ہیروں کے تاجر کی بیٹی جس نے اربوں کے کاروبار کی ملکیت ٹھکرا کر راہبہ بننے کا فیصلہ کیا


آٹھ سالہ دیوانشی سنگھوی ہیروں کے ایسے کاروبار کی مالک بن سکتی تھیں جس کی مالیت اربوں میں ہوتی۔

لیکن ایک امیر انڈین تاجر کی بیٹی اب ننگے پاؤں، سفید ساڑھی میں ملبوس بھیک مانگ رہی ہے۔

دھنیش اور ایمی سنگھوی کی بڑی بیٹی، دیوانشی، نے گذشتہ ہفتے راہبہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔

سنگھوی خاندان کا شمار ان 45 لاکھ افراد میں ہوتا ہے جو جین مت کے پیروکار ہیں۔ اس مذہب کا آغاز تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل انڈیا سے ہی ہوا تھا۔

مذہبی سکالرز کا کہنا ہے کہ جین مت سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کی تعداد گذشتہ چند سال میں تیزی سے بڑھی ہے جو دنیاوی فوائد سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔ تاہم دیوانشی کی عمر میں ایسا فیصلہ لینا غیر معمولی ہے۔

گذشتہ بدھ کو انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر سورت میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں دیوانشی نے جین مت کے راہبوں اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں ’ڈکشا‘ یعنی دنیا تیاگنے کا حلف اٹھایا۔

اپنے والدین کے ہمراہ، دیوانشی ریشمی لباس اور زیورات سے آراستہ تھیں جبکہ ہیروں سے لدا ایک تاج ان کے سر پر رکھا ہوا تھا۔

تقریب کے بعد وہ منڈے ہوئے سر کے ساتھ ایک سفید ساڑھی میں ملبوس دیگر راہباؤں کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔

اس تقریب کی تصاویر میں انھیں ایک عصا تھامے دیکھا جاسکتا ہے جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے راستے میں آنے والے کیڑوں کو ہٹائیں گی تاکہ غلطی سے ان پر قدم نہ رکھ دیں۔

’اس کے ماں باپ اب اس کے والدین نہیں رہے‘

دیوانشی اس تقریب کے بعد سے دیگر جین مت کے راہباؤں اور راہبوں کے ساتھ ایک خانقاہ میں زندگی گزار رہی ہیں۔

کرتی شاہ سورت سے تعلق رکھنے والے ہیروں کے تاجر ہیں جو بی جے پی کے مقامی سیاست دان بھی ہیں اور دیوانشی کے خاندان کے دوست بھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب دیوانشی اپنے گھر نہیں رہ سکتی، اس کے ماں باپ اب اس کے والدین نہیں رہے، وہ سادھوی بن چکی ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جین مت کی راہبہ کی زندگی بہت سادہ ہوتی ہے۔ اب اسے پیدل چلنا پڑے گا، وہ کسی ٹرانسپورٹ کا استعمال نہیں کر سکتیں، اسے زمین پر ایک سفید چادر پر سونا ہو گا اور سورج ڈوبنے کے بعد وہ کھانا نہیں کھا سکتی۔‘

واضح رہے کہ جین مت میں صرف ایک ہی ایسا فرقہ ہے جس میں کم عمر بچوں کو ایسا کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ دیگر تین فرقوں میں بلوغت کے بعد ہی راہب یا راہبہ بننے کی اجازت ہوتی ہے۔

دیوانشی کے والدین کا مذہب کی طرف رجحان رہا ہے اور انڈین میڈیا نے خاندان کے دوستوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کم عمر دیوانشی اپنے بچپن سے ہی روحانی زندگی کی طرف جھکاؤ رکھتی تھیں۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ’دیوانشی نے کبھی ٹی وی نہیں دیکھا، فلمیں نہیں دیکھیں، حتیٰ کہ وہ ریسٹورنٹس یا شاپنگ مالز تک نہیں جاتی تھیں۔‘

اخبار کے مطابق دیوانشی کم عمری سے ہی دن میں تین وقت عبادت کرتی تھی اور دو سال کی عمر سے جین مت کے مطابق روزے رکھ رہی ہے۔

انڈیا اور یورپ تک میں جلوس

دیوانشی کے راہبہ بننے سے ایک دن قبل اس کے خاندان نے شہر میں ایک بڑے جلوس کا انتظام کیا تھا جس میں ناچنے والے بھی شامل تھے۔

اس جلوس کے دوران دیوانشی اور اس کا خاندان ایک بگھی پر بیٹھے تھے جسے ایک ہاتھی کھینچ رہا تھا جبکہ ہجوم کی جانب سے ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔

سنگھوی خاندان نے دیوانشی کے اس فیصلے پر صرف اپنے شہر میں ہی نہیں بلکہ ممبئی اور بیلجیئم تک میں جشن منایا جہاں ان کا کاروبار ہے۔

تاہم ایک جانب جہاں دیوانشی کے اس فیصلے کو جین مت کمیونٹی کی حمایت حاصل ہے وہیں بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ خاندان نے ان کی بلوغت کا انتظار کیوں نہیں کیا تاکہ وہ خود سے اہم فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتیں۔

مسٹر کرتی شاہ، جن کو دیوانشی کی تقریب میں مدعو کیا گیا لیکن وہ نہیں گئے، کے مطابق ایک بچے کی جانب سے دنیا کو چھوڑنے کا فیصلہ ان کے لیے عجیب سا ہے کیوں کہ ’کسی مذہب میں بچوں کو راہب بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ تو بچی ہے، اسے اس سب کی کیا سمجھ ہے؟ بچے تو 16 سال کی عمر تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ان کو کالج میں کون سے مضمون پڑھنے ہیں۔ وہ ایک ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں جس کا اثر ان کی پوری زندگی پر ہو گا؟‘

پروفیسر نلما مہتا کا کہنا ہے کہ ’دیوانشی کو بے شمار مشکلات اور محرومیوں کا سامنا کرنا ہو گا کیوں کہ جین مت میں راہبہ کی زندگی بہت مشکل ہے۔‘

بچوں کے حقوق

اپنے خاندان سے اتنی کم عمری میں علیحدہ ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر دیگر کمیونٹیز بھی خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت سے افراد نے سنگھوی خاندان پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے حقوق سلب کر رہے ہیں۔ کرتی شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کو ایسی روایت کو روکنا چاہیے۔ تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

میں نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس یعنی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم تنظیم کے چیف سے رابطہ کیا کہ آیا حکومت اس معاملے پر کچھ کرنے جا رہی ہے تو ان کے آفس نے جواب دیا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اس لیے وہ اس پر رائے نہیں دینا چاہتے۔‘

انڈیا

تاہم انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کو یقین ہے کہ دیوانشی کے حقوق سلب ہوئے ہیں۔

پروفیسر مہتا کہتی ہیں کہ ’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بچی نے یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کیا، ایک بچے کی رضامندی قانون میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’قانونی طور پر آزادانہ فیصلہ کرنے کی عمر 18 سال ہے اور اس سے پہلے بالغ افراد جیسا کہ والدین ہی فیصلے لیتے ہیں جن کو سوچنا ہوتا ہے کہ آیا یہ ان کے لیے ایک بہتر فیصلہ ہے یا نہیں۔‘

’اور اگر یہ فیصلہ بچے کو تعلیم اور تفریح سے محروم کر رہا ہے تو یہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

دوسری جانب ممبئی یونیورسٹی میں جین مت کا فلسفہ پڑھانے والے ڈاکٹر بپن دوشی کا کہنا ہے کہ قانونی اصول روحانی دنیا پر لاگو نہیں ہو سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایک بچہ ایسا فیصلہ نہیں لے سکتا لیکن بہتر ذہنی صلاحیت رکھنے والے بچے بھی ہوتے ہیں جو کم عمری میں کسی بالغ کے مقابلے میں زیادہ حاصل کر لیتے ہیں۔

اسی طرح ایسے بچے ہوتے ہیں جن کا روحانیت کی جانب رجحان ہوتا ہے تو اگر ہو راہب بن جائیں تو اس میں کیا غلط ہے؟‘

ڈاکٹر دوشی کا کہنا ہے کہ ’دیوانشی روایتی تفریح سے شاید محروم رہے لیکن کیا یہ سب کے لیے ضروری ہے؟‘

’میں نہیں سمجھتا کہ وہ تعلیم اور محبت سے محروم رہے گی، اسے اپنے گرو سے محبت ملے گی اور وہ دیانت داری سیکھے گی، کیا یہ بہتر نہیں؟‘

ڈاکٹر دوشی کا کہنا ہے کہ اگر دیوانشی کا ذہن بدل گیا اور اس نے بعد میں سوچا کہ اس نے غلط فیصلہ لیا تھا تو ’اس کے پاس واپسی کا راستہ موجود ہے۔‘

پروفیسر مہتا کا کہنا ہے کہ چند سال قبل انھوں نے جین مت سے تعلق ایک ایسی نوجوان راہبہ کا علاج کیا جو اپنی خانقاہ سے اس لیے بھاگی تھی کیوں کہ اس کا تجربہ اچھا نہیں تھا۔

سنہ 2009 میں بھی ایک سکینڈل سامنے آیا جب نو سال کی عمر میں راہبہ بن جانے والی ایک لڑکی نے 21 سال کی عمر میں ایک لڑکے سے شادی کر لی تھی۔

ماضی میں ایسے کیسز پر عدالتوں میں درخواستیں دی جاتی رہی ہیں لیکن پروفہسر مہتا کا کہنا ہے کہ حساسیت کی وجہ سے معاشرتی تبدیلی مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ روایت صرف جین مت میں ہی نہیں ہے۔ ’ہندو لڑکیوں کی شادی دیوتاؤں سے کر دی جاتی ہے اور وہ دیوداسی بن جاتی ہیں، (اگرچہ اس رسم کو 1947 میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا)، اور چھوٹے بچے اکھاڑوں یا مذہبی سینٹرز میں ڈال دیے جاتے ہیں جبکہ بدھ مت میں بچوں کو خانقاہوں میں رہنے بھیج دیا جاتا ہے۔‘

’بچوں پر ہر مذہب میں ہی زبردستی کی جاتی ہے لیکن اس کے خلاف بات کرنا توہین قرار دے دی جاتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments