پینسل گم ہونے اور چوری ہونے میں فرق


ایک بچے کو اس کی پینسل نہیں مل رہی، وہ نیچے لکھے ہوئے فقروں میں سے کوئی بھی فقرہ بول کر یہ بات بتا سکتا ہے

مجھے میری پینسل نہیں مل رہی
مجھ سے میری پینسل گم ہو گئی ہے
میری پینسل کھو گئی ہے
کسی نے میری پینسل لے لی ہے
میری پینسل چوری ہو گئی ہے
میری پینسل کسی نے چرا لی ہے
کسی چور نے میری پینسل چوری کرلی ہے

اگر آج ہم اپنے بچوں کو ان فقروں کا مطلب اور ان میں فرق سمجھا سکیں تو شاید پچیس سال بعد ہمارے معاشرے سے تشکک، تعصب، بد اعتمادی اور بد تمیزی کا وہ طوفان ختم ہو سکے جس کا شکار ہماری قوم آج نظر آتی ہے۔

آج ہی ایک ماضی کے بچے نے کہا کہ پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ اس کی پارٹی کا دشمن ہے، شاید اگر اسے یہ تعلیم دستیاب ہوتی تو وہ دشمن کی بجائے مخالف کا لفظ استعمال کر لیتا۔

یہ بچہ اور اس جیسے دوسرے بچے ہر قسم کی پارٹیوں میں پائے جاتے ہیں اور ہمیشہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کا فرق سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں یا شعوری طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ہم بحیثیت ایک قوم کے اس مسئلے کا شکار کیوں ہوئے میری ناقص رائے میں اس کے دو پہلو ہیں۔

ایک ہمارا زبان دانی کو غیر اہم بلکہ حقیر سمجھنے کا طرز عمل، جو نا صرف تعلیمی شعبے میں نظر آتا ہے بلکہ عملی زندگی میں، ذاتی اور پیشہ ورانہ گفتگو میں بھی جاری و ساری ہے۔ اس کی ایک ذاتی مثال میں خود ہوں، میرے سان گمان میں بھی کہیں نہیں تھا کہ میں اس طرح پروفیشنلی کوئی تحریر لکھ سکتا ہوں، میری تحریریں چھپ سکنے کے قابل ہونے کی واحد وجہ محض کسی حد تک درست اردو لکھ سکنے صلاحیت ہے، حالانکہ میرے خیال میں اتنی صلاحیت ہر پڑھے لکھے شخص میں ہونی چاہیے۔

پی ٹی وی کے دور کے ایک ڈرامے میں (نام یاد نہیں ) ایک سین میں فردوس جمال صاحب ایسے ہی ایک مخمصے میں نظر آتے ہیں جب وہ کسی کام سے پولیس سٹیشن میں موجود ہوتے ہیں اور ایک شخص آ کر کہتا ہے ”وہ جی ایک آدمی ٹرک کے نیچے آ گیا“ فردوس جمال صاحب اس کی تصحیح کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوں نہیں، یوں کہو ”ٹرک ایک شخص کے اوپر چڑھ گیا“

ایسی باریک بین قسم کی اصلاح تو آج کل شاید اساتذہ کے ہاں بھی ناپید ہو لیکن سچ ہے کہ اظہار رائے کی موثر صلاحیت کا فقدان کمیونیکیشن گیپ کو جنم دیتا ہے، جس سے فرسٹریشن، کنفیوژن اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ کنفیوژن چاہے ذاتی زندگیوں میں پیدا ہو رہی ہو یا مجموعی قومی زندگیوں میں، چاہے حقیقی ہو یا مفاد حاصل کرنے کے لئے شعوری طور پر پھیلائی گئی ہو، نتیجہ کم یا زیادہ سطح کی انارکی ہی نکلتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئے دن مختلف قانونی، آئینی معاملات پر موشگافیوں کی صورت میں ملتی رہتی ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے آئین، یا کسی بھی قانونی دستاویز کی تحریر مبہم ہوتی ہے؟ اولا اس لئے کہ تحریر کرنے والے بھی غیر مبہم تحریر لکھنے کی استعداد نہیں رکھتے، ثانیا انہیں نافذ کرنے والے، پڑھنے والے اور تصریح و تشریح کرنے والے بھی صلاحیت نہیں رکھتے اور ثالثا یہ طبقات صلاحیت رکھنے کے باوجود ذاتی گروہی یا ادارہ جاتی مفادات کے تحت ابہام پیدا کرتے ہیں

دوسرا پہلو اس سے بھی خطرناک ہے اور وہ یہ کہ ہم متشدد رویوں کا شکار ہیں، تحریر کے آغاز میں دی گئی مثال کے حساب سے ہم یہ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں کہ ہم خود بھی بھول سکتے ہیں کہ پینسل کہاں رکھی تھی، یا پینسل محض گم بھی ہو سکتی ہے، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی ہے جس نے ہماری پینسل چوری کر لی ہے، اکثر ہم اپنے مفروضے میں کسی چور کا تعین بھی کر چکتے ہیں اور پھر اس چور پر محض پینسل چوری کی حد تک نہیں بلکہ اپنے تمام مسائل، ناکامیوں، کمیوں کوتاہیوں کا ذمہ ڈال دیتے ہیں۔

اس سب کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اکثر اوقات ہماری پینسل کسی ٹیبل کے نیچے، صوفے کے پیچھے یا بستے کے کسی نہاں خانے میں دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ وہ پینسل چاہے ملکی خوشحالی کی ہو، سیاسی استحکام ہو یا سویلین بالا دستی۔ اور وہ صوفہ چاہے درست معاشی فیصلے ہوں، ٹیبل چاہے میثاق جمہوریت اور بستہ شاید جمہوری عمل کا تسلسل۔ اور جب تک ہم آدمی کے ٹرک کے نیچے آنے اور ٹرک کے آدمی پر چڑھ دوڑنے میں فرق کرنا نہیں سمجھیں گے ہم قطعاً اس فرق کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے یا اسے نازک دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔

آئیے پینسل گم ہونے اور چوری ہونے میں فرق سمجھ کر جیئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments