پاکستان کے اٹارنی جنرل کا عہدہ ایک ماہ سے خالی کیوں


قانون
پاکستان کے اٹارنی جنرل کا عہدہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے خالی پڑا ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے اس بارے میں تحفظات کے اظہار کے باوجود ابھی تک اس اہم عہدے پر کسی شخص کو تعینات نہیں کیا گیا۔

پیر کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹیکس معاملات میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی تعیناتی پر سوال اٹھایا اور کہا کہ کیا حکومت اس تعیناتی پر کسی سے سودے بازی کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد وکیل ہیں اور حکومت کو ان میں سے ایک بھی قابل وکیل نہیں مل رہا جسے اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات جا سکے۔

عدالت کی طرف سے یہ آبزرویشن بھی آئی کہ ابھی عدالت پیار سے کہہ رہی ہے کہ اٹارنی جنرل تعینات کر دیں اور اٹارنی جنرل تعینات نہ کر کے حکومت آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

اٹارنی جنرل کی ذمہ داری اور اہم کیسز

پاکستان کی سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹس میں آئینی اور انتظامی معاملات کے علاوہ بیرون ممالک پاکستان کے بطور ریاست مقدمات کی پیروی اور عدالتوں کی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کی موجودگی ناگزیر ہے۔ انھیں ملک کا چیف لا افسر بھی کہا جاتا ہے۔ 

اس وقت سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز اور فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی اپلیں بھی زیر التوا ہیں۔ 

اس کے علاوہ متعدد آئینی درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں جن میں پنجاب اسمبلی کے ارکان کا پارٹی پالیسیوں سے انحراف کر کے مخالف پارٹی کو ووٹ دینے پر نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں بھی شامل ہیں۔ 

انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کا معاملہ بھی اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس معاملے میں بھی اٹارنی جنرل کے علاوہ ان کا کوئی ماتحت لاء افسر پیش نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ

اشتر اوصاف کا استعفیٰ اور عثمان منصور کا انکار

اشتر اوصاف ایڈووکیٹ دوسری مرتبہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تھے لیکن انھوں نے خرابی صحت کی بنیاد پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور صدر مملکت نے گذشتہ ماہ ان کا استعفیٰ منظور کر لیا تھا۔

کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے متعلق بنائے گئے سپریم جوڈیشل کمیشن میں جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے پیش کیے گئے ناموں کو مسترد کر دیا گیا تھا تو اس وقت اشتر اوصاف جو کہ اٹارنی جنرل تھے اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے رکن بھی تھے، اُنھیں واضح مؤقف اختیار نہ کرنے پر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اشتر اوصاف کے مستعفی ہونے سے پہلے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا نام  بطور اٹارنی جنرل  سامنے آیا تھا تاہم انھیں احتساب سے متعلق وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا۔

اشتر اوصاف کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے اس عہدے پر تعیناتی کے لیے عثمان منصور اعوان کا نام سامنے آیا اور کہا گیا کہ انھیں اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔

چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹیکس کے معاملے میں ایک کیس میں عثمان منصور اعوان حکومت کے مخالف وکیل کے طور پر پیش ہوئے اور مقدمے کی سماعت ملتوی ہونے کے بعد جب کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ ان کا بطور اٹارنی جنرل تقرری نوٹیفکیشن جاری کیوں نہیں ہوا اور کیا ان کے نام پر کسی کو تحفظات ہیں تو عثمان منصور اعوان نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور محض یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جیالے خاندان سے تعلق رکھنے والے اٹارنی جنرل کا آخری لیکن اہم مقدمہ

عثمان منصور اعوان

عثمان منصور اعوان

قانون کے مطابق ایڈشنل اٹارنی جنرل، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل سے ہدایات لیے بغیر عدالتوں میں پیش نہیں ہو سکتے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق وہ اٹارنی جنرل کے عہدے سے متعلق وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے اور ان کے بقول وہ بھی عثمان منصور اعوان کو بطور اٹارنی جنرل دیکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم عثمان منصور اعوان نے پروفیشنل ذمہ داریاں زیادہ ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے اٹارنی جنرل کا عہدہ قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کا سب سے بڑا خدشہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی ہے جس میں وہ وزیر اعظم کی رائے کے پابند نہیں ہونا چاہتے۔

انھوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل ایسے شخص کو ہونا چاہیے کہ اگر حکومت وقت کوئی خلاف قانون کام کرے تو اس کے خلاف بھی کھڑا ہو جائے۔ عثمان منصور کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے پسند اور ناپسند کے معیار کو ختم ہونا چاہیے۔

عثمان منصور کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ جس شخص نے بطور جج ہائی کورٹ میں پانچ سال کام کیا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے اس کے علاوہ آئین میں اس بارے میں اور کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔

قانون

انھوں نے کہا کہ نہ تو سنیارٹی کے اصول کے قائل ہیں اور نہ اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان کے چیف جسٹس کے پاس اعلیٰ عدالتوں میں تعیناتیوں سے متعلق نام تجویز کرنے کا اختیار ہو۔

انھوں نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اٹارنی جنرل نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ممالک میں مختلف فورم پر بھی پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے اور قانون اور آئین پر عبور رکھنے والا شخص ہی نہ صرف ملکی عدالتوں بلکہ بین الاقوامی فورم پر بھی وفاق اور ریاست کا بہتر انداز میں دفاع کر سکتا ہے۔

عثمان منصور اعوان کی طرف سے معذوری ظاہر کرنے کے بعد حکومت نے ایک مرتبہ پھر کسی موزوں شخص کی تلاش شروع کر دی ہے جو سپریم کورٹ کے علاوہ ملک کی ہائی کورٹس میں بھی وفاق کا دفاع کر سکے۔

آئینی امور کے معاملات دیکھنے والے وکیل جاوید انور میر کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل اہم آئینی اور دیگر امور میں وفاق اور حکومت وقت کی نمائندگی کرتا ہے اور حکومت کا مؤقف عدالت میں پیش کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی رہی ہے کہ میرٹ کے بجائے حکومت وقت اپنے من پسند افراد کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کرتی ہے جبکہ یہ عہدہ انتہائی اہمیت اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی حیثیت ایک کپتان کی ہوتی ہے اور ’جس ٹیم کا کپتان ہی نہ ہو وہ ٹیم کیا پرفارمنس دے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments