کراچی بلدیاتی انتخابات میں پختون قوم پرست جماعتیں کیوں ناکام ہوئیں؟


کراچی جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے دوسرے طرف اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اور ایک اندازہ کے مطابق یہاں پختونوں کی آبادی تیس سے چالیس لاکھ کے قریب ہے جو کہ اکثر کراچی کے گیٹ ویز پر آباد ہے۔ جس میں لانڈھی ٹاؤن۔ بلدیہ ٹاؤن کیماڑی ٹاؤن اور سہراب گوٹھ کے علاوہ سایٹ ٹاؤن سر فہرست ہے۔ اگر ہم کراچی کے بلدیاتی الیکشن پر نظر ڈالے تو ماضی میں سائیٹ ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن میں پختون قوم پرست جماعت اے این پی کے ٹاؤن ناظمین رہے ہیں۔

اس کے بعد 2008 کے جنرل الیکشن میں بھی اے این پی کے کراچی سے دو ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جن میں سے ایک پانچ سال تک پی پی پی کے اتحادی حکومت میں وزیر محنت رہے۔ یاد رہے کہ اس حکومت میں کیماڑی ٹاؤن سے پی پی پی کے ایک پختون جیالا وزیر ٹرانسپورٹ بھی تھا۔ 2013 اور 2018 کے تبدیلی انقلاب نے اگر ایک طرف سندھ میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ووٹ بینک کو اپنے طرف متوجہ کیا تو دوسرے طرف 16 میں سے 12 کے قریب پختون ایم این ایز منتخب کرا کر پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو پختون آبادیوں کا نمایندہ جماعت کے طور پر پیش کیا۔

اس کے علاوہ تین چار صوبائی اسمبلی ممبران بھی پختون منتخب ہوئے۔ دوسرے طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی لانڈھی ٹاؤن سے آغا رفیع اللہ اور پھر ضمنی الیکشن میں سایٹ ٹاؤن سے قادر خان مندوخیل کو منتخب کر کے پختون ووٹوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ کراچی میں قوم پرستی کے متبادل پی پی پی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کراچی شہر جو عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے لئے ایک نرسری کا کردار ادا کر رہے تھے ایسا کیا ہوا کہ ایک دم ان کے تنظیمیں ڈھانچے بھی کمزور ہونے اور وہ پارلیمانی سیاست سے بھی آؤٹ ہوتے جا رہے ہے۔

اس کی بہت سے وجوہات ہے لیکن بحیثیت ایک سیاسی کارکن میری نظر میں اس میں اول پارٹی کے تنظیموں پر اجارہ داری اور آمریت۔ موروثیت ہے پارٹی کو ون مین شو بنایا گیا ہے۔ تنظیم نام کے کوئی چیز نہیں باچا خان مرکز کے جگہ اپنے گھروں میں پارٹی پروگرامات اور تنظیم میں شدید دھڑا بندی شامل ہے۔ دوسرے طرف مضبوط طلبا تنظیم پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور نوجوانوں کے ونگ این وائی او کو کھڈے لائن کرنا۔ کراچی میں ڈومیسائل، پی آر سی اور ڈبل ایڈریس جیسے بنیادی مسائل پر خاموشی اور سندھی میں پی پی پی کے اتحادی ہو کر چپ کا روزہ رکھنا سرفہرست ہے۔

حلقہ بندیوں میں سب سے زیادہ نقصان پختون آبادیوں کا ہے لیکن اس پر بھی مکمل خاموشی اور کچی آبادیوں کے مسماری، گجر نالہ کے ایشو پر چپ کا روزہ رکھنا بھی ایک وجہ ہے۔ اور یہیں حال پی کیو میپ اور نئے قیام ہونے والے جماعت این ڈی ایم کا بھی ہے جن سے بہتر نتائج کے توقع کے جا رہی تھی۔ لیکن ان کے تیاری بھی صفر رہی۔ ان سب کمزوریوں کے وجہ سے پی پی پی اور پی ٹی آئی بشمول جماعت اسلامی پختون ووٹ کو اپنے طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی اور قوم پرست پختون جماعتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

کیونکہ جب آپ کا لیڈر وزیراعظم بلاول کا نعرہ لگایا گیا تو ورکر بھی سوچنے پر مجبور ہو گا کہ میرے مفادات سندھ سے وابستہ کوئٹہ اور پختون خواہ کے سیاست سے کیا لینا دینا۔ اگر یہی حال رہا اور کوئٹہ اور پشاور نے صوبائی تنظیموں پر توجہ نہیں دی تو آنے والے وقتوں میں سندھ کے پختون ان جماعتوں کے زیر سایہ ہوں گے یا اپنے ہے الگ جماعت بنا کر جو سندھ صوبہ میں ان کے مفادات کی محافظ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments