میں نے جلد ہی پروفیسر ہاسٹل تلاش کر لیا اور وہاں جگہ بھی مل گئی۔ 14 ڈالر یومیہ کے حساب سے چار بستروں پر مشتمل ایک کمرے میں ایک بستر مجھے دے دیا گیا۔ اس کمرے میں ایک صاحب پہلے سے ایک بستر پر دراز تھے۔ بقیہ دو بستر خالی تھے۔ رہائش پذیر مزید دو صاحبان اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ ان سے اگلی صبح ملاقات ہوئی۔ موجود بندے کا نام سعد تھا اور تعلق لیبیا سے تھا۔

سعد کے بقول بڈاپسٹ کا یہ اس کا تیسرا دورہ تھا۔ وہ یہاں آباد اپنے دوستوں سے ملنے آیا تھا۔ وہ ہنس مکھ طبیعت کا مالک تھا۔ لہٰذا اس سے جلد ہی بے تکلفی ہو گئی۔

بڈا اور پسٹ 1873 ء تک دو الگ الگ شہر تھے جنھیں ڈینیوب ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ آج ڈینیوب اس شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ شہر کے دونوں حصے سات پلوں کی مدد سے جو مختلف ادوار میں تعمیر کیے گئے، ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یہ اتفاق تھا کہ بلغراد اور ویانا کے بعد یہ تیسرا شہر تھا جہاں ایک بار پھر ڈینیوب مسافر کی منزل کا ساتھی تھا۔

danube river

یورپ کے بڑے دریاؤں میں ڈینیوب واحد دریا ہے جو مغرب سے مشرق کی سمت بہتا ہے۔ یہ یورپ کا دوسرا بڑا دریا ہے۔ اس کا منبع جرمنی میں ہے۔ یہ آسٹریا، سلواکیہ، بلغاریہ، ہنگری، یوگوسلاویہ، یوکرین اور رومانیہ میں لہراتا، بل کھاتا 1770 میل کا سفر طے کر کے بحیرہ اسود میں گرتا ہے۔ صدیوں سے یہ دریا میدان ہائے کارزار کو فوجی رسد پہنچاتا رہا ہے۔ بحری جہاز اس کے پانی کو چیرتے ہوئے فوجیوں کو محاذ جنگ تک پہنچاتے رہے۔

200 ء میں یہ دریا سلطنت روم کی سرحد تھا اور اس کے تمام دشمنوں کے راستے میں پہلی دیوار ثابت ہوتا تھا۔ صلیبی جنگجوؤں نے بھی اسے ہی اپنے راستے کے طور پر چنا اور عثمانیوں کے لیے یورپ کو زیر کرنے کے لیے یہی جادہ کار آمد ثابت ہوا۔ اس کی فوجی اور معاشی اہمیت آج بھی تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ اسی لیے آج تک ایسے لاتعداد معاہدے ہوئے جن کا مقصد اس پر کسی کی اجارہ داری قائم نہ ہونے دینا تھا۔

انیسویں صدی کی ابتدا میں یہ دریا بلقان کی سر سبز و شاداب زمینوں اور جرمنی کے کارخانوں کے درمیان ایک پل بنا رہا۔ یہ عثمانیوں کے طاؤس و رباب اور روسیوں کے شمشیر و سناں کا دور تھا۔ اہل مغرب نے اس نئے خطرے کا اندازہ درست وقت پر کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور روس کو ڈینیوب کے ڈیلٹا سے پرے رکھنے میں کام یاب رہے۔ 1856ء کے معاہدہ پیرس نے جنگ کریملن کا خاتمہ کیا۔ یہ طے ہوا کہ ڈینیوب کے ڈیلٹا کا تحفظ یورپین کمیشن کی ذمہ داری ہو گا۔

اس انتظام کے ساتھ ڈینیوب کی تجارتی افادیت میں اضافہ ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر معاہدہ ورسلی کے تحت بھی اس انتظام کو قائم رکھا گیا۔ ساتھ ہی ڈیلٹا کی طرح دریا کی نگرانی کے لیے بھی ایک علیحدہ کمیشن قائم کیا گیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ سارے انتظامات قصۂ پارینہ بن گئے۔ جرمنی 1940ء تا 1944ء سارے کے سارے ڈینیوب پر قابض رہا۔ جنگ کے اختتام کے بعد اشتراکی بلاک نے اس پر قبضہ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ 1990ء کے اوائل میں سلواکیہ اور ہنگری میں پانی کی تقسیم کا تنازعہ کھڑا ہوا جو ابھی تک مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا۔

ڈینیوب کے کنارے ٹھاٹھیں مارتی زندگی سے بھرپور شہر آباد ہیں جن میں ویانا، براٹسلاوا، بلغراد اور بڈاپسٹ نمایاں ہیں۔ مسافر اب بڈاپسٹ میں تھا اور شہر بے نظیر کے نام اس پیغام کے ساتھ کہ

عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments