پاکستانی ڈراموں کی خواتین کے لیے ذہنی تخریب کاری


ڈاکٹر عظمیٰ سلیم کے مضمون ”پاکستانی ڈرامہ اور بے عمل نسوانی کردار“ کو پڑھنے کے بعد میں بھی خواتین سے پاکستانی ڈراموں کے بارے میں کچھ باتیں کہنا چاہتی ہوں۔ پچھلے سال ایک عزیز دوست کے شوہر کی وفات کے بعد ان کے ساتھ زیادہ وقت گزرنے لگا۔ اپنی پیدائش کے ملکوں سے دور اور اب درمیانی عمر میں ہم خیال دوست ہی ہمارے خاندان ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کچھ پاکستانی ڈرامے دکھائے جن کو دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گئی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک ٹائم کیپسول ہے جو آج بھی بالکل ویسا ہی ہے جیسا پچاس سال پہلے تھا۔ شاید پچاس سال پہلے، اس سے پچاس سال پہلے کی طرح کا تھا۔ شاید سینکڑوں سال اسی طرح گزر گئے ہیں جن میں ہم دائروں میں جی رہے ہیں۔ ان پاکستانی ڈراموں میں بہت سارے مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

ان باتوں سے پہلے آپ کو میرے پس منظر سے بھی آگاہی ضروری ہے۔ جس وقت ہم پری میڈ میں تھے اور ٹی وی پر پاکستانی ڈرامہ رات آٹھ بجے آتا تھا تو سر راحت بالکل اسی وقت ٹیوشن پڑھانے پہنچ جاتے تھے۔ اس لیے اس وقت سے ہی ڈراموں سے نہ چاہتے ہوئے بھی دوری پیدا ہو گئی تھی۔ اس وقت ہمیں برا بھی لگتا تھا کہ سر راحت ہماری تفریح کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ میڈیکل کالج میں ہم اپنا زیادہ تر وقت پڑھائی میں خرچ کرتے تھے اور ڈرامے دیکھنا روزانہ کے معمول میں شامل نہیں تھا۔

جس وقت ہم لوگ امریکہ شفٹ ہوئے تو اس زمانے میں اس طرح انٹرنیٹ نہیں ہوتا تھا جیسے آج ہے۔ تفریح کے لیے جو کچھ بھی ٹی وی پر یا مووی تھیٹر پر جاکر دیکھنا ہو تو وہ وہی ہوتا تھا جو گھر کے دیگر افراد یا میرے بچے دیکھ رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ دیکھی ہوئی موویز میری سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں جیسے کہ فائنڈنگ نیمو، ریٹاٹولی اور ایواٹار۔ یہ کہانیاں بچوں کی طرح امید زندہ رکھتی ہیں کہ ہم پرانی دنیا کو نئی نظر سے دیکھ سکتے ہیں اور اپنی ہمت اور ارادے سے کچھ بھی بدل سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ تاریخی فکشن مجھے بہت پسند ہیں کیونکہ ان سے مجھے کئی تاریخی واقعات کو انسانی تناظر میں سمجھنے کا موقع ملا اور ان سے بہت سیکھنے کو ملا۔ ان میں پرل ہاربر جو جاپان کے امریکہ پر حملے سے متعلق ہے، آئرن جاڈ اینجلز جو کہ امریکی خواتین کی ووٹ کا حق حاصل کرنے کی جدوجہد سے متعلق ہے اور گرین بک جو کہ امریکی کالوں کی نسل پرستی سے مقابلے کی کہانی ہے، شامل ہیں۔

میرے مشاہدے کے مطابق پاکستانی ڈراموں میں مندرجہ ذیل مسائل پائے جاتے ہیں۔

پہلا مسئلہ: نقل اور بناوٹ۔ ہمارے گھر اور گلیاں، کوڑا کرکٹ، اڑتی ہوئی مٹی، بسوں میں دھکے کھاتے پسینے سے نہاتے افراد جو روزمرہ زندگی میں ہمارے اردگرد ہیں، وہ ہی ایک سچائی ہیں۔ حقیقت خوبصورت ہوتی ہے، احساسات سے بھری ہوتی ہے۔ ہمارے اصل ماحول میں چنبیلی، سموسے اور پکوڑے کی خوشبوئیں ہیں، بازار میں چلتے پھرتے لوگوں کی، گاڑیوں کی اور پرندوں کی آوازیں ہیں، زندگی ہے۔ اکثر پاکستانی ڈرامے کارٹون کی طرح مارکر سے بنائے ہوئے اور نقلی سیٹ میں جمائے ہوئے لگتے ہیں جن میں کردار کلف کیے ہوئے کپڑوں کی طرح ہوں۔ گھروں میں سب کچھ ایسا سمٹا ہوا لگتا ہے جیسے آج ہی ایک نئے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصلی زندگی میں ایک بے ہنگمی ہوتی ہے۔ کرداروں کا ایک دوسرے سے تعلق اور بات چیت ایسی لگتی ہے جیسے انہیں معلوم ہے کہ ہمیں دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا آپس میں انٹرایکشن قدرتی نہیں ہوتا۔

مسئلہ نمبر دو: عمر رسیدہ خواتین کا سب کو شادیوں پر اکسانا۔ پچھلے ہفتے ایک پاکستانی ڈرامے میں ایک امیر اور مالدار آدمی کے گھر میں اس کی ماں اس سے ملنے آئیں اور اس کو دوسری شادی کر لینے کی ترغیب دیتی دکھائی دیں۔ شکریہ ان پروڈیوسر کا جنہوں نے ان عمر رسیدہ خاتون کو اپنے بیٹے کے گھر میں رہتے نہیں دکھایا۔ یہ پروگریس انہوں نے دکھائی ہے۔ جب تک ہاتھ پیر چلتے رہیں اور معذوری نہ ہو تو مختلف نسلوں کے افراد کا اپنے اپنے گھر میں رہنا اور ایک دوسرے سے صحت مند فاصلہ اہم ہے۔

ابھی تک پاکستانی ڈرامے کی ان خواتین کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آئی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی شادیاں کروانے کی کوششیں بند کر دیں؟ ہر عمر کی خواتین کو صرف ایک شادی میں دلچسپی ہونی چاہیے اور وہ ان کی اپنی ہے۔ حدیقہ کیانی نے حال ہی میں ایک ڈرامے ”دوبارہ“ میں ایک بیوہ کی اداکاری کی جس نے خود سے کم عمر آدمی سے شادی کی۔ یہ مثال اصل زندگیوں پر اثر انداز اس مصنوعی دنیا میں ایک امید کی کرن ہے۔

مسئلہ نمبر تین: نوکروں کے ساتھ بدسلوکی۔ اوپر دیے گئے ڈرامے میں اپنے بیٹے کے کمرے سے جانے کے بعد ان خاتون نے بلاوجہ گھر کی ملازمہ کو لتاڑا کہ اس نے بغیر پوچھے ان کی خاطر مدارات شروع کیوں نہیں کی؟ یعنی کہ نوکروں کا صرف خدمت کے لیے حاضر ہونا ہی کافی نہیں، ان کو ہمارا دماغ بھی پڑھنا آنا چاہیے۔ حالانکہ یہ ملازمہ ان کی ہی عمر کی تھیں اور ان کو کچھ تمیز سے بات کرنی چاہیے تھی۔ ان خاتون کو ایک منفی کردار کے طور پر نہیں دکھایا گیا تھا۔

ملازمہ نے ایک رٹا رٹایا جملہ بول دیا کہ معاف کریں غلطی ہو گئی۔ یہ سننے کے بعد بھی وہ بڑبڑاتی رہیں۔ ان پاکستانی ڈراموں کے غریب افراد نے یہی سیکھ لیا ہو گا کہ ان بدتمیز آنٹی کو کچھ کہنے سے نوکری جا سکتی ہے اس لیے ان کے پیچھے ان کو برا بھلا کہیں یا دل میں کوسیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس غلامی کو دل سے قبول کر لیا ہو۔ شاید یہ پاکستانی ڈرامے کے کلچر کے لیے ایک نارمل بات ہے کہ اپنے ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ انہوں نے ابھی یہ نہیں سیکھا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ انسانی برابری محمود و ایاز کے ساتھ کھڑے ہونے کو گلوریفارئی کرنے سے نہیں بلکہ اپنے ڈرائیور، اپنے چپراسی اور اپنے مالی سے تمیز سے بات سے شروع ہوتی ہے۔ تہذیب اپنے ملبوسات سے نہیں بلکہ اپنے الفاظ اور رویے سے دکھانا شروع کرنا ہو گا۔

مسئلہ نمبر چار۔ کزن میرج کی رومانویت کا فروغ۔ ایک ڈرامے میں ایک بیٹی کا باپ اپنے غریب بھانجے کا رشتہ یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ تم غریب ہو۔ تم خون کے رشتے دار ہو، یہ بھی تو کہہ سکتے تھے۔ ایک ہزار اور ایک راتوں کی کہانیوں کا وقت گزرے صدیاں بیت چکی ہیں جس میں صحرا میں کزن سے رومان کی کہانیاں ہیں، لیکن پاکستانی ڈرامے کو آج تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ کزن سے شادی کرنے سے بچوں میں جسمانی اور دماغی معذوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح ایک اور ڈرامے میں ایک خاتون اپنے شوہر پر چلاتی دکھائی جاتی ہیں کہ میں اپنی بہن کی بیٹی کو اس گھر میں کبھی آنے نہیں دوں گی۔ اس سیناریو میں بہت سارے مسائل ہیں۔ ان کا بیٹا عاقل بالغ ہے اور وہ جس سے چاہے شادی کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر ان کے اپنی بہن سے اچھے تعلقات نہیں ہیں تو اس کا ان کی بھانجی سے یا ان کے بیٹے کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں بھی کزن میرج سے متعلق تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ یہ کردار بظاہر تعلیم یافتہ اور خوشحال دکھائے گئے۔

مسئلہ نمبر پانچ۔ خواتین کا جبری نظام کو قبول کرلینا اور اس کو فروغ دینے میں ہاتھ بٹانا۔ یہ بات شاید اندر سے دیکھنے والا نہ سمجھ سکے لیکن فاصلے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی ڈراموں کے کردار انہی اقدار کو فروغ دیتے دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خاتون کے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ ان خاتون کے گھر میں مذہبی علامات کی سجاوٹ ہے اور وہ بہت قوم پرست دکھائی گئی ہیں۔

پاکستانی ڈرامے کے اس کردار کے ذہن میں سے یہ خیال گزرتا نہیں دکھایا جاتا کہ شاید ہمارے عقائد میں کچھ خرابی ہے، خواتین کے لیے بے انصافی ہے یا ملک کے قانون میں تبدیلی لائیں۔ ان کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کسی قسم کا قانونی نظام استعمال کر کے ان کی وراثت کی حفاظت کرتے نہیں دکھایا گیا۔ ان کی دنیا تلپٹ ہو چکی ہے لیکن ایسا کرنے کے بجائے ان خاتون کا زور اس بات پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اپنے سماجی حلقے میں سب کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ان کی مرضی سے ہو رہا ہے تاکہ ان کا اس صورت حال پر کنٹرول ظاہر رہے۔

پاکستانی ڈرامے میں ابھی تک ایک نارمل خواتین کے نارمل رویے کو اور اپنے قانونی اور مذہبی حقوق کو استعمال کرنے کو منفی رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مثلاً ان کی زبان یوں ہے کہ ایک بیس سالہ لڑکی گھر سے بھاگ گئی۔ حالانکہ ایک بیس سالہ لڑکی عاقل اور بالغ ہے۔ اس کو کسی بھی مکان سے باہر جانے کے لیے کسی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ جن کے گھر سے اس کو بھاگنے کی ضرورت پیش آ گئی وہ ہی ایک برابر کے شہری کو یرغمال بنانے کے لیے سزا کے حقدار مجرم ہیں۔ پاکستانی ڈراموں میں خواتین اپنی بیٹیوں کو یہ ضرور بتاتی دکھائی دیتی ہیں کہ وہ اپنے پائنچے نیچے کریں یا سر ڈھک کر گلی میں سے گزریں لیکن ان کو لڑکوں سے یہ کہنے کا خیال کبھی نہیں آتا کہ گلی میں بلاوجہ کھڑے ہو کر آتی جاتی خواتین کو تاڑنے اور ان پر جملے کسنے سے باز رہیں۔

مسئلہ نمبر چھ۔ خواتین اور ان کی بیڈ بوائز میں دلچسپی۔

ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ وہ مختلف ہے، اس کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا جیسے پہلے ہو چکا ہے۔ یہ پاکستانی ڈرامے آپ کی جان لینے کے سبق سکھانے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے سب سے خطرناک سبق یہ ہے کہ آپ کے خاندان یا عزیزوں میں سینا چوڑا کر کے سڑک پر چلنے والا آدمی، بندوقوں سے مسائل حل کرنے والا آدمی یہ حق رکھتا ہے کہ آپ کو کلائی سے پکڑ کر آپ کی مرضی کے خلاف گاڑی میں پھینک کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکے۔ اس رویے کو جنسی ہیجان کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ بہت سی خواتین ایک تمیز دار آدمی کے لیے کوئی کشش محسوس نہیں کرتیں۔

پاکستانی ڈرامہ آپ کو دھوکا دے رہا ہے کہ آپ ایسے آدمیوں کو اپنی خوبصورتی سے، یا اپنی چکن بریانی سے ایک جنگلی سے مہذب انسان میں بدل دیں گی۔ آپ کی طرح کی بہت ساری خواتین، اتنی ہی خوبصورت اور اس سے بھی عمدہ چکن تکہ بنانے والی خواتین کو تباہ برباد کیا جا چکا ہے۔ اپنے ذہنوں کو ان پاکستانی ڈراموں کی تخریب کاری سے بچانا خواتین کے لیے اتنا ہی اہم ہے جیسا کہ سگریٹ نوشی، شراب، بغیر ورزش کی زندگی یا میٹھا زیادہ کھانا۔

شاید یہاں ڈرامہ بنانے والے یہ کہیں کہ ہم وہی دکھا رہے ہیں جو اصل میں ہے۔ اگر ایسا ہے تو بہت ساری ترقی پسند اور روشن خیالی ہمارے گرد موجود ہے۔ اس کا پاکستانی ڈرامے میں فقدان کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments