خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری


خیبر پختونخوا کے ساتویں نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر بطور نگران وزیر اعلیٰ کام شروع کر دیا ہے۔ حلف برداری تقریب کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں نگران وزیر اعلی محمد اعظم خان نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات اور امن و امان کا قیام ان کی اولین ترجیح ہوں گی۔ معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے جس کے لئے صوبائی حکومت تمام تر انتظامی تعاون فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کا مسئلہ ہے جس کو بہتر بنانے کے لئے معمول سے بڑھ کر اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے تاہم وہ صوبے کے بقایا جات کا مسئلہ وفاقی حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ اٹھائیں گے۔ این ایچ پی، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز ترجیحی بنیادوں پر جاری کرانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہتر طرز حکمرانی کو فروغ دینے اور عوام کی خدمات تک رسائی کو آسان اور بہتر بنانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

واضح رہے کہ محمد اعظم خان کا آبائی تعلق ضلع چارسدہ سے ہے، وہ ایک سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ 24 اکتوبر 2007 سے یکم اپریل 2008 تک نگران کابینہ میں وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی رہ چکے ہیں۔ وہ جنوری 1997 سے 6 جون 2007 تک اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت لاچی غربت میں کمی کے منصوبے کے ایڈوائزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چیئرمین پاکستان ٹوبیکو بورڈ، سیکرٹری وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل حکومت پاکستان، وفاقی سیکرٹری وزارت مذہبی امور اور ستمبر 1990 سے جولائی 1993 تک چیف سیکرٹری کے پی حکومت رہ چکے ہیں۔

انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد لنکن ان، لندن سے 1962 میں بار ایٹ لاء کی تعلیم حاصل کی ہے۔ خیبرپختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پرایک ہی ملاقات میں اتفاق نے جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین موجود تناؤ کو ختم کرنے میں مدد دی ہے وہاں حکومت اور اپوزیشن کے اس مثبت طرزعمل نے صوبے کے عوام کو بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ در اصل لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ چند دن پہلے تک جو سیاستدان ایک دوسرے کا نام سننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اور جو چند گھنٹے پہلے تک ایک دوسرے کے خلاف منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے وہ یک دم کیسے شیر و شکر ہو گئے۔

یاد رہے کہ قبل ازیں اکرم خان درانی نے ایک بیان میں سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ملاقات سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ محمود خان نے اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ فنڈ دینے کے معاملے پر جتنے وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے اس بیان کے بعد محمود خان نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ فریقین کسی صورت بھی نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر ملاقات پر راضی نہیں ہوں گے اور نگران وزیراعلیٰ کے نام کے لئے معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔

البتہ بعد ازاں سابق وزیردفاع پرویزخٹک نے اس معاملے میں کردار ادا کر کے محمود خان اور اکرم خان درانی کو سابق سپیکر مشتاق غنی کے ہاں ملنے پر راضی کیا اور آخر کار دنیا نے میڈیا پر وہ تصویریں دیکھیں جس میں سابق وزیراعلیٰ اور سابق اپوزیشن رہنما قہقہے لگاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ خیبرپختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر ہماری قیادت چاہے تو ملک میں جاری سیاسی تناؤ کو ختم کرنا کوئی ناممکن امر نہیں ہے اس کے لیے فریقین کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر جس تیزی اور اتفاق رائے سے ہوا ہے اس پر پورے صوبے کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذ آرائی سے صوبے کی سیاست اور خاص کر حکومتی معاملات پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے وہ کم از کم اس عبوری سیٹ اپ کے دوران پس منظر میں چلے جائیں گے، ویسے بھی یہ بدقسمت صوبہ پچھلی چار دہائیوں سے اگر ایک طرف دہشت گردی اور جنگ و جدل کا شکار رہا ہے تو دوسری جانب یہاں کی معیشت بھی روبہ زوال ہے، پی ٹی آئی یہاں پچھلے نو سالوں سے برسر اقتدار رہی ہے لیکن ان نو سالوں میں یہاں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ہر آنے والا دن ان کی زندگیوں میں مزید مشکلات کا باعث بنتا رہا ہے۔

لہٰذا اب جب یہاں ایک ایسے عبوری وزیر اعلیٰ کا تقرر ہو چکا ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہیں ہے بلکہ تمام جماعتوں نے ان کی تعیناتی کا خیرمقدم کیا ہے ایسے میں ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اگر ایک طرف صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنا ہے تو دوسری جانب صوبے کی دگرگوں معاشی حالات کو کسی حد تک سنبھالا دینا اور امن وامان کو یقینی بنانا ایسے چیلنجز ہیں جو ان کی قیادت اور ٹیم کا کڑا امتحان ہو گا۔ اسی طرح توقع ہے کہ وہ اپنی کابینہ انتہائی مختصر اور سمارٹ بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے مخلص، دیانتدار اور قابل افراد کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں گے جن کا مطمح نظر اپنے ذاتی فوائد کی بجائے اس غریب اور پسماندہ جنگ زدہ صوبے کے عوام کی بے لوث خدمت ہو گا۔ #


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments