سکارسڈیل واقعہ اور مڈل کلاس کی سسکیاں


16 جنوری 2023 کو لاہور میں قائم امریکی سکول سکارسڈیل انٹرنیشنل کی طالبات کے مابین مبینہ طور پر نشہ کرنے کی شکایت لگانے پر تشدد کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ جو کہ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوجاتا ہے۔

ان ویڈیوز میں سے کیا ہوا، کس نوعیت کی زبان استعمال کی گئی اور تمام حرکات و سکنات سے سوشل میڈیا صارفین بخوبی آگاہ ہیں، بس سبھی کے دیکھنے اور سمجھنے کا نظریہ اپنا اپنا ہے جس میں بہرحال سبھی کو آزادی حاصل ہے۔ شاید اسی آزادی کا اظہار علیحہ عمران نے اپنی کلاس فیلوز کی شکایت لگا کر اور جنت ملک، عمائمہ ملک، نور رحمن نے سکارسڈیل کے علامتی نشان عقاب کی طرح اس پر جھپٹ کر کے کیا۔

یہ واقعہ تو وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو دے گا لیکن ٹویٹر پر یہ واقعہ تاحال ٹرینڈنگ میں ہے اور سوشل میڈیا صارفین کے مابین ہمیشہ کی طرح طبقاتی اخلاقیات و امتیاز کی نئی بحث چھیڑ گیا ہے۔

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کسی کے دکھ میں شریک انسان اس کے نہیں اپنے دکھ کو رو رہا ہوتا ہے، ویسے ہی اس واقعہ پر نوحہ کناں لوگ جس میں ایک بڑی تعداد ہمارے درمیانے طبقے کی ہے جو اپنی محرومیوں و تفریق پر سسکیاں لے رہا ہے۔

یہاں پر ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ امیر طبقے کے قہر کا نشانہ اگر کوئی متوسط طبقے کا شہری بنے تو وہ واقعہ دباؤ پر مبنی صلح کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اسلام آباد میں گزشتہ دنوں کرنل کی بیٹی کی گاڑی کے نیچے آ کر کچلے جانے والے ایک مزدور کا واقعہ ہی یاد کر لیں۔ صرف وہ واقعات کسی بحث کو جنم دیتے ہیں جہاں پر ٹکر برابر کی ہو۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ ٹویٹر کہ دنیا اس واقعے پر کیا بحث کر رہی ہے۔

ٹویٹر صارفین نے ضمانت قبل از گرفتاری، ضمانت میں دیے جانے والے جھوٹے عذر، تعلیمی ادارے کی ویب سائٹ پر بہترین ادارے اور اقدار کے دعوے، ادارے میں موجود سیکورٹی کی افادیت پر خوب تنقید کی۔

کسی نے جنت ملک کو علیحہ کا نہیں بلکہ انصاف کا گلہ دبانے سے تعبیر کیا، کسی نے تعلیمی ادارے کی گوگل پر ریٹنگ گرانے کی مہم چلائی تو کسی نے اپنے ٹویٹ میں انصاف نا ملنے کے دعوے کا سکرین شاٹ لینے کا کہا۔

انہی صارفین نے جنت ملک کی رشتہ داری کسی نامور ایم پی اے سے جوڑی۔ تو کسی نے ان سب طالبات، ان کے والدین اور سکول انتظامیہ کو جیل بھیجنے کی سزا تجویز کی۔

دلچسپ میمز کے اسی سلسلے میں سے ایک میں قانون کی قبر پر امراء کو وکٹری سائن کے ساتھ سیلفی لیتے دکھایا گیا۔ اور کسی نے ان طالبات کو چھوٹے چھوٹے ظاہر جعفر قرار دیا۔ اور کسی نے شکر ادا کیا کہ یہ کام مدرسے میں ہوا ہوتا تو ایک نیا عورت مارچ سڑکوں پر ہوتا۔

ٹویٹر صارفین میں ایک صارف نے کیا خوب نشاندہی کی کہ جب تشدد کرنے والی طالبات میں سے ایک کہتی ہے کہ تمہارا یہاں کوئی نہیں ہے تو یہ بات اس نے علیحہ کو نہیں بلکہ متوسط اور غریب طبقے کو کہی ہے جو ہمارے انصاف کے معیار پر ایک بڑا سوال ہے۔

میرا ماننا یہ کہ ہر طبقے کے اپنے مسائل و ترجیحات اور اخلاقیات ہوتی ہیں چاہے وہ سب ایک ہی معاشرے میں کیوں ناں رہ رہے ہوں، اس لئے ان کے بیچ کا ٹکراؤ کسے خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور یہ دنیاوی ریت ہے کہ جو طاقتور ہو گا وہ اپنے بنائے اصولوں کے تحت بازی لے جائے گا۔

جبکہ درمیانے طبقے کے وہ لوگ جو ایسے تعلیمی اداروں کو دیکھ کر یہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کے بچے ان اداروں میں تعلیم حاصل کریں ان کی خواہش جائز ہے لیکن اس واقعے سے یہ سبق بھی لیں کہ ان کے بچے کی تربیت ادارے کہ نہیں بلکہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اداروں کی کارکردگی ان کے سامنے ہے۔

بات قانون سے انصاف کی امید کی جائے تو اشرافیہ کی جانب سے یہ پہلا واقعہ تو ہے اس لسٹ میں شاہ رخ جتوئی، سلمان ابڑو، مصطفی کانجو، ظاہر جعفر، سعد بٹ، ظاہر جدون، شاہ میر علی جیسے نام شامل ہیں جو خون سے رنگے ہیں لیکن وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ یہ کوئی درمیانے یا نچلے طبقے کا فرد تھوڑی ہے جسے قانون سے انصاف فوری ملے یا ناں ملے سزا فوری ملتی ہے۔ یہ واقعہ تو وہ آگ ہے جو کبھی کبھار اپنے ہی کپڑوں کو لگتی ہے اور تھوڑا بہت جھلسانے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ علیحہ عمران کے والد نے ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں گے کیونکہ یہاں پر انصاف کی فراہمی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن کیا متوسط و غریب طبقے کے لوگوں کے پاس یہ سہولت موجود ہے یا وہ انصاف کی فراہمی کے لئے کس سے امید لگائیں یا اداروں کو اپنے تشخص کو بچانے کے لئے ازخود اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قانون سازی کا حق تو بالآخر پھر اسی اشرافیہ کی مٹھی میں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments