بلوچستان ہمدردی کا مستحق ہے


گوادر کی بندگاہ تک سی پیک کے ذریعے چین کی رسائی نے صدیوں سے نظروں سے اوجھل پڑے بلوچستان کی ترقی کے امکانات کو روشن کیا تو تکنیکی مہارت سے عاری بلوچ قبائل کو ایک طرف آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے خوف نے دبوچ لیا تو دوسری جانب اسٹریٹجک اہمیت کی حامل گوادر کی تجارتی بندرگاہ عالمی طاقتوں کے مابین کشمکش کا میدان بن کر قومی سلامتی کا مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔ 1950 کی دہائی میں سوئی سے جب قدرتی گیس برآمد ہوئی تو اس وقت کی آئل اینڈ گیس نکالنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے اپنی کل کمائی کا چالیس فیصد مقامی آبادیوں کی بہبود کے لئے خرچ کرنا لازم تھا چنانچہ متذکرہ کمپنیوں نے بلوچوں کے لئے تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے مزین مفت رہائشی کالونیاں بنا کر دینے کی پیشکش کی، جسے اکبر بگٹی سمیت تمام بلوچ سرداروں نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جدید شہری تمدن ہمارے قبائلی رسم رواج سے میل نہیں کھاتا، بلوچ ہمہ وقت محو سفر رہتے ہیں، اگر ان گلہ بان خانہ بدوشوں کی عارضی خیمہ بستیوں کے قریب روزمرہ استعمال کے پانی سے گھاس اگنے لگے تو وہ نقل مکانی کر کے دس میل دور جا بیٹھتے ہیں تاکہ صحرا نوردوں کی آبادی کہیں جڑ نہ پکڑ لے۔

چنانچہ گلہ بانی سے منسلک قبائلی روایات نے بلوچی عوام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق خانہ بدوشی ترک کر کے مستقل معاشرت میں ڈھلنے کا اجازت نہ دے کر نوع انسانی کے اجتماعی دھارے سے الگ تھلگ رکھا، اس لئے وہاں تہذیب و تمدن، فن و ثقافت، صنعت و حرفت اور سائنسی علوم کی نشو و نما نہ ہو سکی تاہم مرورایام کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت نے جب بادیہ نشیں بلوچوں کی نئی نسلوں کو جدید طرز معاشرت کی رنگینیوں سے متعارف اور گلوبل ارتقاء نے بلوچستان کے طول و ارض میں ترقیاتی منصوبوں کی راہ ہموار بنائی تو انہیں اپنے سماج میں بنیادی مہارتوں کی حامل افرادی قوت میسر نہ تھی، اس لئے ممکنہ طور پر باہر سے منگوائی جانے والی ہنرمندوں کی بڑی تعداد نے بلوچستان میں آبادی کا تناسب بدل جانے کا ایسا خوف پیدا کیا جس نے بلوچ سرداروں کو ترقی کے خلاف مزاحمت پہ کمربستہ کر دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صنعتی ترقی سے توانا تجارتی طبقہ پیدا ہوا تو وہ اپنی اقتصادی قوت کے مطابق اقتدار چھین کر فرسودہ جاگیرداری نظام کو تحلیل کر کے زندگی کے دھارے کو ہموار بنا لے گا بلاشبہ صنعتی معاشروں میں لوگوں کو جانچنے کے لئے حسب نسب نہیں بلکہ تخلیقی قوت کو معیار مانا جاتا ہے اور جمہوری نشو و نما کی ابتداء بھی اقتصادی مساوات اور سماجی آزادیوں سے کی جاتی ہے۔

ظاہر ہے اگر بلوچستان میں بڑے پیمانے پہ ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے تو غیرملکی ماہرین اور چینی انجینئرز کے علاوہ الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر، کارپنٹر، لوہار، ترکھان اور ڈیزائنرز سمیت کافی تعداد میں سکل لیبر باہر سے منگوانا پڑے گی، جن کی روزمرہ ضروریات کے لئے بیکری، گروسری، ہیر ڈریسرز، حمام، ڈاکٹرز، میڈیکل ٹیکنیشن بلکہ ترقیاتی پراجیکٹس میں کام کرنے والے مزدور بھی دوسرے صوبوں سے لانے کے بعد معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پولیس فورس اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا محافظ نظام عدل کے قائم کی ضرورت پڑے گی۔

بلوچوں کی اکثریت چونکہ ہر تکنیکی ہنر کو فروتر (کمی ) سمجھ کر نظرانداز کرتی رہی، چنانچہ ان کے لئے گلہ بانی کی ثقافت سے باہر نکل کر باعزت سماجی زندگی کا تصور محال ہے، وہ ہر فرد کے لئے یکساں انسانی حقوق کی حامل قانون کی حکمرانی کی بجائے اپنے سرداروں کی غلامی میں جینے کے خوگر ہونے کی وجہ سے شرف آدمیت کے آفاقی شعور سے ناواقف ہیں۔ لاریب، انہیں ایسے نور علم کی ضرورت تھی جو انہیں زندگی کے عالمگیر تصور سے بہرہ ور کر سکے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 75 سالوں میں کسی گورنمنٹ نے تاریخی تناظر میں بلوچستان کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی نہ عام بلوچوں کے دکھ درد اور مسائل کا حل تلاش کرنے پہ توجہ دی، ہر حکومت بلوچ سرداروں کی ناراضگی کے خوف سے انسانی ترقی کے عمل کو آگے بڑھا کر بلوچ سماج کی فلاح و بہبود کے لئے تخلیقی اپروچ اور سکل ڈیولپمنٹ کا کوئی پروگرام متعارف کرا سکی نہ نچلی سطح سے تازہ دم قیادت کو ابھارنے کی خاطر نئی راہیں استوار کرنے کے قابل ہوئی۔

ہر بلوچ گلہ بان آج بھی چار ہزار سال پرانے ششک (چھٹی بکری سردار کی ہوگی) ٹیکس دینے پہ مجبور ہے، تاریخی دلچسپی کے لئے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آج کی اکیسویں صدی میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے زمیندار بھی غریب مزارعین سے ششک نامی یہی ظالمانہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ قصہ کوتاہ 2019 میں سینیٹر ساجد توری نے کم و بیش 20 سینیٹرز کی حمایت سے بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کا بل پیش کیا تاکہ بلوچستان کی سیاسی فضا پہ چھائے جمود کو توڑ کر نئی صحت مند تبدیلیوں کو راہ ہموار بنائی جائے، اس بل کی بنیاد جن تین منطقی تقاضوں پہ رکھی گئی وہ جائز اور قابل عمل بھی تھے، اس میں پہلا یہ تھا کہ وسیع و عریض ایریا پہ پھیلے حلقہ ہائے نیابت رکن قومی اسمبلی سے سنبھالے جاتے ہیں نہ ایم این اے کے محدود فنڈ سے ان حلقوں میں ترقیاتی کام مکمل ہو سکتے ہیں۔

دوسرے، آٹھ دہائیوں پہ محیط سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ان محدود نشستوں پہ بڑے گھرانوں کی مستقل اجارہ داریوں کی وجہ سے نئی منتخب لیڈرشپ کے ابھرنے کی راہیں مسدود ہیں، اگر نئی نشستیں تخلیق کر لی جائیں تو نوجوان نسل کے کئی باصلاحیت لوگوں کو آگے آنے کے مواقع مل جائیں گے۔ تیسرا، رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سب سے چھوٹی ہے، کچھ نشستیں بڑھ جانے سے یہ پسماندہ صوبہ کسی حد تک وفاق کی دیگر اکائیوں کے ہم پلہ ہو کر ترقی کے ہموار عمل سے ہم قدم اور فیصلہ سازی کے مرکزی دھارے میں شامل ہو جائے گا، جس سے قومی سلامتی کے تقاضوں کی بہتر تکمیل ممکن ہونے کے علاوہ غریب بلوچوں کی نئی نسلیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی پا لیں گی لیکن بعض تکنیکی وجوہ کو جواز بنا کر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کی مخالفت کی، جس کے بعد سینٹ کی لاء اینڈ جسٹس قائمہ کمیٹی کی اصولی منظوری کے باوجود متذکرہ ترمیمی بل سینٹ میں ڈمپ ہو گیا۔

بل کے فعال محرک اور قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹر عثمان کاکڑ (مرحوم) نے موقف اختیار کیا تھا کہ 1998 کی مردم شماری میں بلوچستان کی کل آبادی 65 لاکھ تھی تو آئینی فارمولہ کے مطابق صوبائی اسمبلی کے لئے بلوچستان کی 51 جنرل، خواتین کی 11 ریزرو اور اقلیتوں کی 3 ملا کر کل 65 نشستیں اور قومی اسمبلی کے لئے 16 نشستیں مختص کی گئی تھیں لیکن دو دہائیوں بعد 2017 کی مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی 1 کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ گئی، چنانچہ صوبائی اسمبلی کی 20 اور قومی اسمبلی میں بلوچستان کی 9 نشستیں بڑھانے کے لئے آئین میں ترمیم ناگزیر ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختون خوا کی حمایت کے باوجود سندھ نے اس جائز مطالبہ کی مخالفت کر کے بلوچوں کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔

آصف علی زرداری نے کہا ہم صوبائی اسمبلی کو 20 کی بجائے 30 نشستیں اضافی دے سکتے ہیں مگر بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں بڑھا کر انہیں وفاق میں زیادہ پاور دینے کے حق میں نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کم و بیش چار لاکھ مربع کلو میٹر پہ محیط بلوچستان صوبہ رقبہ کے اعتبار سے پاکستان کا نصف بنتا ہے، دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ کا حامل ہونے کے علاوہ آئل و گیس اور گولڈ سمیت دیگر قیمتی معدنیات پیدا کرنے کی وجہ سے قومی خزانہ میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود نیشنل ایوارڈ اور ترقیاتی کاموں کے لئے سب سے کم حصہ بلوچستان کو ملتا ہے، اس قدر کم وسائل میں بلوچستان جیسے وسیع و عریض صوبہ میں ترقیاتی عمل کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی۔

اندازہ کیجئے کہ 44750 مربع کلو میٹر پہ محیط چاغی ڈویژن، جنوبی خیبرپختون خوا کے کوہاٹ اور بنوں ڈویژن سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلے تین ڈویژنوں سے بڑا ہے لیکن چاغی، نوشکی اور خاران جیسے تین بڑے اضلاع کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ مستونگ، قلات، سکندر آباد کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، لہڑے اور سبی ڈسٹرک کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ نصیرآباد، جھل مگسی اور کچی پہ مشتمل ڈویژن کے لئے صرف ایک نشست۔

جعفر آباد اور صحبت پور کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ لسبیلہ اور گوادر کی ایک نشست۔ پنجگور، واشک، اواران کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ اسی طرح شمال میں قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی ڈسٹرک کے لئے این اے کی ایک نشست۔ موسی خیل، دکی، زیارت، ہرنائی اور لورالائی کے لئے ایم این اے کی ایک نشست۔ صرف پشین اور قلعہ عبداللہ کے لئے ایم این اے کی الگ الگ نشستیں مختص ہیں، یہ قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست والے ڈویژن رقبہ کے اعتبار سے پورے خیبرپختون خوا سے بڑے ہیں۔ جہاں اندرون ضلع رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے لئے بھاری فنڈ درکار ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کے چار اضلاع پہ مشتمل حلقوں کو کراچی کے صرف ایک حلقہ جتنے فنڈ بھی میسر نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments