شیما کرمانی۔ رقص اور مزاحمت


تحریک نسواں کی پنتالیسویں ( 45 ) سالگرہ پر شیما کرمانی نے نئے سال کے پہلے مہینے میں طلسم تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول 6 تا 22 جنوری منعقد کیا۔ ذرا سوچیں سترہ دن تک روز ایک پروگرام پیش کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کے احمد شاہ نے اپنا بڑا آڈیٹوریم فراہم کیے رکھا۔ اس کی بھی داد دینی چاہیے۔ ویسے تو سارے ڈرامے ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر اٹھارہ جنوری کو امر جلیل کی کہانی پر مبنی یہ ڈرامہ ”مجھ میں تو موجود“ دیکھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔

میں شیما کو رقص کرتے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ خود کو باغی کہنے والے تو اور بھی لوگ ہیں لیکن شیما نے جس طرح بغاوت اور مزاحمت کو رقص کی شکل میں مجسم کیا ہے ایسا کوئی اور نہیں کر پایا۔ اس نے اسٹیج پر ہی نہیں اپنی عملی زندگی میں بھی اس معاشرے سے اور اس کی اقدار سے مسلسل بغاوت کی ہے اور اپنے آپ کو منوایا ہے۔ ”مجھ میں تو موجود“ سنگیت اور جمالیات سے محبت کی کہانی ہے۔ یہ ایک عورت کی کہانی ہے جو ایک مشہور صوفی کی بھگت بن جاتی ہے۔

اس کہانی میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ رقص اور موسیقی کے ذریعے امن اور محبت کا پیغام پھیلانے والوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے لیکن ان کا پیغام زندہ رہتا ہے۔ اس ڈرامے میں سچل سر مست، بھٹائی، کبیر، شیخ ایاز اور دیگر کا کلام پیش کیا گیا۔ شیما نے جس طرح اپنی زندگی اور رقص کے ذریعے معاشرے کے تفریقی اور امتیازی رویوں پر ضرب لگائی ہے وہیں اس نے عمر کے امتیاز کو بھی ختم کیا ہے۔ ذرا سوچئے بالوں میں چا ندی لئے ہوئے اکہتر سال کی عمر میں اسٹیج پر رقص کر نا، عورت پر ہونے والے ہر ظلم اور نا انصافی پر صدائے احتجاج اور نعرۂ مستانہ بلند کر نے کے جرات شیما کے علاوہ کون کر سکتا ہے۔

شیما اور میری دوستی کا آغاز ستر کے عشرے کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ میں تب کراچی سے نکلنے والے روزنامہ مساوات میں ملازمت کرتی تھی اور شیما لندن کے اسکول آف آرٹس سے کراچی میں وارد ہوئی تھی۔ اس زمانے میں لندن سے آنے والے انقلابی بن کر آتے تھے۔ یہ پیپلز پارٹی کا ابتدائی دور تھا۔ انقلاب کا رومانس زوروں پر تھا۔ ٹریڈ یونین تحریک عروج پر تھی۔ مزدوروں پر فائرنگ ہوئی۔ عثمان بلوچ اور دیگر حکومت سے ٹکرائے۔ شیما بھی ان کے قریب تھی۔

اور سی آئی ڈی والوں سے چھپ کر برقع پہن کر عثمان بلوچ سے ملنے جاتی تھی۔ پھر وہ رقص کی تربیت حاصل کرنے ہندوستان چلی گئی۔ واپس آنے کے بعد اس نے تحریک نسواں کی بنیاد ڈالی۔ اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سماجی مسائل اور خاص طور پر عورتوں کے مسائل کے بارے میں رقص ڈرامے گلیوں اور محلوں میں بھی جا کے پیش کیے ۔ اب 2023 میں تحریک نسواں کی پنتالیسویں سالگرہ پر سترہ روز تک مسلسل پروگرامز پیش کر کے سب کو حیران کر دیا۔

اور وہ بھی اتنے بڑے آڈیٹوریم میں۔ یہاں تو لوگ سال میں ایک پروگرام بھی مشکل سے کر پاتے ہیں لیکن شیما سترہ پروگرام کر کے بھی اسی طرح تازہ دم تھی۔ اللہ کرے زور ”اعضا“ اور زیادہ۔ یہ زیادتی ہو گی اگر میں اس کی ٹیم اور خاص طور پر انور جعفری کا ذکر نہ کروں جن کے تعاون کے بغیر یہ ڈرامے اسٹیج تک نہ پہنچ پاتے۔

اب جب میں خود تہتر سال کی ہو چکی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں شیما کا سب سے بڑا کارنامہ علاوہ دیگر مفروضوں کو ختم کرنے کے عمر کے امتیاز کو ختم کرنا ہے ورنہ ہمارے معاشرے میں تو اس عمر میں لوگوں کو عضو معطل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس کے علاوہ رقص کو مزاحمت کا استعارہ بنانا بھی شیما کا کمال ہے وہ صرف رقاصہ نہیں بلکہ ایک ایکٹوسٹ اور اسکالر بھی ہے۔ اس کی ایک کتاب ”جینڈر، پالیٹکس اینڈ پرفارمنگ آرٹس“ شائع ہو چکی ہے۔ آج کل وہ اس شعبے میں پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال ہونے والے ”عورت مارچ“ کی بھی سرگرم کارکن ہے۔ میں نے کہا نا وہ مجسم بغاوت ہے۔ شاباش شیما تمہارا عزم نا قابل تسخیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments