تعلیمی اداروں میں منشیات کی لعنت


دور حاضر کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک منشیات کی لعنت ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اس سے محفوظ ہو۔ نوجوان نسل میں منشیات کا فروغ ہر شعبہ زندگی کے لئے ایک تشویشناک امر ہے۔ اس کی وجہ سے کئی ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں۔ نشہ نسلوں کو کھا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ لمحہ فکریہ، یہ ہے کہ ہر سال اس تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی خاصی تعداد اس لت کا شکار ہو رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد منشیات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نشہ کی لت دولت مند گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں میں زیادہ ہے۔ کیونکہ پیسہ ان کے لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتا اور نشہ بیچنے والے ایسے ہی امیر گھرانوں کے لوگوں کو پھانستے ہیں کیونکہ وہ آسان اور منافع بخش کاروبار کو ایسے ہی امیر زادوں سے بڑھاتے ہیں۔ ایک بار حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کا خون ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ان میں سے جن لوگوں کے خون میں نشہ پایا گیا اس کا علاج ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منشیات فروشوں پہ نظر رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی محض وعدہ ہی رہا۔

نشے کی اقسام میں سے نوجوانوں میں ”آئس نامی“ قاتل نشے کا بڑھتا ہوا رجحان حد درجہ تشویشناک ہے۔ ”آئس“ سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔ ”پارٹی ڈرگز“ کہلانے والی یہ منشیات پارٹیز سے نکل کر تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن، چرس اور دیگر نشے عام تھے۔ ”آئس“ ان ناموں میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ چند سالوں سے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہو رہی ہے۔

اس کو سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیا جاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح بظاہر معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس نشے میں 24 سے 48 گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے پہل طلبہ اس کی طرف اس لئے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرسکیں مگر اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ بعد میں وہ ان کے دماغ کو کمزور اور وجود کو کمزور کر کے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کر دیتا ہے۔

وہ معاشرے کے ناکارہ فرد بن کر رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ICE کا نشہ amphetamine نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے ۔ اس کے لئے عموماً بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ کے آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے پوش علاقوں، جامعات، ہاسٹلز اور فارم ہاؤسز میں اس نشے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر اقتدار کی جامعات میں بھی بآسانی یہ آئس نامی زہر قاتل دستیاب ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی ملازمین اور دیگر افراد نوجوانوں کو آئس فراہم کرتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ان کی مصروفیات دوستوں کا حلقہ اور دیگر مقامات پر جہاں وہ جاتے ہیں مثلاً کوچنگ سینٹر پر بھی نظر رکھیں۔

آج کل ماں باپ نے اولاد کو بالکل اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں اور کوچنگ سنٹرز پہنچا کر ان کی ذمے داریاں ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے اولاد کو جوان ہونے تک والدین اور اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے لیکن دونوں طبقات اپنا رول ٹھیک سے انجام نہیں دے رہے۔ حال ہی میں لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں نجی اسکول کی طالبہ علیحہ عمران کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ انتہائی الارمنگ ہے۔ کلاس فیلو طالبات نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ تھانہ ڈیفنس میں درج مقدمے میں بچی کے والد مدعی عمران یونس نے موقف اپنایا کہ اس کی بیٹی علیحہ عمران کو کلاس فیلو جنت، اس کی بہن کائنات، عمائمہ اور نور رحمان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایف آئی آر کے مطابق باکسر عمائمہ متاثرہ لڑکی کو کھینچ کر کینٹین کی طرف لے گئی، اسے بالوں سے پکڑا، زمین پر گرایا اور ٹھوکریں ماریں، ملزمہ کا بھائی ویڈیو بناتا رہا۔

متاثرہ لڑکی کی سونے کی چین بھی چھین لی، لڑکی جنت نشے کا شوق رکھتی ہے اور مدعی کی بیٹی کو بھی نشے میں ملوث کرنا چاہتی تھی، بیٹی کا نشہ سے منع کرنا اسے مہنگا پڑ گیا۔ ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تین طالبات نے اپنی ہی ہم جماعت کو زمین پر لٹا رکھا ہے، ایک طالبہ متاثرہ لڑکی کے بال کھینچ رہی ہے اور اس کے منہ کو فرش پر مار رہی ہے، دوسری لڑکی متاثرہ لڑکی کی ٹانگوں پر بیٹھی اور تیسری لڑکی متاثرہ لڑکی کے منہ پر ٹھڈے مار رہی ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے طالبات عمائمہ، جنت ملک اور کائنات کی عبوری ضمانت پر سماعت کی۔ طالبات کے وکیل نے دلائل دیے کہ پولیس نے حقائق سے برعکس مقدمہ درج کیا، طالبات کسی قسم کے تشدد میں ملوث نہیں۔ وکیل نے استدعا کی کہ عدالت ضمانت منظور کرے تاکہ تینوں طالبات شامل تفتیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔

عدالت نے تینوں طالبات کی تیس جنوری تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے پچاس پچاس ہزار کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔ وکیل صاحب کا اس واقعے کے ویڈیو ثبوت کے بعد بے گناہی کی بات کرنا اور پھر جج صاحب کی وکیل صاحب کی ہمنوائی میں عبوری ضمانت دینا بھی عجوبہ ہی کہلائے گا۔

اس واقعے کی معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کے افراد اور سماجی حلقوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی۔ بچوں اور بچیوں کی اخلاقیات سنوارنے کے حوالے سے کلاسز کے اجراء پر زور دیا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ والدین نے اپنے بچوں پر نظر رکھنا چھوڑ دی ہے۔ لڑکیوں نے اپنی کلاس فیلو کو اس لیے نشانہ بنایا کہ اس نے اپنے ساتھی طالبات کی منشیات استعمال کرنے کی ویڈیو ریکارڈ کر کے اپنے والد کو دکھائی تو والد نے مشتبہ ملزمہ کے والد کو وہ ویڈیو شیئر کردی جس پر لڑکیوں کو غصہ آیا اور انہوں نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ ایسے واقعات کے ذمہ دار بچوں کے والدین اور تعلیمی ادارے مشترکہ طور پر ہیں۔ منشیات کے بے جا اور میڈیا کے منفی استعمال سے بچے اور نوجوان غلط راہ پر چلے گئے ہیں۔ جب شراب، چرس باآسانی یونیورسٹی میں مل جائے تو ایلیٹ کلاس کے نوجوان طلبہ و طالبات کو بگڑنے سے کون روک سکتا ہے؟

تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف قوانین و ضوابط بنانا ضروری ہیں۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے پر تشدد واقعات ملک میں سماجی زوال کی عکاسی کرتے ہیں۔ گھر، سکول اور معاشرے میں اصلاحی رویے کی ضرورت ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو ان واقعات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، جن کی ویڈیو نہیں بن پاتی مگر بچوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبات کو قبل از گرفتاری ضمانت دینے پر بھی لوگ عدلیہ پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس واقعے کا منفی پہلو صرف طالبات کا ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کرنا ہی نہیں بلکہ وہاں موجود تماشا دیکھنے والوں کا کردار بھی قابل گرفت ہے جو اس تشدد پر خوش ہو رہے تھے اور اسے روکنے کے بجائے ویڈیو بنانے اور اپ لوڈ کرنے میں مشغول تھے۔ غفلت کی مرتکب سکول کی انتظامیہ کو بھی شامل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ایک طالبہ کی جان خطرے میں تھی۔

یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ چونکہ متاثرہ لڑکی کے والد نے ایف آئی آر میں طالبات کی جانب سے نشے کے استعمال اور اقدام قتل جیسے الزامات بھی عائد کیے ہیں، تو ان پہلوؤں پربھی تفتیش ہونی چاہیے۔ ستمبر 2022 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید اور فروخت کی پاداش میں کم از کم دو برس قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جیسی سزائیں جلد ہی متعارف کرائی جائیں گی۔

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی پر اتفاق ہوا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کے لیے ایک آزاد ادارہ اور اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ایسے واقعات پر قانونی ہی نہیں معاشرتی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

نارکوٹکس کے معاملے پر پہلے سے ہی پاکستان کے بہت سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی روشنی میں ملک میں موجود ان مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی ادارے اس طرح کی برائیوں سے بچ سکیں۔ یہ مسئلہ صرف سزاؤں سے حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں منفی رجحان کو معاشرتی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ یا طالبات کسی معاشرتی دباؤ کی وجہ سے منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہیں تو پھر ان مسائل کا سد باب ضروری ہے۔

یہ واقعہ ہماری معاشرتی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی کمی سوک ایجوکیشن کا تصور نہ ہونا ہے۔ سوک ایجوکیشن کے ذریعے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون کیا ہے اور اس پر عملدرآمد معاشرے کے آگے بڑھنے کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے۔ اختلاف کیسے کرنا ہے، معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں، کسی کی بات بری لگے تو کیا کرنا ہے۔ یہ سکول کا کام ہے کہ وہ بچوں کو سوشلائز کریں اور مختلف موضوعات اور مسائل پر بحث کا آغاز کریں۔ ’مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ قانون کی عملداری کا ہے اور اگر اس میں خامیاں ہیں تو انہیں پہلے دور کرنا چاہیے۔

قانون کے مطابق کسی تعلیمی ادارے کی حدود میں سگریٹ اور پان کی دکان بھی نہیں کھل سکتی تو سکول کے اندر منشیات کا پہنچ جانا کیسے ممکن ہوجاتا ہے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے نشہ کے دینی اور دنیوی نقصانات کو واضح کیا جائے۔ والدین گھروں کے ماحول میں اصلاحی اقدامات کریں۔ بچوں کی اخلاقی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ ان پر نظر رکھیں اور انہیں بری صحبت سے بچائیں۔ خطبات جمعہ میں علمائے کرام تحقیق کر کے ایسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کریں تاکہ لوگوں کی راہنمائی کی جا سکے کہ خود اس سے کیسے بچیں اور اپنی اولادوں کو کیسے بچائیں۔ بچوں کے لئے صحت افزا سرگرمیوں کا ماحول پیدا کیا جائے۔ انہیں کھیلوں اور رفاہ عامہ کے کاموں کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ ایسی فضولیات کی طرف جانے کی بجائے وہ خوشگوار سرگرمیوں میں مصروف عمل رہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کے خاتمے سے متعلق قوانین کو مزید مضبوط بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments