عمران خان پرویز الٰہی کی قربت سے دوری تک


ڈکٹیٹر مشرف کے بعد یہ اعزاز عمران خان کو حاصل ہوا ہے کہ گجرات کے چوہدری بڑے لمبے عرصے تک ساتھ چلتے وفا کرتے رہے نہ کہ صرف ہمسفر بنے بلکہ مستقبل کی سیاست بھی عمران خان کے نام کر کہ تحریک انصاف میں ضم ہونے کا عندیہ دیا، گو کہ اس سلسلے میں عمران خان سے اقتدار (رجیم چینج) کی منتقلی کے وقت چوہدری شجاعت ہمنوا نہ رہ سکے۔

ہاں! البتہ مونس الہیٰ کی عمران سے یک طرفہ محبت نے پرویز الٰہی کی بڑھاپے کی سیاست کو مونس کے مستقبل کو روشن کر دیا ہے۔ اب تو پرویز الٰہی کے دھڑے کی تحریک انصاف میں ضم ہونے کی خبریں بھی کچھ ہفتوں میں عملی جامہ پہن کر سچ ہونے والی ہیں!

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے عمل سے والد و فرزند (پرویز و مونس الہیٰ) عمران خان کے اور قریب ہوئے ہیں۔ یہ تاثر بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ پرویز الٰہی تحریک انصاف میں شامل ہو کر آئندہ دور میں بھی عمران خان کے وزیر اعلیٰ بنیں گے!

اب وزارت اعلیٰ انتخابات کے بعد ہی کامیاب امیدوار حاصل کر پائے گا لیکن اس سے قبل مقتدر حلقوں کے خلاف مذمت کا لبادہ اوڑھے عمران خان کی سیاست پرویز الہیٰ و مونس الہیٰ کا کئی دفعہ امتحان لے گی۔

عمران خان کے بارے مشہور ہے محسن کش ہے۔ یہ روش ان کی انفرادی نہیں یہ سیاسی مگرمچھوں کی اجتماعی خصلت ہے جس کے تحت برتے گئے رویوں کی زیادتیوں کی آپ بیتیاں نشانہ بننے والے سیاسی دوست و کارکن تعلقات ختم ہونے پہ سامنے لاتے رہتے ہیں!

اتوار کی شب کی تاریکی میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پنجاب کی حکومتی جماعت کے بے شمار اعتراضات کے باوجود ایک میڈیا گروپ کے مالک کو الیکشن کمیشن کی طرف سے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پہ نامزد کیا گیا، تاریکی میں ہی حلف برادری کی تقریب ہوئی اور تاریکی میں ہی آئینی طور پہ وزارت اعلیٰ کا مشروط چارج پرویز الٰہی سے منتقل ہو کر ان کے قریبی رشتہ دار محسن نقوی کے پاس چلا گیا۔

گو کہ الیکشن کمیشن کی انتہائی متنازعہ تعیناتی چند مہینوں پہ محیط ”نیوٹریلٹی“ کے ”ہنی مون پیریڈ“ سے ہی اختتام کا اعلان کر رہی ہے۔ تحریک انصاف اس تعیناتی کو مسترد کر چکی ہے اور پرویز الہیٰ پیر کی صبح ہوتے ہی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور اپنے قریبی عزیز محسن نقوی کی نگران وزیر اعلیٰ تعیناتی کے خلاف درخواست گزار بنیں گے۔

یوں اس بحرانی کیفیت میں معزز عدلیہ کو ایک مرتبہ پھر سے سیاست میں جائز مداخلت کا موقع مل گیا ہے۔

محسن نقوی پرویز الہیٰ کی بھانجی کے خاوند اور سالک حسین کے ہم زلف بھی ہیں۔ انہوں نے 30 سال کی قلیل عمر میں اپنا ٹی وی چینل شروع کیا۔ کم و بیش 6 ٹی وی چینلز کے لائسنس حاصل کیے، آصف علی زرداری، شریف خاندان، سابق سپاہ سالار جنرل باجوہ جیسی شخصیات کی قربت حاصل کی قلیل مدت میں اس قدر حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرنا ان کامیابیوں سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔

بہت سوں کو وزارت اعلیٰ پنجاب کی اس نامزدگی کے پیچھے مقتدر حلقوں کی ”چھوی“ نظر آ رہی ہے۔ جو سائے عام لوگوں کو دکھنے لگ گئے ہیں بھلا کیسے ممکن ہے عمران خان کی نظر میں نہ آ سکیں۔

تو پھر کیا؟
تو پھر یہ کہ!
امریکی سازش کے بیانیے کے بعد عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر عوام میں خوب مقبول ہوئی۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی انہوں نے 50 فیصد نیوٹرل قرار دیا ہے بلکہ پرویز الہیٰ کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ پہ ان کے ایم پی اے ایز سے رابطے کرنے کے الزامات بھی لگائے۔

موجودہ اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید اور الزامات عائد کرنے کی اتنی بڑی وجہ آئندہ کچھ وقت کے لیے محسن نقوی کی نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کی صورت میں عمران خان کے ہاتھ لگ گئی ہے جسے وہ ان کی سیاست سے بے دخلی کے منصوبے کی کارروائی قرار دیتے ہوئے مستقبل میں سیاسی مقاصد کے لیے خوب استعمال کرنے والے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ الزامات و بیانات کی جنگ کے نئے دور میں پرویز الہیٰ و مونس الہیٰ جو پہلے ہی جنرل باجوہ کو عمران خان کا مسیحا اور ان کا ساتھ دینے کی وجہ بھی باجوہ کا مشورہ قرار دیتے ہیں آخر کہاں تک عمران خان کا ساتھ نبھا پاتے ہیں؟

کیا ق لیگ کے پرویز الٰہی کے دھڑے کی تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ہی راہیں جدا ہو جائیں گی یا پرویز الہیٰ عمران خان کو مفاہمت پہ راضی کر لیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments