ایسے ہوتے ہیں ”بیانیے“؟


شوخ، چنچل، خوبرو اور دِلربا ہونے کے باوجود جھوٹ، جھوٹ ہی رہتا ہے۔ اسے ’بیانیہ‘ کا معتبر نام دے دیا جائے تو بھی اس کی عمر بڑی مختصر ہوتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ کوئی اِس کی جوانمرگی کا ماتم کرتا نہ تابوت کو کندھا دیتا ہے۔ سچ بھلے خوبرو اور جامہ زیب نہ ہو، اپنے جوہر میں بڑی توانائی رکھتا ہے۔ دیر سویر، تقویمِ وقت کی کوکھ سے ایک ایسا لمحہ ضرور پھوٹتا ہے جب جھوٹ آخری ہچکی لیتا اور سچ کا بابِ فضیلت کھل جاتا ہے۔ تب فریب کے تہہ دَر تہہ نقابوں میں لپٹے چہرے بے حجاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

عمران خان کو ”شہنشاہِ بیانیہ“ کہا جاتا ہے، یہ جانے بغیر کہ بیانیہ کیا ہوتا ہے؟ اِس کے اَجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ یہ کس طرح تشکیل پاتا ہے؟ اِس میں تجربے، تدبّر، حکمت اور دانش کا کس قدر رچاﺅ ہوتا ہے؟ میڈیا اِن جھمیلوں میں پڑتا ہے نہ مقلدین کو اِن سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ ”بیانیہ“ بڑا توانا تشخص رکھتا ہے۔ ہماری تاریخ میں اِس کی سب سے بڑی نظیر ”دو قومی نظریہ“ ہے جس کا پرچم قائداعظم محمد علی جناح نے اٹھایا۔ جداگانہ قومیت کی علامت اِس بیانیے نے مسلمانانِ ہند کے دلوں کو ایک ولولہ تازہ دیا اور اپنی قوت کے بل پر خطے کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔ ہمہ پہلو زوال کے اِن بے مہر موسموں میں جز وقتی مفاد کے لئے لغو، سطحی اور بے معنی سے سیاسی بیانات کو بھی ”بیانیہ“ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اِسی معیار پر پرکھتے ہوئے عمران خان عصرحاضر کے سب سے بڑے ”بیانیہ تراش“ سمجھے جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ دِنوں سے اسٹیبلشمنٹ مخالف اِنقلابی کے طور پر ان کا ”بیانیہ“ ابھارا، اچھالا اور اجالا جا رہا ہے۔

ریاض خیرآبادی نے کہا تھا ”سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا“۔ عمران خان کے سامنے بھی ٹوٹے ہوئے رنگا رنگ بیانیوں کا ایک انبارِ گراں ہے۔ اصولوں کی سیاست، نیا پاکستان، تبدیلی، بے لاگ احتساب، کرپشن کا خاتمہ، قانون کی بالادستی، انصاف کی کارفرمائی، خودی کی سربلندی، میرٹ کی پاسداری، دستِ سوال پر خودکشی، ریاست مدینہ، امربالمعروف، خلافتِ راشدہ کا نمونہِ تقلید، جدی پشتی سیاستدانوں سے دوری، لوٹوں کی نفی، کسی دباﺅ کے بغیر حکمرانی، سائیکل پر سفر، وزیراعظم ہاﺅس کی کالونی کے ایک گھر میں دفتر، صرف دوملازمین ، وزیراعظم ہاﺅس کا یونیورسٹی بننا، گورنر ہاﺅسز جیسی سامراجی نشانیوں کا خاتمہ، کروڑوں ملازمتیں، لاکھوں گھر، اَن گنت ڈیم اور جانے کیا کیا کچھ ”بیانیوں“ کے اس انبوہِ خس وخاشاک کا حصہ ہے۔ گزشتہ آٹھ نو ماہ سے وہ روایتی اسٹیبلشمنٹ (جسے میں نے ’تیسرا‘ کانام دیا ہے) پر تیر برسا رہے ہیں۔ تاثر وہ یہ دینا چاہتے ہیں کہ میں سول بالا دستی، آئین کی عمل داری اور جمہوریت کی پاسداری کا پرچم بردار ہوں۔ ان عناصر کے سخت خلاف ہوں جو آئینی حدود سے تجاوز کرتے اور سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے خطبات سے قطعِ نظر، عشروں پر محیط ان کا کردار اور پسِ چلمن سے جھانکتی کہانیاں، ان کے نام نہاد ’بیانیے‘ کی نفی کرتی ہیں۔ 1999 کا مارشل لا ان کے فلسفہِ سیاست کی پہلی آزمائش تھی۔ وہ آئین، عوام اور جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹر کا دست وبازو بن گئے۔ اس وقت تک دربارِ آمریت میں جھومر ڈالتے رہے جب تک خود آمر نے منہ نہیں پھیر لیا۔ شجاع پاشا اور ان کے جانشین اَبرکرم بن کر ان کی کشت ویراں پر برستے رہے۔ ہر ”تیسرا“ ان کی بلائیں لیتا رہا۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ ان کے دھرنوں اور جلسوں کو کس نے رونق بخشی؟ کروڑوں کا خرچہ کس نے اٹھایا؟ میڈیا کی مشکیں کس نے کسیں؟ ججوں کو کس نے دھمکایا اور لبھایا؟ پانامہ سے اقامہ کس نے کشید کیا ؟ انتخابی امیدوار کس نے چنے ؟ ٹِکٹیں کس نے بانٹیں؟ ’آرٹی ایس‘ کی گردن کِس نے دبوچی؟ بے مہار بھیڑ بکریوں کے گلے کون ہانک کر پی۔ ٹی۔ آئی کے باڑے میں لایا؟ اور کون کامل چار برس تک، خان صاحب کے، نک چڑھی دلہن جیسے ناز نخرے اٹھاتا رہا؟

عمران خان کے دل ودماغ میں دہکتا آتش فشاں اس دِن پھٹا، جس دن تحریک عدم اعتماد نے انگڑائی لی اور انہیں محرومِ اقتدار ہونا پڑا۔ گلہ یہ ہے کہ برس ہا برس سے ان کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والے ’تیسرے‘ نے انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا۔ ان کا تحفظ اسی والہانہ پن کے ساتھ کیوں نہ کیا جس کا مظاہرہ 2011 کے لاہوری جلسے سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ جس کے تابندہ نمونے خان صاحب کے سفرِ سیاست کے ہر ہر موڑ پر نصب تھے۔

خود خان صاحب کے دِل میں ”تیسرے“ کے عشق کی یہ کیفیت تھی کہ 2019 میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت آیا تو وہ جنرل باجوہ کی دہلیز پر ڈھیر ہو گئے۔ تین سال کی توسیع دے کر ”سول بالادستی“ کا بھرم رکھ لیا۔ 2022میں اقتدار کی ناﺅ ہچکولے کھانے لگی تو جنرل باجوہ کو دہائی دی، ”جتنی چاہو توسیع لے لو ، بس میری حکومت بچالو۔“ جنرل باجوہ اپنے چھ سالہ دستورالعمل پر چلتے رہنے کا عہد کرتے ہوئے خان صاحب کی سرپرستی جاری رکھتے تو آج بھی خان صاحب کی حکومت ہوتی اور جنرل باجوہ چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب جلیلہ پر فائز ہوتے۔ یہ نہ ہوا۔ پھر وہ موجودہ آرمی چیف کا راستہ روکنے کے لئے انگاروں پر لوٹتے رہے۔ زخمی ہونے کے باوجود ایک لشکرِجرار کی توقع لئے اسلام آباد کی طرف لپکے لیکن عوام نے ساتھ نہ دیا۔

اَب وہ اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے رحم طلب نگاہوں سے ایک بار پھر راولپنڈی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آج بھی ”تیسرا“ بلکہ تیسرے کا کوئی چوتھا یا پانچواں، ہلکا سا اشارہ بھی کرے تو خان صاحب، زخمی ٹانگ کے باوجود، راولپنڈی کے لئے رخت سفر باندھ لیں گے اور ان کے لبوں پر وہی وسیع وعریض مسکراہٹ رقصاں ہوگی جو 28 اگست 2014 کی شب، جنرل راحیل شریف کے بلاوے پر راولپنڈی روانہ ہوتے ہوئے ان کے چہرے پر کھل اٹھی تھی۔ ”تیسرے“ سے ان کی خفگی، کسی اصول، نظریے یا سیاسی مسلک کی وجہ سے نہیں، ”یک جان دو قالب“ کا رشتہ ٹوٹ جانے کے سبب ہے۔ ان کا دکھ اصولی نہیں، خانہ بدر کر دی جانے والی اس خاتون جیسا ہے جو گلی گلی سیاپا کرتی ہے کہ ”چلو مجھے تو نکالا مگر میری سوکن کو کیوں لا بسایا“۔

کیا اِسے ”بیانیہ“ کا نام دیا جاسکتا ہے ؟ ایسے ہوتے ہیں بیانیے؟

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments